خبر یہ ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے زکریایونیورسٹی میں آوارہ اور پاگل کتوں کا نوٹس لیتے ہوئے انہیں ختم کرنے کے احکامات دیئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے بہت اچھا اقدام ہے کیونکہ چند روز قبل ہی چند پاگل کتوں نے اچانک حملہ کرکے کم وبیش آٹھ طالبات کو زخمی کردیا تھا بعد ازاں ان کتوں کو مارنے والے یونیورسٹی سیکورٹی گارڈز کی’’ حربی‘‘ صلاحیتوں کو دیکھ کرسب لوگ دنگ رہے گئے کہ جو سیدھے سیدھے فائر نہیں کرسکتے وہ کس قسم کی سیکورٹی فرائض سرانجام دیتے ہوں گے ؟ ۔خیران سیکورٹی والوں کی صلاحیتوں پر حیرت سے زیادہ وزیراعلیٰ پنجاب کی صلاحیت پر شک ہوا کہ چلو وزیراعلیٰ کو طالبات پر حملہ کرنے والے باؤلے کتوں کی تلفی کا خیال تو آگیا ، لیکن یونیورسٹی میں دندناتے جنسی درندوں کی تلفی کا خیال کیوں نہیں آیا ۔ باؤ لے کتے کے کاٹے کا تو علاج ہے لیکن ان جنسی بھیڑیوں کے کاٹے کا تو کوئی علاج بھی نہیں جو معصوم بچیوں کی زندگیاں برباد کررہے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس کی ایک شرمناک مثال کچھ روز قبل شعبہ سرائیکی کی طالبہ مرجان کی شکل میں سامنے آئی جس کے ساتھ دولت ، طاقت اور جوانی کے نشے میں دھت بھیڑیوں نے وہ شیطانی کھیل کھیلا کہ جس سے انسانیت بھی شرما گئی ۔زکریایونیورسٹی کے شعبہ سرائیکی میں حصول علم کیلئے آنیوالی طالبہ مرجان کو کیا خبر تھی کہ وہ یہاں اپنی عزت وعصمت بھی گنوابیٹھے گی ۔یونیورسٹی میں وہ اس شخص سے بھی محفوظ نہیں تھی جس کو روحانی باپ کہا جاتا ہے ۔ اپنے ہی ہم جماعت علی رضا قریشی کے گھناؤنے عزائم کا شکار ہونے والی مرجان کو شادی ، جی پی اے میں اضافے اور نوکری کا لالچ دیکر نوچا گیا ۔ اس جرم کامرکزی ملزم علی رضاقریشی ملتان کے ایک طاقت ور اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے جن کی دہشت کے سامنے عام آدمی سر نہیں اٹھا سکتاکسی کی مجا ل نہیں کہ وہ ان پر انگلی اٹھائے لیکن ایک کمزور اور نحیف سے لڑکی نے جراٗت کا مظاہرہ کیا اور وہ ان جنسی درندوں کے سامنے ڈٹ گئی۔ مرجان نے پولیس سے رابطہ کیا تو پولیس نے وہی کردار ادا کیا جو وہ ہمیشہ کرتی رہی ہے ۔ زیادتی کی شکار طالبہ کی درخواست پر پولیس تھانہ الپہ نے قبضہ مافیا کے سرگرم رکن اور یوسی چیئرمین اخترعالم قریشی کے بیٹے اور معروف تاجر شاہد عالم قریشی کے بھتیجے علی رضا قریشی کو گرفتار تو کرلیا لیکن تھانے میں مہمان بنالیا اور رات گئے تک پولیس اس کوشش میں رہی کہ مقدمہ درج نہ ہوتاہم رات گئے ویمن کرائسزسنٹر ویمن پولیس نے مقدمہ درج کرلیا جس پر پولیس نے ایک کے بعد دوسرے اور پھرتمام ملزمان کو گرفتار کرلیا اور ملزمان کا عدالت میں ٹرائل شروع ہوگیا ۔اب ایک طرف وہ درندگی کا شکار ہونیوالی معصوم طالبہ ہے تو دوسری جانب طاقت ، اثرورسوخ اور دولت کی چمک جس کا سب سے پہلا نتیجہ ہمیں اس ایف آئی آر میں لگائی جانیوالی دفعات سے ہی مل جاتاہے جہاں دہشت گردی کی دفعات ڈالنا گوارہ نہیں کیا گیا ۔ شاید پولیس کے خیال میں یونیورسٹی کلاس روم میں گن پوائنٹ پر زیادتی اور دوران زیادتی موبائل فون سے ویڈیو بنانا ، بعدازاں مختلف مقامات پر بلیک میل کرکے لے جانا اور نہ صرف زیادتی کا نشانہ بنانا بلکہ ذہنی اور جسمانی تشدد کرنا ، بلیک میل کرکے رقوم ٹھگنا اور ناجائزمطالبات پورے نہ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا ،کیا پویس حکام بتائیں گے کہ دہشت گردی کس چڑیا کا نام ہے؟ اور اگر یہ دفعات کسی مظلوم کو انصاف فراہم نہیں کرسکتیں اور ظلم سے بچا نہیں سکتی تو پھر یہ کون سے مرض کی دوا ہے ؟
حوا کی بیٹی کوکھلونے کی طرح استعمال کیاگیا اور ابھی نہ جانے اس کے ساتھ کتنے ظلم وستم ہونے تھے اگر وہ ان کیخلاف کھڑی نہ ہوتی کیونکہ اس سے قبل نہ جانے کتنی ہی مرجان خاموشی سے تعلیم کو خیر باد کہہ گئیں یا پھر اب تک ان ظالموں کی ناجائز خواہشات کو پورا کررہی ہیں ۔ مرجان کی جانب سے پولیس حکام کو انکوائری کیخلاف درخواست دی گئی ہے جس میں موقف ہے کہ پولیس نے شواہد کو ضائع کیا ہے ۔اس وقت مرجان اور اسکی فیملی کس کرب سے گزررہی ہوگی شاید اس کااندازہ کرنا مشکل نہیں جناب وزیراعلیٰ صاحب یہ سنگین جرم جنوبی پنجاب کی ایک طالبہ کے ساتھ ہوا ہے اگر یہی واقعہ لاہور میں ہوتا تو شاید اس وقت میڈیا ٹرائل بھی چل رہا ہوتا اور جے آئی ٹی بھی بن چکی ہوتی ۔ پولیس کی جانب سے کمزور دفعات پر مشتمل ایف آئی آر اور ناقص تفتیش کیوجہ سے تین اہم ملزمان عدالت سے ضمانتیں کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اگر یوں ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب تمام ملزمان ضمانتوں پر رہائی حاصل کرکے پھر سے حوا کی بیٹیوں کی چادریں تارتار کررہے ہوں گے ۔یہاں اگر یونیورسٹی انتظامیہ کے مایوس کن کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو داستان ادھوری رہے گی ۔ لڑکی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی خبر طشت ازبام ہونے کے بعد سے یونیورسٹی انتظامیہ متاثرہ طالبہ کو انصاف دلوانے کی بجائے صرف اپنے بچاؤ کی فکر میں ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب سے بس اتنی سے گزارش ہے کہ وہ یونیورسٹی میں آوارہ اور باولے کتوں ہی نہیں بلکہ جنسی درندوں اور بھیڑیوں کیخلاف بھی سخت کارروائی کریں۔
فیس بک کمینٹ