بلےکے انتخابی نشان والی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد سے جس صورت حال سے دوچار ہے وہ قطعی غیر متوقع نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے اپنی عادت کے مطابق جلد بازی سے کام لے کر اپنے ناقدین کی یہ بات سچ ثابت کر دی ہے کہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں آنے کی کس قدر جلدی ہے۔سیاسی فہم و فراست کا تقا ضا تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی پہلے اپنی سب سے بڑی سیاسی حریف جماعت مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی فہرست سامنے آنے دیتی اور پھر ان کے مقابلے کے لیئے ان ہی جیسے قد کاٹھ کے امیدوار سامنے لاتی۔اگر یہ حکمت عملی اپنائی جاتی تو پی ٹی آئی شاید مد مقابل کی طاقت کا حوالہ اوردلیل دے کر ،ٹکٹ نہ ملنے کی شکایت کرنے والے اپنے ان کارکنوں کو بھی مطمئن کر پاتی جو شکوے شکایت سے آگے بڑھ کر اب باقاعدہ احتجاج اور پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ دراصل ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کے بعد سے لیکر اب تک پی ٹی آئی نے جتنے بھی فیصلے کئے ہیں ان میں اکثر ایسے ہیں جو اپنے پاﺅں پر آپ کلہاڑی مارنے کے مترادف ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی میاں نواز شریف سے تو یہ توقع رکھے کہ وہ سپریم کورٹ سے نااہلی کے بعد گھر بیٹھ جائیں ۔ مگر اسی سپریم کورٹ سے نااہل ہونے کے باوجود جہانگیر ترین نہ صرف پارٹی کے اہم ترین عہدے پر مسلسل برقرار رہیں بلکہ پارٹی امور اور فیصلوں میں بھی ان کا سب سے اہم اور فعال کردار ہو۔لودھراں کے ضمنی الیکشن میں جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین کو پارٹی ٹکٹ دینے سے لیکر پارٹی میں الیکٹ ایبلز کی تھوک کے حساب سے بھرتی تک کئی ایسی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی شیروانی کے شوق میں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ رہنمائی کا دعویٰ کرنے والا لیڈر اگر اپنے بنیادی نظریے سے ہی منہ موڑ لے تو اس کی قیادت پر اعتماد کرنا ایک اور دھوکہ کھانے کے مترادف ہے۔عمران خان کے موجودہ فیصلے اور اقدامات پی ٹی آئی کے ناقدین کی اس دلیل کو بھی باوزن بنا رہے ہیں کہ ایک ہسپتال یا ایک یونیورسٹی کا انتظام کسی بورڈ آف گورنر کے ذریعے چلانا اوراس کے مقابلے میں اکیس کروڑ آبادی پر مشتمل گوناگوں مسائل کے شکارملک کا نظام حکومت چلانا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے کہا تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر باتیں کرنا بہت آسان اور حکومت میں بیٹھ کر معاملات چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔پی ٹی آئی کو درپیش مسئلے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ عمران خان کی تبدیلی کی آواز پر پاکستان کے اس طبقے اور خاص طور پرنوجوان طبقے نے لبیک کہا تھا جو اس ملک کے فرسودہ اور موروثی انتخابی نظام کی وجہ سے پولنگ والے دن پولنگ سٹیشن تک جانے کی بجائے گھر بیٹھ کر چھٹی انجوائے کیا کرتا تھا۔پی ٹی آئی کے چئیرمین عمران خان کو اصل کریڈٹ ہی اس بات کا دیا جاتا تھا کہ انہوں نے ملک کے سیاسی نظام سے لاتعلق افراد کا رخ پولنگ والے دن پولنگ سٹیشن کی جانب موڑنے کا کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ اور بلاشبہ یہ پاکستانی سیاسی کلچر میں ایک بڑی اور مثبت تبدیلی کا آغاز تھا۔موجودہ صورت حال میں یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا عمران خان کا ووٹر اسی فرسودہ اور موروثی سیاست دان اور امیدوار کے نام کی ووٹ کی پرچی پر ٹھپہ لگائے گا جس پر سوائے انتخابی نشان بلے کے باقی سب کچھ وہی چھپا ہوا ہو گا جو ہمیشہ سے ہر الیکشن میں چھپا ہوا ہوتا ہے۔ووٹر کی اگر یاداشت سلامت ہو گی تو اسے یاد آجائے گا کہ اسی
نام کے سامنے گزشتہ الیکشن میں۔شیر۔تیریاسائیکل میں سے ہی کوئی انتخابی نشان تھا جس پر ووٹر نے ٹھپہ لگا کر اسی امیدوار کو کامیاب کروایا تھا جو آج بلے کے نشان پر الیکشن لڑ رہا ہے۔ میرے نزدیک آنے والا الیکشن دراصل اب ووٹر کے عقل وشعور کا امتحان ہو گا۔عمران خان اور پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت جس میں اب کوئی بھی نظریاتی نام شامل نہیں ہے جس خام خیالی کا شکار ہے ، اس کا مختلف نتیجہ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ عمران خان کے تبدیلی کے نعرے سے متاثر ہو کر پی ٹی آئی میں ایک کارکن کی حیثیت سے برس ہا برس گزارنے والے پرانے ورکرز جب اپنے خوابوں کی تعبیر الٹتے دیکھیں توعین ممکن ہے وہ بڑے بڑے الیکٹ ایبلز کے برج بھی الٹا کر رکھ دیں یا پھر حسب سابق گھروں میں ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھ کر تماشہ دیکھیں۔اورآخری رزلٹ میں پتہ چلے کہ بنی گالہ کے باہر لگے میلے میں عمران خان کا اپنا کمبل ہی چوری ہوگیا ہے۔
فیس بک کمینٹ