ہر نئے سال میں داخل ہونے پر گزرے ہوئے سال کا سیاسی ،معاشی ، امن و امان کی صورت حال اور حکومتی پالیسیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اندازے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس سال میں ہم نے قدم رکھا ہے وہ کیسا رہے گا۔ملک میں مسلسل سیاسی کشیدگی،دہشت گردی، ہوشربا مہنگائی اپنی جگہ مصمم حقیقت ہے،سیاسی کشیدگی سے ملک میں خوشحالی اور امن و امان کی صورت حال میں بہتری نہ آ سکی ۔مگر چاروں صوبوں کی کارکردگی کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو صوبہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز کی کارکردگی بہت بہتر رہی ۔ان مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے اندازا کیا جا سکتا ہے کہ 2025 ءکیسارہے گا۔ معشیت کی بحالی کے کئی اقدام اور پی آئی اے کی پروازو ں کی بحالی اور اس میں بہتر لانے کی کوششیں خوش آئند ہیں۔دہشت گردی پر قابو ،معشیت کی بحالی اورہوشربا مہنگائی پر قابو ،غریب عوام کی آمدن میں اضافہ جیسے اقدام کرنا ضروری ہیں۔ مگر پھر بھی 2025 سال نو میں بہتر ی کی توقع ہے۔
دوسری طرف کوششوں کے باوجود مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسیحی مذہبی اقلیت کو سال2024 میں بھی مذہبی شدت پسندی ، جان و مال کے عدم تحفظ ،امتیازی قانون و رویوں،اور نسل کشی ( جبری تبدیلی مذہب و نکاح) کا سامنا رہا ۔ جبری تبدیلی مذہب و نکاح میں کمی نہ ہوسکی ایک حساس اطلاع کے مطابق2024 میں 40 مسیحی لڑکیاں جبری تبدیلی ِ مذہب و نکاح کا شکار ہوئیں۔کئی قتل کے واقعات بھی پیش آئے جنہیں انصاف نہ مل سکا۔24مئی2024 ءکوسرگودھا میں ایک انسانیت سوز واقعہ پیش آیا جہاں مذہبی شدت پسندوں نے ایک کاروباری مسیحی بزرگ نذیرمسیح پر ظلم کی انتہا کر دی۔اس کو بڑی بےدردی سے اینٹیں اور پتھرمارمار کربے حال کر دیا کہ وہ ہسپتال ایمرجنسی میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہو ئے دم توڑ گیا۔ یہ سراسر قتل تھا۔اگرچہ کرسچن کمیونٹی کواس سال بھی مذہبی انتہا پسندی کا سامنا کرناپڑا ، مگرپھر بھی سانحہ جڑانوالہ جیسی دہشت گردی سے بچ گیا ۔ مسیحی کمیونٹی گذشتہ سال کے پہلے دس ماہ مذہبی انتہا پسندی اور خوف و ہراس کے دباو سے باہر نہ نکل پائی۔سیمسن سلامت چیرمین تحریک روادی پاکستان نے جنہیں این جی اووزاورمذہبی و سیاسی قیادت کی سرپرستی رہی ، سختی کے باوجودنا انصافیوں کے خلاف احتجاج کے سلسلے کوجاری رکھا ۔کچھ این جی اووز اور مذہبی قیادت نے وکلاء کی مدد سے قانونی جدوجہدکو جاری رکھا ۔یہ تمام جدوجہد حکومتی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ اگرچہ سانحہ جڑانوالہ اور سانحہ سرگودھا میں نذیر مسیح کے قاتلوں کواب تک سزا نہیں مل سکی مگر ایسا ضرور ہوا کہ ایوان بالا ،وفاقی اور صوبائی ایوان میں اقلیتوں پر ظلم و جبر کی آواز یں گونجنے لگیں۔
انٹر فیتھ ہارمنی کی کوششیں تیز ہونے اور پنجاب میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے مسیحی نمائندگان نے اسمبلی میں مسلسل آواز اٹھائے رکھی ۔جس کی بدولت ماہ دسمبرمیں کرسمس کے موقعہ پر وفاقی ، صوبائی اور لوکل سطح پر کرسمس کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ۔وزیراعلیٰ پنجاب نے کرسمس مالی امداد ی پیکج کا اعلان کیا اور نمائندگان کے ذریعے مستحق لوگوں کو امداد فراہم کی۔ جو ایک خوش آئند قدم ہے۔ صوبائی حکومت نے انتہا پسندی کے واقعات کی روک تھام اور اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے کئی اقدام کئے۔2025 میں اقلیتوں کو مذہبی انتہا پسندی یا کوئی ناگہانی حادثہ پیش آنے کی صورت میں الگ سے ایمرجنسی سیل بنا دیا گیا ہے جو امن ،جان و مال وامان کی صورتحال پر قابو پانے کا ذمہ دار ہوگا۔یوں اس سال اچھی امیدوں نے ابھرنا شروع کر دیا۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پولیس جس کا کام بلا امتیاز مذہب عوام کوجان و مال کا تحفظ دینا اور انہیں انصاف کی کورٹ تک لانا ہے۔اور عدلیہ کا کام انصاف مہیا کرنا ہے۔مگر پولیس کا سارا کا سارا نظام ہی بگڑا ہوا ہے۔ یہ خود دباو اور مذہبی تعصب کا شکار ہیں ان سے تحفظ اور جرائم کی روک تھام کی امید رکھنا بیکار ہے۔
عین نئے سال میں گوجرانوالہ کوٹ اسد اللہ میں سلیمان اور گوجرانوالہ میں ایک مسیحی خاتون شبانہ کا قتل ہوا۔صوبائی سیاسی نمائندگان کی کوششوں کے باوجود تاحال اس کا قاتل پکڑا نہیں گیا۔خیر امید کا دامن کا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ بہرحال گذشتہ سالوں کی نسبت یہ سال قدر ے بہتر ہونے کی امید رکھی جا سکتی ہے۔
میسال نو کے آغازہی میں ایک قابل ذکر بات سامنے آئی کہ 4 جنوری 2025 کو لاہور میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ، ڈی جی ISPR کے ڈائریکٹر جنرل ( ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی لاہور میں مختلف مذاہب کے رہنماوں اور سول سوسائٹی کے نمائندگان سے خصوصی ملاقات ہوئی ۔ مختلف مذہبی، سیاسی رہنماوں نے فوج کے اس اقدام کو سراہا۔ اس ملاقات کے دوران کئی سوال بھی جنرل احمدشریف صاحب سے کئے گئے ۔مثلاً مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے اور نادراکے ریکارڈ میں مسیحی آبادی کا کم ہونا بھی تھا۔ان سوالو ں کا جواب تسلی بخش نہیں مل سکا۔حیرت اس بات کی ہوتی ہے کہ کتنے مسیحی باہر کے ملکوں میں جاچکے ہیں ۔ ان کی اتنی بساط کہاں کہ وہ کسی بھی ملک کا ویزا حاصل کر سکیں اور سفر کے اخراجات پورے کرسکیں۔ جو گئے ہیں ان کی تعدادنہایت قلیل ہے۔ہجرت کرنے والوں کی تعداد برائے نام ہے ۔ بہرحال پاک فوج کا یہ ایک خوش آئند عمل تھا۔ اور ایسے اقدام پولیس اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی جانب سے بھی ہونے ضروری ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کو ملکی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر سنجیدگی سے سیاسی مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلے پاکستان کی خاطر فکری سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کو عوام کی خوشحالی اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے لئے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔بہرحال سال 2025 میں بہتری کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
فیس بک کمینٹ