کچھ زیادہ نہیں ،کافی پرانی بات ہے کہ ایک دن بندہ اپنے حلقہ احباب میں بیٹھا بڑے مہذب انداز میں ”چولیں“ مار رہا تھا کہ میری نظر ملا ہُدہُد پر پڑی جو ہماری طرف ہی بڑھے چلے آ رہے تھے ان کے ماتھے پر پسینہ تھا ہونٹ خشک اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں یہ گمبھیر صورت حال دیکھ کر میں سمجھا کہ موصوف گھر سے سیدھے ادھر ہی آ رہے ہیں۔ اس سے قبل کہ بندہ ان سے ہمدردی کے دو بول بولتا، وہ میری نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے بولے نہیں نہیں عزیزم ، وہ بات نہیں جو کہ تم سمجھ رہے ہو، ہاں اگر وہ بات ہوتی تو میرے ماتھے پر پسینہ نہیں بلکہ ایک بڑا سا گومڑ ہونا تھا کہ اس معاملے میں تمہاری بھابھی کا نشانہ بہت ٹِچ لگتا ہے۔ پھر ہمارے پوچھنے پر ملا نے ( بطور تمہید) پہلے تو اپنے حلق سے ایک نہایت ہی دردناک آہ برآمد کی ۔(عام طور پر ایسی آہ اس وقت بھری جاتی ہے جب پردیس میں بندے کی جیب کٹ جائے) اس کے بعد انہوں نے ہماری طرف کچھ ایسی غم زدہ نظروں سے دیکھا جیسے وہ آخری دیدار کر رہے ہوں۔
پھرکہنے لگے ، سچ کہا ہے کسی نے ،کہ بندہ خواہ کتنا بھی تگڑا کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن رہتے رہتے رہ جاتا ہے اتنا کہنے کے بعد ایک بار پھر سے وہ (پردیس میں جیب کٹنے والی ) دردناک آہ بھرنے ہی والے تھے کہ ہمارے تیور دیکھ ، اسے ملتوی کر دیا۔پھرکہنے لگے اب ہمارے ہمسائے مسمی الف دین کو ہی دیکھ لو، اچھا خاصہ بندہ تھا صبح اٹھ کے کھانا کھاتا اور شام کو سو جاتا تھا۔لیکن پھرنہ جانے کیا ہوا کہ وہ اپنی ڈھائی من کی ہمسائی پر رہتے رہتے رہ گیا اور ایسا رہا کہ بس رہے نام اللہ کا۔ ہم نے بصد شوق مسمی سے پوچھا کہ آخر تم کو اس مسمات میں ایسا کیا نظر آیا کہ تم اس پر با لکل ہی رہ گئے؟ میری بات سن کر مسمی نے پہلے تو سر جھکایا پھر خلاف عادت کچھ غور فرمایا پھر سر بلند کرتے ہوئے بولا کیا بتاؤں دوست کہ اس مسمات میں ایسی ایسی خوبیاں ہیں کہ جو کسی اور میں نہیں ۔ پھر بعد از صدتکرار و اصرار کہنے لگا کہ ویسے تو مسمات میں خوبیوں کا پورا جمعہ بازار لگا ہوا ہے لیکن اس کی پہلی خوبی یہ ہے کہ مہنگے پیزے اور برگر کی بجائے یہ عفیفہ "مرونڈا” بھی کھا لیتی ہے دوسری خوبی یہ ہے کہ مسمات چائنہ کا سستا مال بھی بطور تحفہ بخوشی وصول کر لیتی ہے تیسری اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہمسائی ہونے کی وجہ سے یہ مجھے ”نیڑے“ (نزدیک) پڑتی تھی اس لیے میں اس پر رہ گیا ہوں۔
الف دین کی بات سن کر میں نے دل میں سوچا اگر بات ”مرونڈے“ کی ہے یہ تو میں بھی افورڈ کر سکتا ہے چنانچہ اگلے دن میں جیب میں ”مرونڈا “لیے ، جب مسمات کے قریب سے گزرا تو اسے اللہ کی طرف سے میری نیت کا اندازہ ہو گیا چنانچہ مجھے مسکراتے دیکھ کر وہ بڑی ادا سے بولی جا پہلے منہ دھو کے آ ۔ یہ سن کر میں دوڑا دوڑا گھر گیا اور صابن سے خوب اچھی طرح منہ دھویا اور پھر اسی ڈھائی من کی عفیفہ کی طرف چلا گیا اور اسے دیکھ کر خواہ مخواہ مسکرانے لگا یہ دیکھ وہ پھر اسی ادا سے بولی، جا پہلے منہ دھو کر آ ۔ اس کی بات سن کر میں سمجھا کہ شاید کوئی کسر باقی رہ گئی تھی اس لیے عفیفہ نے مقرر تاکید کی ہے سو میں دوبارہ گھر گیا اور جورو سے نظر بچا کر منہ پر متعدد دفعہ صابن لگا کر خوب مل مل کے دھویا۔ یہاں تک کہ صابن کی ”چاکی“ جو کہ پہلے ہلے میں آدھی ہو گئی تھی اب کی بار گھس کر محض ”چپر“ سی رہ گئی۔ چنانچہ منہ دھونے کے بعد میں نے دوبارہ اس کی طرف چکر لگایا۔ پہلے ، دوسرے چکر میں وہ نظر نہیں آئی پھر تیسرے چکر میں جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی، دیکھتے ہی کہنے لگی جا منہ دھو کر آ۔یہ سن کر میں بڑے کرب سے بولا باجی اور کتنی دفعہ منہ دھلواؤ گی؟ کہ اب تو صابن کی ”چاکی“ بھی تھوڑی سی رہ گئی ہے ۔ میری بات سنتے ہی ڈھائی من کی عفیفہ بڑے ہی جلالی لہجے میں بولی جہنم میں جاؤ۔چنانچہ بمطابق ہدایت میں وہاں سے سیدھا گھر آ گیا۔ یہاں آ کر غور کرنے پر محسوس ہوا کہ اس ڈھائی من کی عفیفہ نے تو میری اچھی خاصی بےعزتی کر دی ہے۔اس پر ایک ماہ چلنے والی صابن کی ”چاکی“ جو ایک گھنٹے میں خرچ ہوئی۔اس کا نقصان الگ سے ہوا۔
اپنی بےعزتی کا ادراک ہوتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی چنانچہ میں نے دل میں تہیہ کرلیا کہ اس ڈھائی من کی عفیفہ سے اپنی بےعزتی کا بدلہ ضرور لینا ہے۔میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس بات کا تذکرہ محلے کے مولوی صاحب سے کیا جائے کہ وہ غیرت ایمانی سے لبالب بھرے ہوئے تھے یقیناً محلے میں پھیلی اس بےحیائی کا سن کر وہ ضرور لا وڈ سپیکر پر شور مچائیں گے۔یہ سوچ کر میں گھر سے باہر نکل آیا۔اورمنہ اٹھا کر ایک طرف چل دیا ۔ پھر گلی کی نکڑ پر مولوی صاحب نظر آئے جو کہ استاد جمیل کی دکان پر ( چندے کی رقم سے) بائیک ٹھیک کروا رہے تھے چنانچہ ان کے قریب پہنچ کر پہلے تو میں نے بڑے ادب سے سلام کیا پھر ان کی خدمت میں مناسب سا چندہ برائے مسجد پیش کیا جسے وصول کرتے ہوئے انہوں نے مجھے جنت کی بشارت دی اور مرنے سے پہلے ہی میرے اچھے خاصے درجات بلند کر دیئے۔موقعہ چنگا دیکھ کر میں نے ان کے سامنے جھٹ سے ڈھائی من کی عفیفہ کا سارا کچہ چھٹہ کھول دیا۔ میری بات سنتے ہی مولوی صاحب کا چہرہ غیرت ایمانی سے سرخ ہو گیا۔۔۔وہ یک دم کرسی سے اٹھے، پہلے دائیں طرف دو تین قدم لیے پھر وہاں سے بائیں طرف مڑے۔ اس وقت مولوی صاحب کا جذبہ ایمانی پورے عروج پر تھا چنانچہ ان کا طنطنہ ہم ہما اور دبدبہ دیکھ کر میں لرز اٹھاکہ کہیں یہ کفار کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے غزہ کی طرف ہی نہ نکل جائیں اس طرح میری ساری انویسٹ منٹ ضائع ہو جائے گی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس وہ بائیک پر بیٹھے اور منہ سے نسوار نکال کر زمین پر پٹخ دی ۔ جس سے میں سمجھ گیا کہ اب مولوی صاحب بے حیائی کے خلاف اعلان جہاد کرنے والے ہیں اتنے میں انہوں نےجمیل استاد کے شاگرد کو طلب فرمایا اور پھر نہایت ہی کڑک دار لہجے میں بولے۔ چھوٹے ابھی اور اسی وقت استاد کے پاس رکھے ہوئے سارے ” مرونڈے“ اٹھا ؤ اور کریانے والے کو واپس کر آؤ۔ اتنا کہہ کر انہوں نے بائیک کو کک ماری اور یہ جا وہ جا۔
فیس بک کمینٹ