کیاملالہ یوسف زئی واحد پاکستانی ہے جو طالبان کے عتاب کا شکار ہوئی؟یہ وہ سوال ہے جس نے ملالہ یوسف زئی کے پانچ سال بعد پاکستان آنے اور اسے اس قدر پروٹوکول دیئے جانے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر دھوم مچا رکھی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہی ملالہ کی بد نام زمانہ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کے ساتھ تصاویر نے بھی ملالہ کے کردار کو متنازعہ بنا رکھاہے۔ پاکستان ملالہ کا وطن ہے وہ ایک عرصہ کے بعد اپنے وطن واپس آئی ہے، جس پر اس کی آنکھوں نے خوشی کے آنسو بھی بہائے ہیں۔مگر ملالہ کے آتے ہی وزیر اعظم ہاﺅس میں اس کے لئے سجائی جانے والی تقریب۔ملک کی انتہائی اہم ترین شخصیات سے ملاقاتوں کی خبریں اور پاکستان آتے ہی ایک ہی دن میں دو بڑے پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر اس کے انٹرویوز کا فوری انتظام۔یہ سب غیر معمولی عمل ہے۔اس لیے اگر ایک طبقہ ملالہ کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ملالہ کی پاکستان آمد کے دن کو ایک تاریخی اور سنہرا دن قرار دے کر بغلیں بجا رہا ہے تو دوسرے طبقے کو ملالہ کی آمد اور اسے دیئے جانے والے غیر معمولی پروٹوکول پر ملال ہو رہاہے۔ملالہ سوات کے ایک سکول کی طالبہ تھی۔ اور یہ سکول بھی اطلاعات کے مطابق اس کے والد چلاتے تھے ۔ ملالہ نو عمری میں ہی گل مکئی کے نام سے طالبان کے خلاف لکھی ہوئی اپنی تحریریں انٹر نیٹ کے ذریعے بی بی سی کو پوسٹ کیا کرتی تھی۔جس کی وجہ سے طالبان اس کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے ۔یہ تو وہ کہانی ہے جو ملالہ پر طالبان کے حملے اور اس حملے کے نتیجے میں ملالہ کے شدید زخمی ہونے کی خبر کے ساتھ دنیا کو سنائی گئی۔میں ایک عرصہ موسم گرما سوات اور کالام کے علاقے میں گزارتا رہا ہوں۔وہاں اکثر علاقوں میں انٹر نیٹ سروس کام ہی نہیں کرتی ۔موبائل فون کے سگنلز کا بہت پرابلم رہتا ہے۔ ممکن ہے کہ ملالہ کو ایسی کوئی خصوصی سہولت حاصل ہو کہ اس کا طالبان کے خلاف ارسال کردہ ہر پیغام ہر تحریر بلا تعطل وصول کنندہ تک پہنچ جاتی ہو۔خیر۔ اس جملہ معترضہ کے بعد پوچھنا یہ ہے کہ ملالہ کے ساتھ دو اور بچیاں بھی زخمی ہوئی تھیں۔ان میں سے ایک کو تو شاید علاج کے لیئے برطانیہ بھیجا بھی گیا تھا۔قوم کی ان دونوں بیٹوں کی بھی ملالہ کو اس قدر پروٹوکول دینے والوں کو کوئی خبر ہے؟ملالہ کی کہانی روز اول ہی سے اپنے اندر کئی سوالات اور کئی شبہات لئے ہوئے ہے۔جس دور میں ملالہ پر حملہ ہوا، اس دور میں ارض پاک طالبان کا انتہائی سافٹ ٹارگٹ بنی ہوئی تھی اور طالبان کی بے رحمانہ کارر وائیوں کی وجہ سے ملک کے طول وعرض سے روزانہ جنازے اٹھتے تھے۔اس وقت بھی یہ بات غیر معمولی دکھائی دیتی تھی کہ ملالہ پر حملے کی خبر آتے ہی ملکی غیر ملکی میڈیا نے کس طرح آسمان سر پر اٹھا لیا۔ این جی اوز چینخ پڑیں۔ طبی امداد دینے کے لئے فوری طور پرہیلی کاپٹرز میسر آگئے۔جبکہ طالبان کی بربریت کا شکار دیگر پاکستانی ایسے بھرپور اور فوری ریسپانس کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔آج بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ دہشت گردی کے شکار عام پاکستانی اس مہربانہ اور مشفقانہ سلوک کے قابل کیوں نہیں سمجھے گئے؟ عافیہ صدیقی امریکہ کی مجرم ہے اور ملالہ امریکہ اور مغربی دنیا کی آنکھ کا تارا ہونے کی وجہ سے قابل پذیرائی ہے۔طالبان کے حملے کے نتیجے میں ملالہ شدید زخمی ہوئی۔ اسے فوری طبی امداد میسر آئی اور پھر اس کی جان بچانے کے لیئے اسے بیرون ملک روانہ کر دیا گیا۔جہاں بہترین علاج معالجے کی سہولت نے ملالہ کو نئی زندگی بخشی۔سوال یہ بھی ہے کہ ملالہ کے اس تمام علاج معالجے کے اخراجات کس نے برداشت کیئے؟ حکومت پاکستان نے یا امریکہ اور مغربی دنیا نے؟ مغربی دنیا نے اس کی قابل ذکر پذیرائی کی، اسے نوبل انعام سے نوازا۔اسے ایک اعلیٰ درجے کی سماجی حیثیت دی گئی۔پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو طالبان کی دہشت گردی کی کاروائیوں کی بھینٹ چڑھ کر جان سے گزر گئے اور کتنے ہیں جو آج بھی معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان سب کو سوائے طفل تسلیوں کے اور کیا ملا؟ملالہ کی پاکستان آمد پر خوش آمدید ۔مگرملالہ کے اس طرح آنے پر ملال کرنے والے طبقے کا خیال ہے کہ ملالہ کو پاکستانی سیاست اور حکومت میں داخل ہونے کی تربیت دے کر پاکستان بھیجا گیا ہے۔ایک ٹی وی چینل پر ملالہ کے انٹرویو کا عنوان ہی یہ تھا” ملالہ یوسف زئی کا سماجی اور سیاسی پروگرام“ ۔ کل کیا ہو گا۔اللہ جانے۔
فیس بک کمینٹ