نوجوان صحافی اور قلم کار شاہد بھٹی نے بہت محبت سے یہ خاکہ لکھا ۔ خوشی ہوئی کہ میں جیسا ہوں اس نے مجھے ویسا ہی محسوس کیا اور میری خوبیوں اور خامیوں کو بہت متوازن انداز میں بیان کر دیا ۔ شاہد بھٹی ایک سیلف میڈ نوجوان کی حیثیت سے ہمیشہ میرے دل کے قریب رہا بے شک اس کے ساتھ میرا تعلق لا تعلقی والا ہے ، شاہد بھٹی تمہارے لئے بہت سی دعائیں اور محبتیں ( تمہارا رضی )
۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید اس نام کے اور بھی ہوں گے لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، ایسا ایک ہی ہے جس کے نام کا آغاز اور انجام رضی پر ہوتا ہے ۔جی ہاں ، آپ سہی سمجھے میں ذکر کررہا ہوں رضی الدین رضی کا ۔ میرا رضی سے تعلق نہ تو قدیم ہے اور نہ میں رضی کی قربت یا قرابت دارہونے کا دعویدار ہوں ۔شاید رضی کے جاننے والوں میں سے میں ہی ہوں جو رضی کو بہت کم جانتا ہے ، لیکن رضی کی شخصیت کے اتنے پہلو اور پرتیں ہیں کہ ایک معمولی سا تعلق دار بھی اُ س پر لکھنے کی جسارت کررہا ہے ۔تو ذکر ہے رضی کا، دراز قد، کھچڑی بال ، دبلا پتلا سا رضی چالیس سال قبل کی تصاویر میں بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ آج ہے ۔ شاعر، ادیب ، مصنف ، محقق ، صحافی ،سرکاری ملازم،یاروں کا یار،سیاسی کارکن ، شفیق باپ ، باادب بیٹا،رہنمائی کرنے والا استاد اور منتقم المزاج رضی سب کے حصے میں آنے والا رضی سب کیلئے مختلف ہے لیکن میرا جس رضی سے تعلق رہتا ہے اُس کا تعین کرنے میں ہمیشہ مجھے دشواری رہی ہے ۔ کبھی کبھی وہ مجھے دوست لگنے لگتا ہے ، کبھی استاد ، کبھی مخالف اور کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ رضی میرا کچھ بھی نہیں لگتا ۔میں شعبہ صحافت میں آیا تو رضی کانام سنا تھا کہ بہت اچھا اور بڑا شاعر ہے کبھی کبھار دیکھ بھی لیتے تھے لیکن اس سے باضابطہ تعلق اس وقت ہوا جب موصوف وسیب ٹی وی میں آن وارد ہوئے۔وسیب ٹی وی میں وہ غالباً جمیل چشتی کی وساطت سے آئے تھے جو اس وقت ڈائریکٹر نیوز تھے ۔رضی کا وسیب میں کیا عہدہ تھا اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکی بس اتنا تھا کہ نیوز اور پروڈکشن دونوں شعبوں میں رضی برابردکھائی دیتا تھا ۔ایک مرتبہ رضی نے میرے ذمہ لگایا کہ صبربرداشت کے عالمی دن پر پیکج بنالاؤں۔ میں نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق پیکج بنایا اور اس کے انٹرو میں اذان کا نیٹ ساؤنڈ دے دیا اور گھر آگیا ۔ رات گئے رضی کافون آیا ،یار بھٹی تم نے اذان کا نیٹ ساؤنڈ دیا ہے جس میں جرک آرہا ہے تو میں اس کو کاٹ رہا ہوں ۔میں نے کہا جناب آپ کی مرضی کاٹ دیں مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ مجھے حیرت ہوئی اس معمولی سے بات کیلئے رضی کا مجھے فون کرنا قطعی ضروری نہ تھا لیکن اس چھوٹی سے بات نے مجھے رضی کی طرف مائل ہونے پر مجبور کردیا ۔ وہ روز اپنی پرانی موٹرسائیکل غالباً سی ڈی 92ماڈل پر ہمیشہ مجھ سے پہلے ہی دفتر آیا ہوتا ۔ رضی کی پھٹیچر بائیک دیکھ کر میں سوچ میں پڑ جاتا کہ اتنا بڑا شاعر، ادیب اور نہ جانے کیا کیا لیکن حال یہ ہے کہ نئی بائیک بھی نہیں لے سکتا ۔لیکن پھر میں نے سوچا کہ اکثر لوگ ایسی متروک چیزوں سے محض اس لئے محبت کرتے ہیں اور گلے سے لگا کر رکھتے ہیں کیونکہ وہ چیز کسی نہ کسی عزیز ہستی سے منسوب ہوتی ہے یا کسی کی نشانی ہوتی ہے ۔ مثال کے طورپر میرے سسر کے پاس 76ماڈل کی ہنڈا 50تھی جو اُ ن کو اُن کے سسر نے بطور تحفہ دی تھی اور انہوں نے اس موٹرسائیکل نام کی چیز کو مرتے دم تک سنبھال کررکھا ۔ شاید رضی کا بھی اس موٹرسائیکل سے ایساہی کچھ جذباتی تعلق رہا ہو۔ہمیں کسی نے یہ بھی بتایا کہ دنیانیو ز( جو ابھی آن ائیرنہیں ہواتھا)کی بھلی چنگی اور موٹی تنخواہ والی نوکری کو لات مارکر وسیب ٹی وی کے دھکے کھاتا ہوا رضی شاید اپنی والدہ کی خاطرلاہور سے ملتان لوٹ آیا تھا ۔ یہ دور وسیب ٹی وی میں مشکلات کا دور تھا کئی کئی ماہ تنخواہیں دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی تھیں ۔ چینل انتظامیہ ( جو خود بڑے ہی ٹھاٹ باٹ میں تھی ) سے ہرکوئی تنگ تھا ۔ ایک مرتبہ رضی نے مخصوص انداز میں بلغی قہقہہ مارتے ہوئے کہا کہ ان کراچی والوں سے زیادہ مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں یہ بھی ہماری طرح ،کراچی کے’’ سڑک چھاپ‘‘ ہیں۔رضی کی بات سن کر میں سُن ہوگیا کہ ان سڑک چھاپوں نے ملازمین کا جینا دشوار کررکھا ہے ۔انتہائی سنجیدگی کا تاثر دیتاہوا رضی ایک دم سے ہنسی کا گول گپابھی بن جاتا ہے ۔ یاروں کی محفل میں جگتیں کرتا ہوا اور کھل کھلا کر ہنستا رضی ،میں نے اس وقت دیکھا جب پی ایف یو جے کے احتجاج میں شرکت کیلئے اسلام آبادجانا ہوا ۔ راستے میں رضی نے انتہائی قریبی دوستوں چوہدری ارشد اور راؤ عامر کے ساتھ مل کر وہ جگتیں کروائیں کہ سفر کا پتہ ہی نہ چلا ۔رضی کی سرکاری نوکری بحال ہوئی تو اس نے وسیب کے آسیب سے خود کو آزاد کروالیا غالباً کچھ واجبات پھنس گئے نہ جانے وہ ملے یا نہیں لیکن ’’کراچی والوں ‘‘سے رضی کی دوستی پکی ہوگئی ۔انہی دنوں مرحوم عمر علی خان بلوچ کی تنظیم ہرسال کی پہلی رات مشاعرے کا اہتمام کرتی تھی میں نے پہلے بھی ایک مرتبہ اس کے مشاعرے میں اپنی ایک غزل پڑھی تھی اس مرتبہ بھی میرا رادہ تھا کہ مشاعرے میں شرکت کروں میں نے ایک سرائیکی غزل لکھ رکھی تھی لیکن میں اس کی اصلاح رضی سے کروانا چاہتا تھا بڑی تگ ودو کے بعد رضی پریس کلب میں مل گیا غزل پیش کی اور مدعا بیان کیا ، رضی نے نہایت عجلت میں کاٹ چھانٹ کرکے غزل میرے حوالے کردی اور بولا بھٹی، اردوقومی زبان ہے اس میں بھی لکھا کر۔ میں نے اصلاح شدہ غزل دیکھی تو اندازہ ہوا کہ اس کی’’ اصلاح ‘‘کتنی ضروری تھی ۔غالباً 2008ء یا 10میں ادبی بیٹھک کیلئے رضی کے اصرار پر آنا شروع کیا ۔ ادبی بیٹھک رضی اور شاکر کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ تھی لیکن فکرمعاش اور تنگی وقت کیوجہ ادبی بیٹھک میں کبھی بھی مستقل آنے والوں میں سے نہیں رہا۔ادبی بیٹھک میں آنے کے بعد انکشاف ہوا کہ رضی کی ادبی دشمنیاں بھی ہیں اور وہ مخالفین کو لفظوں کے تیر سے چھلنی کرنا خوب جانتا ہے ۔چونکہ رضی صحافی بھی ہے تو پریس کلب کی سیاست میں رضی کا عمل دخل نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے ۔لیکن افسوس کہ پریس کلب میں سیاسی بحران آیا تو بطور کئیرٹیکر رضی نے انتہائی سخت قدم اٹھا ئے جو بعد ازاں پریس کلب میں سیاسی قیادت کی تبدیلی کا باعث بنے یہ الگ بات کہ وہ قیادت بھی کوئی لائق تحسین کارنامہ سرانجام نہ دے سکی ۔شاید رضی اس تحریر کو کاٹ دے لیکن پریس کلب کی تاریخ سے یہ باب مٹایا نہیں جاسکے گا ۔لیکن اس کے بعد تاحال رضی کا پریس کی سیاست سے تعلق بظاہر ٹوٹا ہوا ہے ۔شاید یہ میری غلط رائے ہوکہ رضی صرف انہیں پسند کرتا ہے جو اُسے پسند کرتے ہیں تنقید کرنے والوں اور مخالفوں کوقریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا یہاں مسئلہ یہ ہے کہ وہ ازخود ہی اندازہ لگالیتا ہے کہ (اے میرامخالف اے)ہر دوسرے بندے کے ساتھ اختلاف اور ہر تیسرے کے ساتھ یاری رکھنے والے رضی کی زندگی ادھوری ہے اگر شاکر حسین شاکر کا ذکر نہ ہو۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ یاری کتنی پرانی ہے لیکن ا ن کی دوستی اور حد سے بڑھی ہوئی قربت دیکھ کر بیک وقت حسد، جلن ، حیرت ، خوشی اور دکھ ہوتا ہے ۔اول الذکر تو آپ جانتے ہیں ، مؤخرالذکر اس لئے کہ یہ ایک دوسرے کے بغیر رہ نہیں سکتے اور قانون قدرت ہے کہ وہ ہمیشہ کسی کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے نہیں دیتا ۔لیکن سچائی تو یہ ہے کہ اگر یہ دونوں اکٹھے نہ ہوتے تو نہ رضی ،،، رضی الدین رضی ہوتا اور نہ شاکر ،،، شاکر حسین شاکر ہوتا ۔ایک دوسرے کو بنانے اور سینچنے میں ان دونوں کا برابرکردار اور مخلصانہ ساتھ ہے ۔رضی کی ایمانداری یا اصول پسندی کو میں نہیں جانتا لیکن جب پریس کلب اس کے حوالے تھا تو مجھے پریس کلب ہال کی ضرورت پڑ ی میں نے بڑے ہی اعتماد کے ساتھ رضی کو فون کردیا مجھے بڑی امید تھی کہ ہال بلا معاوضہ مل جائے گا کیونکہ ماضی میں منظور نظر لوگوں کو ہال ملتا رہا تھااور چونکہ میں خود کو رضی کا منظور نظر سمجھتا تھا اس لئے ہال ملناضروری تھا لیکن جب میں نے فون کیا تو دوسری جانب منظر ہی مختلف تھا رضی نے انتہائی سختی سے نہ صرف ہال دینے سے انکار کردیا بلکہ اچھی خاصی تقریر بھی جھاڑ دی جس کا لب لباب یہ ہے کہ وہ کسی قیمت پر پریس کلب کو لوٹ کا مال نہیں بننے دے گا۔بڑی مشکل سے رضی کے غیظ وغضب سے جان چھڑائی ۔ رضی کے اس غیر متوقع ردعمل سے مجھے وقتی طورپر دکھ تو ہوا لیکن بعد میں یہ احساس مسرت اور فخر میں بدل گیا کہ میں جس رضی کو جانتا ہوں وہ انکار کرنا جانتا ہے اور اصولوں کی خاطر اپنا نقصان کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔ مجھے نہیں معلوم کہ دوسروں کے حصے میں آنے والا رضی کیسا ہے لیکن میرے حصے میں آنیوالا رضی ایک شفیق دوست ، اچھا استاد اور لاتعلق رہنے والا تعلق دار ہے ۔ لیکن رضی جیسا بھی ہے مجھے خوشی اور فخر ہے کہ میں اُس کے چاہنے والوں میں شامل ہوں ۔
فیس بک کمینٹ