معزز قارئین آ پ سوچیں گے یہ میں نے کیا لکھ دیا معذرت کے ساتھ جو ارد گرد دیکھ رہی ہوں وہی لکھ رہی ہوں لیکن اس ایک ہفتے میں جو نظر سے گزرا صرف وہی گوش گزار کرتی ہوں۔
بات اکثریت کی ہوگی اکا دکا کی بات نہیں ہے۔ دو روز قبل ایک شادی میں شرکت کی اور کھانا چنا گیا تو گنہگار نظروں نے جو کچھ دیکھا دماغ شل ہو گیا۔ تقریباً ہر خاتون کے ساتھ چھوٹے بڑے تین چار بچے تھے ، جس بد تہذیبی سے کھانا کھایا گیا اس کی تو بات ہی نہ کریں۔ میرے ساتھ بیٹھی خاتون نے زردے کی پوری ٹرے شاپربیگ میں الٹ لی. بالکل ساتھ کھڑی ایک خاتون کا بچہ ماشاءاللہ بہت ایکٹو تھا اس نے دوڑ دوڑ کر ماں کو دوسرے ٹیبل سے بھی میٹھے کی ٹرے اور قورمہ لا دیا خواتین شاپروں کا بندوبست کر کے آ ئی تھیں اور ان کے بچے بہترین سپاہی بنے ہوئے تھے۔ معزز سامعین زردہ قورمہ تو شاید بڑا نایاب کھانا تھا کہ جمع کیا جا رہا تھا خالی پانی کی بوتلوں میں سوڈا واٹر بھرتے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا یعنی معاشرہ کافی ترقی کر چکا ہے کہ کولڈ ڈرنکس خالی بوتلوں میں بھری جا رہی تھیں ۔ شادی ہال کے بیرے بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔ میں نے ایک کو بلا کر کہا کہ عورتوں کو منع کرو وہ بولا باجی پورا حال ہی یہی کر رہا ہے ہم نے منیجر صاحب کو بتایا ہے شادی کے میزبان کہہ رہے ہیں آ پ لوگ منع کریں، ہم سے تو لڑ پڑیں گے کیونکہ رشتہ دار ہیں۔
ایک بیرے نے بتایا کہ ہم تو روزانہ یہی دیکھتے ہیں ہر شادی میں خواتین ایسے ہی کرتی ہیں ۔ میں حیرت کا بت بنے ابھی دیکھ ہی رہی تھی کہ پتا چلا کچھ مہمان آخر میں تشریف لائے ہیں اور کھانا ختم ہو چکا ہے ۔ معزز سامعین میں شاپروں میں کھانا بھرنے اور مزید مہمانوں کے بھوکا رہ جانے پر افسوس نہیں کر رہی یہ میری نظر میں بڑی چھوٹی بات ہے میں عرض کروں گی ان بچوں سے متعلق جو ہر عورت کے ساتھ تین چار یا پانچ بھی تھے اور اس نے ان معصوموں کو کھانا جمع کرنے، شاپروں میں الٹنے پر لگا رکھا تھا ۔ ان کی تربیت ان کے دماغوں کو کیا سکھا گئی ؟ وہ تو آ گے قوم کو بدتہذیبی کا ایسا سبق نقش کر گئی کہ استاد یا معاشرہ اب اس نقش کو مٹا نہیں سکتا۔ یہ ایک عام درمیانہ طبقے کے لوگوں کی تقریب تھی لیکن یاد رہے یہاں اکثریت ایسی درمیانے طبقے کی ہی ہے امرا تو بہت کم ہیں تو جناب درمیانہ سے ذرا اوپر طبقے کے فنکشن میں حاضری کا اتفاق ہوا یہ ایک کاٹن فیکٹری کے بیٹے کی شادی کا احوال ہے جس میں ملتان شہر کی سیاسی شخصیات اور اروباری حضرات بھی تھے میرے ساتھ بیٹھی خاتون کو چمچ نہیں ملا وہ کھیر کی ٹرے میں ہاتھ سے لپ لپ کر کے کھا رہی تھی۔
مجھے پتا چلا یہ ایک انڈسٹری مالک کی بیوی ہے اور ساتھ کھڑی تقریباً چار سالہ بچی کو بھی اسی طرح کھلا رہی تھی اور کیا کہوں صاحبو یہ میری ماں ہے اس لیے پھر کہوں گی نہ کر میری ماں ایسا نہ کر نہ کر ایسا کیونکہ تیری گود میں میری قوم پلتی ہے ایسا نہ کر۔۔۔ تو صرف ماں نہیں پہلی استانی ہے وہ استانی کہ تیرا یاد کرایا سبق میری قوم کے بچے کبھی نہیں بھولیں گے۔
مجھے یاد ہے میرے شوہر ایم ایس تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال شجاعباد تھے تو وہاں کوئی تقریب ہوئی ہوگی تو ایک سینیئر نرس مجھ سے کہنے لگی کہ باجی کچھ ڈاکٹروں نے جس انداز میں کھانا کھایا میں نے اندازہ کر لیا اسی سے کہ ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہوگا حالانکہ وہ نرس اور ان کی ماتحت تھی۔۔ پھر میں نے سوچا کہ انگلستان کے لیے مشہور تھا کہ یہاں کے لوگ بیٹی کی شادی کرتے تو لڑکے کو کھانے پر مدعو کرتے اوراس کے کھانے کے انداز سے اس کی شخصیت اور تربیت کا اندازہ کرتے تو وہ نرس ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔۔
سامعین یہ رونا میں گھریلو خواتین کا رو رہی ہوں شعبہ وکالت سے تعلق کی وجہ سے مجھے لکھنے میں کوئی عار نہیں کہ ہائی کورٹ بار یا ڈسٹرکٹ بار میں سال کے آ خر میں ڈنر کا انتظام کیا جاتا ہے مجھے یاد ہے کہ تقریب کے اختتام پر اعلان ہوتا رہا کہ کھانا وافر مقدار میں موجود ہے سکون سے کھائیں۔ آپ ہی کے لیے لگایا گیا ہے مگر ایسی بھگدڑ تھی کہ دھول اڑنے لگی برتنوں کے شور میں اعلان کرنے والے کی آواز دب گئی. بس کچھ نہ پوچھیں اور میں کریم آف دی نیشن کےکھانا کھانے کا انداز دیکھ کر اب سوچتی ہوں کہ یہ وہی بچے ہیں ان کی پہلی استانی غلطی کر گئی اب یہ بچے ہماری بات کہاں سنیں گے.. کھانے کے وقت ایسی دھکم پیل ہوئی کہ چند سال پہلے ایک وکیل دیگ میں گر گیا تھا مجھے یاد ہے ہماری مہمان خصوصی خاتون جسٹس تھی اس تقریب میں ۔۔ ایک اور ڈنر میں ایسی بھگدڑ ہوئی کہ مہمان خصوصی جسٹس صاحب دھکم پیل میں گر گئے اکثر سیاسی جلسوں کی ویڈیوز میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں کہ کھانے پر کس طرح چھینا جھپٹی ہوتی ہے اور ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جس میں ایک سیاسی رہنما کی سالگرہ منائی جا رہی تھی اور آخر میں کیک کے ساتھ جو ہوا وہ چشم تصور میں آج بھی سوچو تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں .آپ لوگ میڈیا پر تلاش کریں وہ ویڈیو مل جائے گی. یہ رویہ کیوں ہے آخر اس کے محرکات کیا ہوں گے؟
ابھی پچھلے دنوں کی ایک شادی جس کا ذکر میں نے گزشتہ صفحات میں کیا ذرا سوچیں بوتلیں دوسری بوتلوں میں الٹنے سے گیس ختم بد ذائقہ ہو گئی ہوں گی اور شدید گرمی میں شاید گھر تک پہنچتے بند شاپر بدبو چھوڑ چکے ہوں گے۔ پھر مجھے ایک مذہبی سکالر کا بیان انگریزوں سے متعلق یاد آیا کہ اگر بے راہ روی وہ لوگ چھوڑ دیں تو قرون اولی کے مسلمانوں جیسے ہیں. آپ برا مانیں یا بھلا مگر میں کہوں گی کہ عورت کی ڈیوٹی زیادہ ہے اور ہر قوم عورت کا چہرہ ہے اور ہر قوم اپنی ماں کا بہترین تعارف ہے یہ کمزور پڑ گئی تو سب کچھ ڈوب گیا یہ بد تہذیبی بہت ننھی منی سی ہے. اگلے کالم میں جسارت کروں گی کہ عورت کہاں کہاں کمزور ہے کیونکہ وہ رشوت کے نوٹ شوہر کے ساتھ بیٹھ کر گنتی ہے ان کو ٹھکانے لگانے کی پلاننگ کرتی ہے اور بھول جاتی ہے کہ یہ حرام لقموں سے میرے بچوں کا خون اور گوشت بنے گا تو پھر یہاں ایسی اولادیں ہی پنپیں گی جو آئے روز خبروں کی زینت بنتی ہیں.
فیس بک کمینٹ