پاکستان میں لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سیاست پر لکھنے کی بات ہو یا ادب کی کسی بھی صنف پر طبع آزمائی درکار ہو، آپ کو ایک سے ایک قلم کار مل جائے گا۔ جب سے انٹر نیٹ پر اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو ہم جیسے لکھنے والے بھی کسی حد تک پڑھے جانے لگے ہیں۔ پاکستان میں انگنت ویب سائٹس جہاں ہماری قومی زبان کی سربلندی کیلئے برسرِ پیکار ہیں وہیں لکھنے والوں کی بھر پور حوصلہ افزائی کا بھی سامان کئے ہوئے ہیں۔ ان ویب سائٹس کا تذکرہ نہ کرنا ان کی خدمات سے انحراف کے مترادف ہوگا، اس فہرست میں سب سے پہلے ہماری ویب ڈاٹ کام کا ذکر کرنا چاہوں گا جس کی سرپرستی میں ایک انفرادی نوعیت کا ” ہماری ویب آن لائن رائٹرز کلب ” بھی چل رہا ہے۔ جس کی ایک عدد گورننگ اور انتظامی باڈی بھی ہے اور بذریعہ گورننگ باڈی ممبرز کو منتخب کیا جاتا ہے اور یہ عمل گزشتہ دو سالوں سے ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک کے معروف شاعر و ادبی محترم جناب پروفیسر سحر انصاری صاحب ہماری ویب رائٹرز کلب سے بطور "سرپرستِ اعلی” منسلک ہیں ان کا یہ اعزازی عہدہ تا حیات رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اہم اور قابلِ ذکر ویب سائٹس ہیں ان میں اردو پوائنٹ ڈاٹ کام کسی تعارف کی محتاج نہیں ، اردو 123، اردو فن، اردو مزا، اردو نیٹ، لاؤنج اردو، اردو کلاسک، اردودوست، اردو منزل، گردوپیش ڈاٹ کام، جیواردو، آئی بی سی اردو، لالٹین، دلیل ڈاٹ پی کے اور دیگر۔ان کے علاوہ تقریباً ہر اخبار کی ویب سائٹ بھی دستیاب ہے جہاں "بلاگ” کی صورت میں لکھنے والوں کو جگہ دی جاتی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ لکھا تو بہت کچھ جا رہا ہے مگر اس کا نتیجہ کیوں نظر نہیں آرہا۔ ہماری کم علمی کے مطابق چند مذکورہ بالا ویب سائٹس نامی گرامی ہیں جو اردو کی خدمت میں ہراول دستے کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا بھی سبب بن رہی ہیں۔ملکی سطح پر ان کو نظر انداز کرنا ان اداروں کے ساتھ بہت نا انصافی ہے۔ یہی ویب سائٹس دنیا بھر میں پاکستان کے صحیح چہرے کی ترجمانی کر رہی ہیں۔ ان ویب سائٹس کی مرہونِ منت اب ہم کسی بھی سائٹ پر اپنی قومی زبان یعنی اردو میں اپنے احساسات اور جذبات بیان کرسکتےہیں۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ا اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ انتظام چوتھی بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی ۔ 5جنوری کو اس علمی و ادبی کانفرنس کا افتتاح ہوا، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے بہت خوبصورت الفاظ میں معاشرے کی ابتری اور نوجوان نسل کی بے راہ روی کی وجہ ادب سے دوری بتائی اور اس سے نمٹنے کیلئے "ضربِ قلم” کی اصطلاح استعمال کر کے اہلِ قلم کے دل کی بات کہہ دی (یقین سے تو نہیں مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میاں صاحب کے ادا کئے گئے الفاظ محترم عرفان صدیقی صاحب کے قلم کے شایانِ شان تھے)۔ اچھی بات کوئی بھی کہے اسے سراہا جانا چاہئے۔ ادیبوں فنکاروں اور اہل قلم کیلئے سرکاری فنڈز میں اضافے کا بھی اعلان کیا گیا اور سرکار سے وابستہ قلمکاروں کی دیگر مراعات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔وزیرِ اعظم صاحب کو یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ جتنا خرچہ آپ نے ضربِ عضب کو کامیاب بنانے کیلئے کیا ہے اس کا پانچ سے دس فیصد بھی آپ ضرب قلم پر کردیں تو دعوے سے لکھ رہا ہوں کہ پھر کبھی ضربِ عضب جیسے آپریشن کی نوبت نہیں آئے گی۔ بہر حال آپ کے یہ اقدامات بھی قابلِ ستائش ہیں۔
محترم وزیرِ اعظم صاحب اورقومی تاریخ و ادبی ورثہ کے مشیر جناب عرفان صدیقی صاحب مذکورہ اقدامات ضرب قلم کیلئے نا کافی ہیں۔ ہم سب بخوبی واقف ہیں کہ بے ادب بچہ ہو یا معاشرہ بہت تدبیر اور تدبر سے سدھارا جا سکتا ہے بصورتِ دیگر رسوائی مقدر کے دروازے پر دستک دینا شروع کردیتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے لئے ادب کو ترجیحات میں شامل کیا جائے ۔ وگرنہ قلم کار تو اپنے قلم کو دہشت گردی کے خلاف ہتھیار کو طور پر پہلے ہی استعمال کر رہے ہیں اور جوب میں دہشت گردی کا شکار بھی ہو رہے ہیں ۔ جناب آپریشن ضرب عضب والوںکو تو ریاست تحفظ دے رہی ہے آپریشن ضربِ قلم میںشریک قلم کے سپاہیوں کو تحفظ کون دے گا ؟