آج لکھناکچھ اورچاہتی تھی ۔موسم بہارگل ولالہ پربات کرناچاہی مگربھول گئی کہ میرے وطن میں بہار کاموسم آتاہے اورکبھی آیابھی تو ہمراہ عدوئے جاں لے آیا۔کبھی پھول جلے اورکبھی کلیاں مسل دی گئیں 4مارچ ایساہی دن تھاکہ نہتے نمازی ماردیئے گئے ۔بے بس انسان ایک موت پرصبرکے قابل کہاں اوریہاں توساٹھ جنازے لاکر ہمارے سامنے رکھ دیئے ۔
کیاہمیشہ کی طرح قاتل خفیہ ہی رہے گا۔ہماری ایجنسیاں اتنی ہی کمزورکے ظالموں کودبوچنے سے قاصر ہیں۔
قارئین کرام آج سوشل میڈیاپرایک پوسٹ نظرسے گزری ”سار ی قوم دااِکونعرہ ،لٹن والے آن دوبارہ “توقارئین آپ رائے دیجئے ،کہ آپ کے پاس کوئی بہترچوائس ہے ؟مجھے تودور دور تک دکھائی نہیں پڑتاایک بھی مائی کالال سیاستدان جوغیرمتنازع ہو۔سابقہ سے لے کر موجودہ تک کسی کو تولکھنے والوں نے چارمرلے کے مکان سے چارمرلے کے کچن تک لکھا،کسی نے کہاابھی تک تو لوہے کے کڑاہے بنائے ،کسی کاباپ پراندے بیچتا ،کسی کاداداپھول بیچتا،کسی کے باپ کی سائیکل پنکچرشاپ ،کسی کے دادا کو انگریزجاگیربخش گیا ،کسی کو درباروں کی چابیاں جاتے ہوئے کوئی گورا دے گیا۔کوئی مسٹرٹین پرسنٹ ،کسی پہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کاالزام ،موجودہ دورمیں بھی چند اینکر حضرات شواہد دکھادکھاکر پروگرام کرتے رہے ۔مگرکوئی جواب نہ آیا،نہ کسی عدالت میں ہمت ہوئی کہ وضاحت طلب ہوتی نہ اینکر کوبلایایاکسی نے یہ جھوٹ کیوں باندھا۔بہرحال جوبھی ہو امیں اسی نتیجے پرپہنچی کہ ہرجانے اورآنے والے کی تگ ودواپنے مالی معاملات توبڑھانے تک ہی تھی ۔اس سے زیادہ ان کے لئے یہ ضروری تھاکہ رعایا کو خط غربت تک گرانے کے لئے تگ ودوکی جائے تا کہ عوام روٹی اورپیٹ کے چکر میں الجھی رہے ۔ایسا ظاہری طور پر کئی بارہوا۔بیروزگاری ،مہنگائی روزاول سے مسئلہ رہا ۔
کبھی ہم روٹی کپڑامکان میں الجھے کبھی پیلی ٹیکسی کبھی بینک قرضے اورآخر کارموجودہ حکومت کااعلان کہ اتنے حکومتی وسائل نہیں کہ نوکریاں دی جائیں لہذا نوجوان کاروبارکی طرف سوچیں ،میں اپنے ارد گرد روزانہ مشاہدہ کرتی ہوں کہ کس طرح نوجوان صبح سے شام تلاش روزگارمیں سرگرداں پھررہے ہیں ۔مگر امراکی بے روزگاراولادیں صرف شادی جشن تین تین ماہ مناتی ہیں اورہم وہ بے حس قوم ہے کہ ان امراءکے سامنے ناچتے نہیں تھک رہے ۔کسی نے ریاست مدینہ کی بڑھک ماری مگرکسی فرد واحدنے بھی یہ سوچنے کی جسارت نہ کی کہ اگریہ ملک ریاست مدینہ بن گیا تومیں اس معیار کاشہری ہوں جومدینہ ریاست میں رہاکرتے تھے ۔کبھی سڑک کے کنارے ٹھہرکرمیرے لوگوں کے رویئے دیکھئے ۔ایک حکمران کے اعلان سے ریاست مدینہ نہیں بنتی صاحب۔ریاست کے شہریوں سے بنتی ہے ۔چلیں آئیں میرے ساتھ اپنے ہی شہر میں صرف ایک گھنٹہ گھومتے ہیں ۔
چلئے ایوان عدل سے سفرکاآغازکریں ۔یہ لیں یہاں سے توگزرنا ہی جان جوکھم کاکام ہے کہ کچہری کی گاڑیوں نے آدھی سے زیادہ سڑک گھیر رکھی ہے ۔خدانہ کرے کبھی ایمبولینس کاادھر سے گزر ہوجس میں مریض پر ایک ایک لمحہ گراں ہو۔چلئے اب کچہری چوک سے گھنٹہ گھر کی طرف ریڑھیوں نے اس طرح پوری سڑک پرڈیرہ جمارکھاہے سڑک صرف انہیں کے لئے بنائی گئی ہے ،چلئے ان سے بات کرکے سمجھاتے ہیں کہ سڑک گزرگارہ ہے ،اللہ نہ کرے یہ سننے کوملے بھائی اپنا راستہ لو ،ہم ماہانہ دیتے ہیں کوئی مائی کالال ہمیں نہیں ہٹاسکتا۔فٹ پاتھ پرپیدل چلنے والوں کا حق ہے مگرآپ کو ایک بھی فٹ پاتھ خالی نہیں ملے گا۔شہر کے تمام سٹال فٹ پاتھوں پرسجے ملیں گے ۔ریاست مدینہ کی بات کسی نے نادانی میں پھینک دی ،میرے معصوم ہم وطنو کہاں جاﺅگے اگرریاست مدینہ سچ مچ بن گئی ۔
وطن سے غداری کی سز اموت ہے آپ کے آدھے سے زیادہ نیتایعنی لیڈر زکاسفایایقینی ہے ۔کچھ صحافی بھی تختہ دار پرہوں گے ۔گوالے سارے اورشوگرملوں کے مالکان جن کے خفیہ ذخیروں میں ٹنوں کے حساب سے چینی ابھی بھی پڑی ہے ۔اورصاحب جن ہوٹلز پرکتے کاگوشت پکاملا ان کاکیابنے گا۔شراب پرسزائیں ملنے لگیں تو کہیں کوئی آپ کاپیشوا ،سیاسی روحانی جذباتی کوئی بھی ہو کوڑوں کاشکار نہ بن جائے ۔توشکر کیجئے ریات مدینہ بڑھک تھی حقیقت نہیں ۔ریاست مدینہ میں تورشوت لینے اوردینے والادونوں جہنمی تواس کی کڑی سزامتعین کردی جائے گی پھر تو ہردفترمیں کام رک جائے گا۔ملازمین بورہوجائیں گے ۔اس فہرست کاکیا بنے گا کہ ججز جرنیل بیوروکریٹس سیاستدان اورایک نئی فہرست کے مطابق پیرومرشد صاحبان کے پاکستان سے باہر اتنی جائیدادیں ہیں کہ سن کر ہوش اڑجائیں اورمزے کی بات یہ کہ ایک کراچی کاغریب بوریانشین مولوی مرا تو اربوں روپے پراولاد لڑتی ہوئی عدالت جاپہنچی ۔ریاست مدینہ کی خواہش رکھنے والے سادہ لوح لوگو !
چپ کرجاﺅ ،شایدپاکستان واحدملک ہوجہاں گداگری باقاعدہ ایک پیشہ ہے کبھی سڑک کنارے کھڑے ہوکر دیکھیں ،کیسے کیسے صحت مند لوگ مانگتے نظر آئیں گے ۔اوربھکارن کے روپ میں عورتیں نوجوانوں کو بہکاتی پائی جائیں گی ۔مجھے پتہ چلاکہ باقاعدہ ان کے ٹھیکیدار ہوتے ہیں جو مختلف جگہوں پران گداگروں کوچھوڑتے بھی ہیں اورنگرانی بھی کرتے ہیں ۔گودمیں لینے کے لئے بچہ کرائے پرملتاہے ۔
آج ہی اتفاق ہو اگلگشت جانے کا ،تقریباََتین گھنٹے پہلے ایک لڑکی کی گود میں سویاہوا بچی دیکھا ۔اسی جگہ سے گزرہواتوبچہ اسی طرح سور رہاتھا۔میں نے اشارے سے بلایا وہ میری طرف لپکی کہ شاید خیرات دینی ہے ۔میں نے بچے کوہلایا وہ بے سدھ تھا۔میں نے کہایہ بچہ تیرانہیں ہے ،نشہ کیوں دیاہے اسے ۔وہ تیزی سے بھاگ کھڑی ہوئی ۔جنا ب یہ منظر کشی ہے آپ کی ریاست مدینہ کی ،ابھی ریاست مدینہ کے بہت سے نظارے ہیں ۔
فیس بک کمینٹ