20نومبر کا دن بچوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے20 نومبر کو اقوام متحدہ نے بچوں کے حقوق کاعالمی معاہدہ ( سی آر سی ) منظور کیا جسے چائلڈ رائٹس کنونشن کہتے ہیں۔
اس سال عالمی یومِ اطفال کا موضوع "مستقبل کی سنیے” ہے۔ یہ موضوع لوگوں کو بچوں کی امیدوں، خوابوں، اور مستقبل کے نظریات کو سننے کی بات کرتا ہے۔ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ان کی بہتر نشونما اور تربیت قومی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس سال یہ دن اس لئےبھی اہم ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں نے دنیا بھر میں بچوں کو بہت زیادہ متاثر کیاہے۔
اقوام متحدہ کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی بچوں کے حقوق کے اس عالمی معاہدے پر دستخط کئے ہیں اور یہ عہد کیا ہےکہ جو کچھ معاہدے میں درج ہے ان تمام حقوق اپنے ملک میں بچوں کو دیئے جائیں گے۔ آئین پاکستان اورچائلڈ رائٹس کنونشن CRCٰٓایسے تمام حقوق کی ضمانت فراہم کررہاہے اِس معاہدے کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں بچوں کے تمام بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس میثاق کے مطابق ایک بچے سے مراد ہر وہ انسان ہے جس کی عمر 18سال سے کم ہو۔ اِس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد پاکستان پر لازم ہے کہ بچوں کو اُنکی نشو ونما، اُنکی صحت وتعلیم، اُنکی تفریح، آزادی رائے تحفظ، مذہبی آزادی،نگہداشت پرورش بچے کو ذہنی اور جسمانی تشدد اور بدسلوکی سے بچاؤ سمیت تمام وہ اقدامات کرنے کی پابند ہونگے جن کے ذریعے بچے کو اُس ملک کا ایک مؤثر شہری بنایا جا سکے۔
خصوصاً اس معاہدے کے تحت کم عمر بچوں سے جبری مشقت کی سخت ممانیت کی گئی ہے اور ریاستوں سے ضمانت لی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے ملک میں بچوں کی مشقت کے خلاف مؤثر قانون سازی کریں گے۔ اس طرح ہر ملک یا ریاست اپنے ملک میں بچوں کیلئے علیحدہ صحت کی سہولیات مہیا کریں گے بچوں کی جیلیں علیحدہ ہونگی جہاں بچوں کو خصوصی رعایت حا صل ہوگی۔ اس معاہدے کے مطابق ریاست تمام بچوں کو یکساں تعلیم کے برابر مواقع فراہم کرے گی اور پرائمری تک لازمی اور مفت تعلیم فراہم کی جائے گی۔ بچوں کی حاضری کو باقاعدہ بنانے کے اقدامات اور سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد کم کرنے کے اقدامات کریں گے۔
اس طرح بچوں کیلئے تفریحی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہوگی اس معاہدے میں ریاستیں اس حق کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ بچے کی عمر کے مطابق اُسکی تفریح اور فنونِ لطیفہ کی سرگرمیوں کیلئے اقدامات کی بھی ذمہ دارہیں۔جنگ کی صورت میں دونوں فریقین پر ذمہ داری ہوگی کہ وہ بچوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں گی بچوں کو جنگ میں شریک نہ کیا جائے، افواج میں بھرتی نہ کیا جائے اور زخمی ہونے والے بچوں کی خصوصی نگہداشت کا اہتمام کیا جائیگا۔
یوں ہم نے دیکھا کہ چائلڈ رائٹس کنونشن ایسے تمام حقوق کی ضمانت فراہم کررہاہے جس کے ذریعے ہم ایک صحت مند تعلیم یافتہ مہذب معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں پاکستان نے اقوام متحدہ کے رکن کی حیثیت سے اس معاہدے پر دستخط کئے ہیں اور یو ں ہم اس معاہدے کے تمام آرٹیکل کو اپنے ملک میں لاگو کرنے کے پابند ہیں.آج پاکستان میں بچوں کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں پانچ سال سے کم عمر کے ایک کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ بچوں کی صحت کو سموگ سے سنگین خطرہ لاحق ہے جس پر قابو پانے کے لیے فضائی آلودگی میں کمی لانے کی فوری اور مؤثر کوششیں کرنا ہوں گی۔
اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) حکومتوں کے لیے اس مسئلے سے نمٹنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا حقیقی موقع تھا۔ بچوں کو زہریلی فضا میں سانس لینے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا اور ان کی صحت، تعلیم اور بہبود کو تحفظ دینے میں کسی کوتاہی کی گنجائش نہیں۔ اپنے بچوں اور ان کے مستقبل کی خاطر آلودگی پر قابو پانے کے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔موجودہ صورتحال سے قبل پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی تقریباً 12 فیصد اموات فضائی آلودگی سے ہو رہی تھیں۔ رواں سال غیرمعمولی سموگ کے اثرات کا درست اندازہ لگانے میں وقت درکار ہو گا مگر فضا میں آلودگی کی دو سے تین گنا بڑی تعداد کے خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں پر اثرات واضح ہیں۔اس حوالےسے پاکستان کی حکومت اور قیادت اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر بچوں کے تحفظ کے لئے کوشش کررہی ہے۔گزشتہ روز پاکستان نے بچوں کے حقوق اور مفادات کو موسمیاتی تبدیلی کے سبب لاحق خطرات سے تحفظ دینے کے اعلامیے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس اقدام سے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں بچوں اور نوجوانوں کی بیان کردہ ترجیحات کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی پاکستان نے اس اعلامیے کی توثیق آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں جاری اقوام متحدہ کی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 29) کے چھٹے روز یونیسف کے ساتھ ایک اجلاس میں کی ہے۔ اس موقع پر ملک کی وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کے نمائندے موجود تھے۔پاکستان نے اس اعلامیے پر دستخط کر کے اپنے ہاں ان 11 کروڑ 20 لاکھ بچوں اور نوجوانوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کا عزم کیا ہے جو موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں قدرتی حوادث، نقل مکانی اور تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ اعلامیے پر دستخط کی تقریب میں یونیسف کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کِٹی وان ڈر ہیڈن نے کہا کہ اب موسمیاتی سرمایہ کاری سے بچوں کو براہ راست فوائد پہنچانے کا وقت آ گیا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں موسمیاتی اقدامات کے لیے مالی وسائل کا صرف 2.4 فیصد بچوں سے متعلق مسائل پر خرچ ہوتا ہے۔ اب بچوں کی صحت و بہبود کو موسمیاتی مسائل سے تحفظ دینے کے لیے ہر سماجی شعبے میں سرمایہ کاری کو بڑھانا ہو گا۔
پاکستان کی حکومت اور یونیسف کو بچوں اور نوجوانوں پر موسمیاتی تبدیلی کے غیرمتناسب اثرات کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج اور فضا کو آلودہ کرنے والے مادوں سے بچوں کی صحت، تعلیم اور بہبود کو فوری خطرات لاحق ہیں۔ متواتر سیلاب اور شدید گرمی کی بڑھتی ہوئی لہروں کے باعث بچوں کو لاحق مسائل سات دہائیاں پہلے کے مقابلے میں کہیں بڑھ گئے ہیں۔
صوبہ خیبرپختونخوا میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ٹیم کے سربراہ فیصل امین خان نے اعلامیے پر عملدرآمد کے عزم کی توثیق کی اور یقین دہانی کرائی کہ پاکستان اپنے نوجوانوں کو تعلیم، ہنر اور مواقع مہیا کرے گا۔یونیسف ‘کاپ 29’ میں شریک عالمی رہنماؤں پر یہ تسلیم کرنے کے لیے زور دے رہا ہے کہ بچے اور نوجوان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ انہیں تحفظ دینے کے لیے اس کانفرنس میں طے پانے والی موسمیاتی پالیسیوں اور اقدامات میں بچوں کے لیے موسمیاتی مالی وسائل کا حصہ بڑھانا ہو گا۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بچے دیگر مسائل کا شکارہیں جس میں خصوصاََ تعلیم صحت اور دیگر مسائل شامل ہیں یونیسکو کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ 66 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے جو اس عمر کی کل آبادی کا 44 فیصد بنتے ہیں۔یہ بھی اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے لیے حکومت کو خصوصی توجہ دینی ہوگی ۔
صحت کی صورتحال کے حوالے پاکستان میں 5 سال سے کم عمر کے 10 میں سے 4 بچے اسٹنٹنگ کا شکار ہیں جبکہ 17.7 فیصد بچے ویسٹنگ کا، غذائی قلت کا دوہرا بوجھ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے، جہاں تقریباً 3 میں سے ایک بچے کا وزن کم (28.9 فیصد) ہے اور اسی عمر کے گروپ میں زیادہ وزن والوں کی شرح 9.5 فیصد ہیں ہمیں اس حوالے سے فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
جب ہم نے بچوں کے حقوق کی صورتحال کی کے حوالے سے سول سوسائٹی کےرہنماؤں سے بات کی تو چلڈرن ایڈووکیسی نیٹ ورک(کین) کے سربراہ افتخار مُبارک نے بتایا کہ چلڈرن ایڈووکیسی نیٹ ورک پنجاب کے 18اضلاع میں غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعے بچوں کے حقوق کی ایڈوکیسی کر رہا ہے۔ انہوں نے اس دن پر مطالبہ کیا ہے کہ
• بچوں کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر فوری طور پر عمل کروایا جائےاور ان قوانین پر عملدرآمد کے انسانی اور مالی وسائل مختص کئے جائیں تاکہ ان قوانین پر عمل ہو سکے۔
• تمام صوبے فوری طور پر بچوں کے تحفظ کی پالیسی کو منظور کریں ۔ پالیسی پر عملدآمد کا ایکشن پلان بھی بنایا جائے۔
• چائلڈلیبر کے خاتمے کے لیے اس کی وجوہات میں کمی لانے کے لئے سوشل پروٹیکشن کے پروگرامز کو مؤثر بنایا جائے۔
• CRCکو نصاب کا حصّہ بنایا جائے۔
• بچے کے تحفظ کے اداروں کی معلومات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور بچوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے۔سکول کی سطح پر چلڈرن کونسل یا چلڈرن پارلیمنٹ بنایا جائے۔
• کمیونٹی کی سطح پر بچوں کے تحفظ کے سینٹرز قائم کیے جائیں۔
اس ساری صورتحال کو بہتر بنانے کے حوالے سے حکومت اپنی ہرممکن کوشش کر رہی ہے اس حوالے سے پارلیمانی سیکٹری ماحولیات محترمہ کنول لیاقت نے بتایا کہ بچے ہماری پہلی ترجیح ہے ہم چاہتے ہیں کہ ان کو ماحول کے خطرات سے بچاءیں ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا اور صرف حکومت پر ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی بحثیت شہری ہر شخص کو اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی جدوجہد کرنی ہے تب ہی ایک روشن پاکستان وجود میں آسکے گا۔
فیس بک کمینٹ