وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور سے اعتراف کیا ہے کہ پاکستانی سیاست میں ’شرم اور اصول‘ نام کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔ را ولپنڈی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر برطانوی سیاست کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہاں کوئی کسی سیاست دان کو خریدنے کا حوصلہ نہیں کرتا۔ تاہم وہ یہ بتانا بھول گئے کہ برطانوی یا مغربی ممالک میں کوئی وزیر اعظم اگر اپوزیشن پر سیاسی حمایت کے لئے روپے تقسیم کرنے کا بے بنیاد الزام عائد کرے ، تو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس عہدہ پر قائم نہیں رہ سکتا۔
عمران خان کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ’صادق و امین قرار‘ دیا تھا۔ بعد میں خود ثاقب نثار کی دیانت، صداقت اور نیت پر درجنوں سوال سامنے آئے اور حیرت انگیز طور پر عمران خان کے سوا کوئی ان کے دفاع میں سامنے نہیں آیا۔ اس پس منظر میں دیکھنا چاہئے کہ عمران خان کس حد تک ’ صداقت و امانت‘ کے اس اصول پر پورا اترتے ہیں جو آئین کی شق 61اور 62 میں متعین کئے گئے ہیں۔ کیا سیاسی مخالفین پر جھوٹ الزام عائد کرنے والے کسی شخص کو ’صادق وامین‘ کہا جائے گا جو محض خود کو ’دیانت دار‘ ظاہر کرنے کے لئے دوسروں کو بے ایمان کہنے پر اصرار کرتا رہا ہو؟
جنرل ضیا الحق کے زمانے میں آئین میں داخل کی گئی یہ شقات اسلام کے نام پر ناپسندیدہ سیاسی لیڈروں کو منظر نامہ سے ہٹانے کی ناروا کوشش تھی۔ اسے ملک وقوم کی بدقسمتی کہنا چاہئے کہ بعد کے ادوار میں ان شقات کو اسی طرح آئین سے نہیں نکالا جاسکا جیسے بلاسفیمی کے قانون میں ایسی دفعات سے جان نہیں چھڑائی گئی جو ملک میں انتہاپسندی، تشدد اور غیر منصفانہ گرفتاریوں کاسبب بنتی رہی ہیں۔ کسی سیاست دان کی صداقت کا فیصلہ کوئی عدالت نہیں کرسکتی ورنہ اس کے نتائج قومی سیاست میں مستقل بحران و انتشار کا سبب بنے رہیں گے۔ نواز شریف کو ایک عذر لنگ پر ان شقات کے تحت نااہل قرار دیا گیا لیکن ایک زمانہ عمران خان کی دروغ گوئی کا عینی شاہد ہے ( وہ خود اسے لیڈرانہ شان کہتے ہیں کہ وعدہ سے انحراف اور طے شدہ فیصلہ سے گریز کسی قائد کی ’عظمت‘ کا نمونہ ہوتا ہے۔ مخالفین نے اس کا نام یوٹرن رکھا ہؤا ہے) لیکن درحقیقت یہ سیاست میں جھوٹ بولنے اور افترا پردازی کی ایک ایسی نئی مہم کا نقطہ آغاز ہے جو آنے والے کئی سالوں تک ملکی سیاست کو آلودہ کرتی رہے گی۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ایک ہی مقدمے میں عمران خان کو صادق و امین اور ان کے قریب ترین معتمد جہانگیر ترین کو سیاست سے تاحیات نااہل قرار دیا تھا کیوں کہ عدالت کے مطابق وہ ’صادق وامین‘ نہیں رہے تھے۔ البتہ پاکستانی عدالت سے صداقت کا سرٹیفکیٹ لینے والے عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اسی شخص کو وزیر اعظم ہاؤس میں اہم فیصلے کرنے والے گروپ میں شامل رکھا جسے عدالت نہ صرف زندگی بھر کے لئے سیاست سے نااہل قرار دے چکی تھی بلکہ جو شخس عدالتی حکم کے مطابق قابل اعتبار نہیں رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور انصاف کی دیوی اندھی ہوتی ہے۔ سوال تو پیدا ہوگا کہ کیا انصاف کی اندھی دیوی نے بے رحم سیاست کے بارے میں کچھ ایسے فیصلے تو نہیں کئے تھے جو اس وقت عمران خان کے راستے کے کانٹے بن چکے ہیں۔ انہیں پھیلایا تو ہاتھوں سے گیا تھا لیکن چننے کے لئے پلکوں سے کام لینا پڑرہا ہے؟ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ جس جہانگیر ترین کو انتخابی کامیابی سے ذرا پہلے نااہل قرار دیا گیا تھا ، اب عمران خان کی حکومت اور سیاسی زندگی اسی ڈور سے بندھی ہے جس کا سرا جہانگیر ترین کے ہاتھوں میں ہے۔ ترین گروپ سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ارکان تحریک عدم اعتماد میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
تحریک انصاف کے غنڈہ نما عناصر قومی اسمبلی کے ارکان کی قیادت میں اسلام آباد کے سندھ ہاؤس پر حملہ کرتے ہیں اور وزیر اعظم اس حملہ کی ’مذمت‘ کرتے ہوئے ، اسے کارکنوں کا جوش بتا کر یہ واضح کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں کہ تحریک انصاف کے منحرف ارکان عوام کے دباؤ میں پارٹی میں واپس آجائیں گے۔ یعنی وزیر اعظم ایک ایسے غیر قانونی واقعہ کو اپنی سیاسی زندگی کے لئے اہم اور ضروری سمجھتے ہیں جس کی ہلاکت خیزی کے بارے میں اب سپریم کورٹ میں سوال اٹھایا جاچکا ہے اور اس پر سماعت کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ ویسٹ منسٹر ڈیموکریسی کے ’پروفیسر عمران خان‘ سے محض یہ دریافت کرنا تھا کہ کیا برطانیہ کا کوئی وزیر اعظم اپنے حامیوں کے پرتشدد اقدام کی حمایت کرکے اور ایسے ہی اقدامات کی مبہم دھمکی دینے والا کوئی برطانوی وزیر اعظم جسے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہو، اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے؟ امریکہ میں برطانوی طرز کا پارلیمانی نظام نہیں ہے لیکن گزشتہ برس6 جنوری کو کانگرس پر حملہ کرنے والوں کی تائد و حمایت کرنے والے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تک اس حوالے سے سیاسی و قانونی مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم نے آج کی تقریر میں ایک بار پھر الزام لگایا ہے کہ سندھ حکومت کے وسائل قومی اسمبلی کے ارکان کی خرید و فروخت پر صرف ہورہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے تمام معتمد ساتھی تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے ارکان اسمبلی کو وفاداریاں تبدیل کرنے کے لئے کروڑوں روپے دینے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ عام تفہیم کے مطابق دشنام طرازی یا جھوٹے الزامات کمزور لوگوں کا شیوہ ہوتے ہیں۔ کمزور شخص ہی کسی طاقت ور سے مار کھانے کے بعد گالیاں دے کر غصہ نکالنے کی کوشش کرتا ہے۔ عمران خان ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن تمام تر انتظامی اختیارات کے باوصف بدستور ایسے الزامات عائد کررہے ہیں جن کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ خود ’صادق و امین‘ ہیں لیکن باقی سب چور لٹیرے اور بے ایمان ہیں۔ اس کھلی تضاد بیانی اور دروغ گوئی کا سبب بننے والے شخص کو کسی ثاقب نثار جیسے منصف سے ہی صداقت کا سرٹیفکیٹ مل سکتا تھا جسے دکھا کر وہ دوسروں سے زیادہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے زیادہ ایماندار شخص اس ملک میں پیدا نہیں ہؤا۔ شاید اسی لئے وہ خود کو ملک پر حکمرانی کا سب سے زیادہ مستحق سمجھتے ہیں۔
حکمرانی کے شوق میں عمران خان ہر غیر قانونی ، غیر سیاسی، غیر اخلاقی اور غیر آئینی طریقہ اختیار کرنا جائز و درست سمجھتے ہیں۔ وہی طریقہ دوسرے اختیار کریں تو گردن زدنی ٹھہرائے جائیں لیکن عمران خان اسے اختیار کریں تو خیر کا موجب بتایا جائے۔ سیاست میں ناکامی کے بیس سال گزارنے کے بعد ملکی ایجنسیوں کے ’ایجنٹ‘ کے طور پر عمران خان نے سیاسی مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کیں۔ پھر ان ہی خفیہ اداروں کے تعاون سے حاصل ہونے والی سیاسی حمایت کی بنیاد پر وہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے جسے اپوزیشن بدستور نامزدگی قرار دیتی ہے۔ جب فوج نے عمران خان کی براہ راست سیاسی سرپرستی اور ان کی غلطیوں کا بوجھ اٹھانے سے انکار کیا تو ’غیر جانبداری‘ کے اعلان کو حیوانی صفت بتا کر سول ملٹری تعلقات میں خطرناک دراڑ ڈالی گئی ۔ اس عدم اعتماد کی وجہ سے سیاسی حکومت کو پہنچنے والے نقصان سے قطع نظر اس کے قومی سلامتی اور عالمی سفارتی منظر نامہ پر اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ عمران خان نے یہی کام یورپی ممالک پر عام جلسوں میں تنقید کرکے کیا ہے۔ انہیں ہر قیمت پر اقتدار چاہئے خواہ اس کے لئے بیش قیمت قومی مفادات ہی کیوں نہ قربان کرنا پڑیں۔
عمران خان کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ ان کے لئے تحریک عدم اعتماد کسی نعمت اور غیبی امداد کے مترادف ہے کیوں کہ اس طرح انہیں اپنی سیاسی پوزیشن مستحکم کرنے اور مزید ایک مدت تک ملک کا وزیر اعظم رہنے کے لئے عوامی تائد حاصل کرنے کا موقع ملا ہے۔ حالانکہ اس تحریک نے ان کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں اور اپنے خلاف قومی اسمبلی کے ارکان کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے وہ کسی بھی غیر قانونی ہتھکنڈے کے ذریعے آئینی طریقہ کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر رائے دہی مؤخر یا ملتوی کروانا چاہتے ہیں۔ حتی کہ اپوزیشن کو بھی پیش کش کی جاچکی ہے کہ اگر وہ عدم اعتماد پر اصرار نہ کریں تو حکومت انہیں ’رعائتیں‘ دے سکتی ہے۔ اپوزیشن پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگانے والا وزیر اعظم خود حکومت کی حلیف جماعتوں کو منہ مانگی قیمت دینے کے لئے تیار ہے بس بدلے میں اسے وزیر اعظم کے عہدے پر قبول کرلیا جائے۔ کیا عمران خان جواب دے سکتے ہیں کہ ناراض ارکان اسمبلی اور حلیف جماعتوں کی حمایت جیتنے کے لئے سرکاری وسائل کی شکل میں جو مراعات فراہم کرنے کے وعدے کئے جارہے ہیں، انہیں امانت و دیانت کی کون سی تفہیم سے درست کہا جائے گا۔
سندھ ہاؤس پر حملہ کے بعد اس کو گلوری فائی کرکے عمران خان ملک میں سیاسی تشدد کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ اسی طرح باقار طریقے سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے، ڈی چوک پر دس لاکھ لوگ جمع کرنے کا اعلان اور مختلف درپردہ ہتھکنڈوں سے اداروں کے ساتھ تکرار و تصادم کی صورت حال پیدا کرکے عمران خان اس وقت ملکی امن و امان اور قومی سلامتی کے لئے حقیقی چیلنج بن چکے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ چند روز میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوگا۔ ملک کا ایک ایسا وزیر اعظم اس اجلاس کی میزبانی کرے گا جسے اس وقت قومی اسمبلی کے اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہے ۔
عمران خان کسی بھی قیمت پر اپنے خلاف ہونے والے ارکان کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اقتدار کی ایسی ہوس پہلی بار دیکھنے میں نہیں آئی۔ لیکن میرٹ کے بغیر اقتدار پر قابض رہنے کی خواہش کرنے والوں کے ساتھ تاریخ نے بھی یکساں سلوک ہی کیا ہے۔ عمران خان کو اس انجام سے عبرت پکڑنی چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ