مادھوری پہ تو بہت بعد میں کسی نے ہرا رنگ ڈالا ہم تو B.Z.U کے شعبہ باغ و بہار میں دوران تعلیم ہی نگہت عالیہ خان کے عشق مجازی کی ہریالیاں دیکھ چکے ہیں۔ عالیہ آپ کو عشق مجازی سے عشق حقیقی کا حسن سفر زیبا ہو۔ کمر بستہ آنکھوں والی تمکنت میں ملبوس عالیہ….برصغیر پاک و ہند کی سیدھ میں چلتی…. مریم ہاسٹل سے شعبہ اُردو میں یوں وارد ہوتی ہے جیسے پڑھنے نہیں پڑھانے آرہی ہو…. میرے مولانا رومی فرماتے ہیں۔
”عبادت کی اصل روح استغراق ہے“
نیم تاریک پنکھے سے ہلکورے لیتے پردوں والے کمرے کے سامنے سے ہم قہقہوں کو ضبط کرتے دبے پاﺅں گزرتے تو مدہم سی اللہ اللہ کی آواز سماعتوں میں جذب ہوجاتی…. عالیہ کو شاید اپنے اندر ”ان سنی“ سی لے کا ادراک نہ تھا….جس کی سرشاری پہ وہ کلم کلی مست رہتی۔ نزاکت ، ذ ہانت، شرارت اور متانت سے لبریز عالیہ اب ایک Preacher کے طور پر متعارف ہوئی ہیں۔ تاہم ان کی شخصیت میں قلب و نظر کا استحکام ایسا تھا کہ کوئی بھی شخصیت دوست یا سرگرمی ان کیلئے ناگریز نہ تھی۔ نتیجتاً عالیہ کے شخصی وقار میں ”شاہانہ پن“ دکھائی دیتا تھا۔
کون بلقیس دل میں اُتری ہے
دل سلیماں کا تخت لگتا ہے
سوشل میڈیا پر مذہبی مواد کی فراوانیوں کی برکات کے طفیل صاحب کتاب ہونا ”امر محال“ نہیں رہا…. مگر عالیہ تو صاحب قلم ہیں۔ صاحب علم و ہنر ہیں۔ علم کی شناور ہیں اور افکار حق کے تاب دارجواہر کی متلاشی چوکھی مبارکباد کہ انہوں نے آفاقی دین کی آفاقی سچائیوں کو قرآنی استدلال کیساتھ قلمبند کیا۔ ثابت ہوگیا…. ”اُردو والے“ بھی مسلمان ہوتے ہیں بعض زرا رومان پروری میں ”اتھرا پن“ اپنا کر رومانس کرتے کرتے فلرٹ بھی کرجاتے ہیں۔ آخر اس ”ارض و سما“ کی لامتناہی وسعتوں میں ”مالک کون و مکان“ سے بڑھ کر کون ہمارا اپنا ہے؟ یقین مانیے۔ عشق الٰہی…. عشق لاحاصل نہیں۔
دل سے ادا کیے گئے سجدے میں ماتھا زمین پر…. تو دل عرش پہ…. فرشتے بھی حضرت انسان کے ”عالم شوق“ کو پلٹ پلٹ کر پھر کیوں نہ دیکھیں؟
عالیہ کی کتاب ”رب سب کا“ سب رب کے کا موضوع قرآن حکیم کا حقیقی فکر اور فلسفی ہے۔ مصنفہ نے ”4“ ابواب قائم کرکے 22 موضوعات کو قرآن کے دلائل کیساتھ مزین کیا ہے۔ ”کتاب رب سب کا سب رب کے“ کی ”شان تخلیق یہ ہے کہ تخلیق کار نے الہامی کتاب کو موجودہ سماجی زندگی سے ہم آہنگ کرکے قرآنی استدلال کے توسط سے ”جیو اور جینے دو“ کا سہل رستہ دکھایا ہے۔ مصنفہ مذہب کے اطراف بچھی مسلک پرستی تو ہم پرستی اور فرقہ واریت کی خندقوں میں ایک جانباز کی طرح ”مورچہ زن“ ہوئی۔ تلوار نہیں کتاب ہاتھ میں لیے۔ خصوصاً ایک عورت کا شجاعت بھرا ”نعرئہ مستانہ“ مستحسن دلیری ہے۔
عالیہ نے اُردو ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور بارہا معترف ہوئیں کہ شعبہ اُردو کے محترم اساتذہ سر انوار احمد ،سر نجیب جمال ،سر عبدالرﺅف ،سر علم دار بخاری نے کتابی علم اور زندگی کے روّیوں کیساتھ ”اثبات“ اور پھر ”اثبات“ کیساتھ اظہار کا ہنر سکھایااور پھر یہی اثبات اظہار میری کتابوں میں در آیا۔ قانون کا علم سیکھا تو ظالم مظلوم، آقا، غلام اور غریب جاگیردارانہ نظام، کمی کمین اور عورت کا استحصال بھانپ لیا۔ جو دراصل ”طاقتور“ اور ”کمزور“ کی گھمن گیری ہے!
قرآنی تعلیمات کے توسط سے برابری اور عدل کے حقیقی شعور اور اطلاق سے ہی معاشرے کی ”حقیقی سمت“ متعین کی جاسکتی ہے!
میں سمجھتی ہوں کہ آب زم زم پی لینے سے کوئی جنتی نہیں بن جاتا…. قرآن مجید جیسی کتاب کاملہ کو محض رٹ لینے سے کوئی شخص عالم فاضل واقع نہیں ہوجاتا…. حقیقی شعور کے مطابق راہِ عمل ہی ”حق بندگی“ ہے۔
عالیہ لکھتی ہیں قرآن مجید کا آفاقی اور عالمگیر علم متقاضی ہے کہ ”متحد ہوجاﺅ“۔
خیال یہ ہے کہ ہمیں متحد ہونا ہے ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ متحد ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک جیسا سوچیں نہیں ہرگز نہیں۔ متحد ہونے کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم ایک جیسے ہوں نہیں ہرگز نہیں۔ متحد ہونے کا یہ مطلب بھی ہیں کہ ہماری چیز Similar ہو، ہرگز نہیں۔ متحد ہونے کا مطلب ہے کہ اختلافات ہونے کے باوجود ہم ایک دوسرے کو برداشت کریں۔
مسلمان کو ایک یونیورسل مسلمان بننا ہے۔ عالیہ واضح کرتی ہیں۔ قرآن مجید کے مطابق ایک مہذب مسلمان کو کیسا ہونا چاہئے؟ اسلام کا معنی کیا ہے؟ کتاب مبین کتاب کامل، حکمت و دانائی، حکم اور متشابہات کو آیات کی خود تفسیر کرنیوالی کتاب ہے۔ ہمارا نام نہاد ”مُلاّ“ سمجھنا ہے کہ وہ بطرز ٹارزن درختوں پہ اُچھلتا، کودتا، پھدکتا جنت کا ”رجسٹرڈ رہائشی“ ہونے کی حیثیت سے دنیا میں بھی بندر بانٹ کا حقدار ہے۔ گویا…. ساری دنیا ”گندہ بچہ“ اور وہ ٹھہرا ”مومن“ اور عالیہ چوتھے باب کے ذیلی موضوع ”اختلافات تو رہیں“ میں راقمطراز ہیں!
تو قرآنِ پاک میں ارشاد ہے یہ اختلافات تو ایسے ہی چلتے رہیں گے کیونکہ ان ہی اختلافات میں رہ کر حق بات کی پہچان کرنی ہے اور میں اسی سے سب کو آزما رہا ہوں…. لہٰذا جبرو زبردستی سے اختافات ختم نہیں ہوں گے۔ آیت ملاحظہ فرمائیں۔ 11 سورہ ہود کی آیت نمبر 118 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: بے شک آپ کا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بناسکتا تھا مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے۔
عالیہ نے انسانی زندگی کے انفرادی اختلافات، اجتماعی تضادات، گروہی نظریات کو قرآن حکیم کو ایک ”رہبرِ حیات“ کے طور پر رجوع کرنے پہ اصرار کیا ہے۔ صحائف، الہامی کتابیں زندگی کے تدریجی مراحل سے گزر کر قرآنِ مجید کے ”ارتقائی مقام“ تک پہنچ کر ”منزل رسا“ ہوتے ہیں۔
ملاحظہ کیجئے!
ترجمہ: آخرت کا یہ بھلا گھر ہم ان ہی کے لیے مقرر کردیتے ہیں جو زمین میں اونچائی بڑائی اور فخر نہیں کرتے نہ فساد کی چاہت رکھتے ہیں۔ پرہیزگاروں کے لیے نہایت ہی عمدہ انجام ہے۔
قرآن کا موضوع انسان ہے اور انسانی فطرت اور انسانی نفسیات ہے۔ اس کتاب میں انسان کی فطری بے قراریوں، بے چینوں، نفسیاتی اُلجھنوں، سلجھنوں کو یوں سموئے ہوئے کہ انسان کائنات میں ”پرتکریم رُوپ“ میں کیسے نکھر سکتا ہے۔ کیونکہ رب سب کا…. اور سب رب کے۔
کتاب کا اسلوب موضوع کو بھاری الفاظ اور ثقیل موجودات سے باوزن نہیں بناتا۔ تخلیقار اپنی کتاب کے مقدس موضوع کا زوم اپنی شخصیت پر طاری نہیں کرتیں۔ یوں لگتا ہے کہ عالیہ روبرو سادہ الفاظ میں ملاحت بھرے لہجے میں مدہم انداز میں قاری سے ہمکلام ہیں۔
کہنا بجا ہوگا کہ مخملی مخملی اسلوب میں ڈھلا ”آب زر“ سے لکھا ”عکس صحیفہ“ ہے۔ لفظ لفظ اُجالا ہے جو دلوں کی تاریکیوں کو منور کردینے کی طاقت رکھتا ہے۔
عشق سائیں کا اک نیا بلّھا
معرفت کی دھمال میں گم ہے
خواب زاروں کی خوش نگہ زگسی
سبزئہ پائمال میں گم ہے!
فیس بک کمینٹ