کسی بھی معاشرے میں خاندان کا ادارہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ ایک دنیا میں آنے والے بچے کو ہی دیکھا جائے تو جب وہ دنیا میں قدم رکھتا ہے تو کسی بھی چیز سے واقف نہیں ہوتا لیکن سب سے پہلے وہ اپنے مشاہدات سے جس چیز سے آشنا ہوتا ہے وہ خاندان ہی ہوتا ہے۔سب سے پہلے وہ ماں سے آشنا ہوتا ہے۔پھر باپ سے پھر بہن بھائیوں سے اور باقی اہل و عیال سے مانوس ہوتا ہے۔یوں ماں کی گود سمیت خاندان اس بچے کے لیے بنیادی تربیت فراہم کرتے ہیں۔بات ذرا آگے بڑھتی ہے تو یہ بچہ اپنے مشاہدات ہی کی بنیاد پر معاشرے کی بنیادی اقدارکو اپنے خاندان ہی سے سیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان اپنی اس پہلی درسگاہ سے بہت محبت و عقیدت رکھتا ہے۔انسان کا اپنے خاندان سے جڑے رہنا معاشرے کے نظام کو بہتر بنائے رکھنے میں مدد دیتا ہے۔
ایک وقت تھا کہ مشرقی معاشروں میں خاندان کو ہر حوالے سے کلیدی اہمیت حاصل تھی۔ اولاد اپنے ماں باپ کے ساتھ مثالی وابستگی رکھتی تھی اور خاندان کا یہ ادارہ خاصا مضبوط تھا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز بدل گئی اور خاندان کا یہ ادارہ بھی معاشرے کی دوسری اقدار کی طرح کمزور ہوتا چلا گیا۔کہیں نہ کہیں خاندان کی شکست و ریخت کی ذمہ دار یہ مشینی زندگی اور مادی خواہشات بھی ہیں۔ زندگی کی تیز رفتاری میں مادی خواہشات کے اندھیر میں انسان دن رات ایک ایسی منزل کی جانب بھاگتا چلا جا رہا ہے جس منزل کا کوئی نشان ہی نہیں۔
ماں باپ کو دیکھا جائے تو وہ اپنے بچوں ہی کے لیے اور انکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک ہی دھن میں لگے ہوئے ہیں کہ پیسہ کیسے کمایا جائے گو کہ انکی یہ دھن ناجائز نہ بھی صحیح لیکن نہایت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔پیسا کمانے کی دھن میں لگے یہ والدین اس بات کو فراموش کردیتے ہیں کہ ان کا بچہ صرف مادی ضروریات ہی نہیں رکھتا۔اسے صرف پیسوں اور اشیا ہی کی ضرورت نہیں بلکہ اسکی اہم ترین ضروریات تو والدین کا وقت اور انکی توجہ ہے جو اسکا پہلا حق بھی ہے اور اسکی ضرورت بھی۔جو بچے اپنے عمر کے پہلے حصے میں والدین کی توجہ اور محبت حاصل نہیں کرپاتے ، عمر بھر انکی زندگی میں یہ خلا رہ جاتا ہے اور کبھی پورا نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں بچوں پر منفی نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تاہم والدین اس بات کی پرواہ کیے بغیر بچوں کی مادی ضروریات پوری کرنے میں لگ رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ صبح سویرے اٹھ کر سکول چلا جاتا ہے وہاں سے واپس آکر کسی ٹیوشن یا اکیڈمی کا رخ کر لیتا ہے۔شام کو جب گھر لوٹتا ہے تو وہ اس قدر تھک چکا ہوتا ہے کہ وہ کسی کے پاس بیٹھنے کی بجائے یا تو اپنا کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے یا پھر سونے کو اور آجکل اس بچے کی مصروفیات میں جس اہم چیز کا اضافہ ہوا ہے وہ سوشل میڈیا کا استعمال ہے۔بچے کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ والدین کو وقت دے اوروالدین کو اس بات کا دھیان نہیں کہ ان کے وقت پر انکے اپنے بچوں کا بھی حق ہے اور اسکا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ماں باپ اور اولاد کے درمیان فاصلے بڑھتے جاتے ہیں اور خاندان کے نظام کی شکست و ریخت کا آغاز ہوتا ہے۔کیا آپ ایسے بچے سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ کل کو مل جل کر خاندانی نظام کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے گا؟
ایک اور وجہ جو میرے نزدیک بہت اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے معاشروں میں جو والدین اپنی اولاد کو محنت و مشقت سے پالتے ہیں وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان بچوں کی زندگیوں کے اہم فیصلوں میں انکا کردار حتمی اور اہم ہو۔ یہ بالکل انکا حق ہے کہ وہ اپنے بچوں کی زندگی کے حوالے سے اہم اور درست فیصلے کریں مگر اس سارے معاملے میں بچوں کو بالکل نظر انداز کر دینا اور انکی رائے کو اہمیت نہ دینا بھی زیادتی ہے جس کے نتیجے میں والدین اوربچوں میں فاصلے بڑھتے ہیں اور خاندانی نظام شکست و ریخت کا شکار ہوتا ہے۔ پھر ایسی ہی بہت سی وجوہات ایک ساتھ مل کر خاندانی نظام کی تباہی کی ذمہ دار ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے محبت کا عنصر نہیں اور بچے بھی بڑے ہو کر والدین کا دھیان نہیں رکھتے اوربوڑھے والدین عدم توجہی کا شکار بن جاتے ہیں ۔۔پھر یا تو انکی اپنی ہی اولاد انکو کسی اولڈ ایج ہوم یا پناہ گاہ کا راستہ دکھاتی ہے یا وہ بزرگ خود ہی کسی کونے میں دبکے پڑے رہتے ہیں ۔بچے جو اپنے والدین کو اپنے دادا دادی سے ایسا سلوک روا رکھے دیکھتے ہیں اور وہ کل کو یہی سلوک اپنے والدین کے ساتھ بھی دہراتے ہیں اور یوں خاندان جو کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں وہ تباہی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ خاندان جیسے ادارے کی کمزوری معاشرے کی بربادی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ہم سب کو چاہیے کہ اس ادارے کومضبوط بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ ہم مغرب کی طرح اس تباہی کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔