ایم کیوایم، جو پہلے مہاجر قومی موومنٹ تھی پھر متحدہ قومی موومنٹ بنی اسے چند روز قبل ٹنکی گراﺅنڈ لیاقت آباد میں چالیس سال بعد منعقد ہونے والے پی پی پی کے جلسے میں بلاول بھٹو نے ” مستقل قومی مصیبت“ کا نام دے کر ایم کیو ایم کے تین حروف کی دل لگتی تشریح کی تھی۔بلاول بھٹو کی اردو کا مذاق اڑانے والے بھی اب بلاول بھٹوکی زبان و بیان سے محظوظ ہونے لگے ہیں۔ ایم کیو ایم کی موجودہ صورت حال پر اسے مستقل قومی مصیبت نہیں تو کم از کم منتشر قومی موومنٹ تو کہا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ لیاقت آباد کہلایا جانے والا کراچی شہر کا یہ علاقہ ایم کیو ایم کے سوا دیگر پاکستانیوں کے لیئے ” نو گو ایریا “ تھا۔پاکستانی شہری پاکستان کے سرحدی اور قبائلی ایریاز میں ” علاقہ غیر“ کہلائے جانے والی جگہوں پر جانے کی ہمت تو کر لیتے تھے مگرلیاقت آباد کے نو گو ایریا جانے کا رسک نہیں لیا جا سکتا تھا۔ایم کیو ایم کے عروج کے دنوں میں مجھے بھی ایک بار اس علاقے میں نماز جمعہ رینجرز کے سپاہیوں کی سنگینوں کی نوک کے سائے میں ادا کرنے کا موقع ملا، دو رکعت فرض نماز کے دوران دل سے جان کی امان کی دعا ہی نکلتی رہی اور” نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں “ متواتر ذہن میں گونجتا رہا۔ ایم کیوا یم پر الطاف بھائی کی گرفت ڈھیلی کیاپڑی کہ ایم کیوایم کی حالت کچھ یوں ہو گئی ہے ”دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی۔۔ لوگوں نے میرے صحن میں رستہ بنا لیا“ ۔ یہاں تو ایک نہیں کئی راستے بن گئے ہیں اور مزید بنائے جا رہے ہیں۔کہاں وہ طنطنہ، وہ دبدبہ کہ نائن زیرو پر وز رائے اعظم بھی اجازت لے کر سر جھکا کر حاضری دیتے تھے اور کہاں یہ دن کہ ایک طرف مصطفےٰ کمال اپنا جلال دکھا تے ہوئے ایم کیو ایم کی پتنگیں لوٹنے پر لگے ہوئے ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف اور پی پی پی ایم کیو ایم کی ڈور کاٹنے کے در پے ہیں۔بلاول بھٹو نے تو لیاقت آباد کے ٹنکی گراﺅنڈ میں تیر اندازی کا ماہرانہ مظاہرہ کر کے ایم کیو ایم کی منتشر سپاہ کے خیمے اکھاڑنے کی ابتدا کر دی ہے۔تیس سال تک بلا شرکت غیرے کراچی پر قابض اور حاکم رہنے والی ایم کیو ایم اب ویسے ہی مظلوم بن کر دہائی دے رہی ہے جیسے پاکستان کی ستر سالہ زندگی میں سب سے طویل عرصہ تک حکمران رہنے والا شریف خاندان اپنی مظلومیت کی دہائی دیتے ہوئے نہ صرف اس نظام کو جس کا سب سے بڑا بینیفشری یہ خاندان رہا ہے ،سوکن کی طرح کوس رہا ہے بلکہ اسے تلپٹ کرنے کے درپے ہے۔ایم کیو ایم ، متحدہ قومی موومنٹ سے ایک بار پھر مہاجر قومی موومنٹ بننے جا رہی ہے۔ مہاجر قومیت کے نعرے کے سوا کوئی اور نعرہ نہیں ہے ، جس کی بناءپر ایم کیو ایم اپنا ووٹ بنک اور اپنی ساکھ بچا سکے، مگر اس میں بھی ایم کیو ایم مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے کیونکہ لیاقت آباد اور بہادرآباد کے خانوں میں بٹی ایم کیو ایم کے پاس مہاجر قومیت کے نام پر نفرت پھیلانے کے سواکوئی اور نعرہ ہے نہ پروگرام۔ستر سال بعد بھی خود کو مہاجر کہلانے پر بضد بعض مہاجرین کے دل سے انڈیا نہیں نکل سکا۔ جیسے شریف خاندان نے لاہور کے نواح میں امرتسر کا جاتی عمرہ بسا لیا ہے ویسے ہی کراچی کے بھی کئی علاقوں میں انڈیا کی یاد اور جھلک دکھائی دیتی ہے۔ بہادر آباد چوک کے بیچوں بیچ ایک چوبرجی بنی ہوئی ہے اور اس کے احاطے کے باہر ایک بورڈ پر یہ تحریر درج ہے کہ یہ حیدر آباد(انڈیا) کے چوک کی ہو بہو نقل ہے اور اس کی یاد گار کے طور پر بنائی گئی ہے۔ خیر۔ یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے۔عرض یہ ہے کہ آپ جتنا بھی اپنے آپ کو لبرل کہہ لیں ، کہیں نہ کہیں آپ کو ایک مخصوص اور محدود سے تعصب کی بو ضرور محسوس ہوگی۔ اور یہ سب کچھ ایم کیو ایم کے مہاجر قومیت کے نعرے کی دین ہے۔ایم کیو ایم کبھی بھی اس تعصب سے باہر نہیں نکل سکی اور آج بھی اس کی سیاست کا محور و مرکز مہاجر قومیت کا نعرہ ہی ہے۔ ہمارے اردو سپیکنگ بھائی عجیب کنفوژن کا شکار ہیں کہ اصل مہاجر کون ہیں ؟ لیاقت آباد والے۔ بہادرآباد والے یا پھر کمال کی ہٹی کو اپنے دکھوں کا مداوا سمجھنے والے۔پی پی پی کے لیاقت آباد کے ٹنکی گراﺅنڈ میں جلسے کو ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے اپنی راج دھانی میں پی پی پی کی نقب زنی قراردیتے ہوئے جوابی جلسے کی صورت میں کراراجوابی وار کرنے کو بے قرار ہیں۔ اصل مسئلہ کراچی پر قبضے کا ہے۔ جس پر لیاقت آباد اور بہادرآباد والے دونوں متفق ہیں کہ کراچی پر مہاجروں کا قبضہ برقرار رہنا چاہیے۔میرا خیال ہے کہ بلاول بھٹو کی قیادت میں پی پی پی کراچی میں دوبارہ قدم جما رہی ہے۔اگر کہیں سے کمال کی ہٹی اور ایم کیو ایم کی پذیرائی نہ ہوئی توکراچی پی پی پی کاہو گا ۔اور پی پی پی کے کراچی میں ، فیصل واڈا، عمران سماعیل اور ڈاکٹر عارف علوی، دستانے پہن کر ،کرپشن کی داستانیں تلاش کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔لگتا یوں ہے کہ بلاول بھٹو کی موجودگی میں کراچی پر ایم کیو ایم کے دوبارہ قبضے کی خواہش ۔۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے ۔۔ ثابت ہو گی۔
فیس بک کمینٹ