رات میرے بچپن کے دوست پروفیسر(ریٹائرڈ)سہیل اقبال کا ایک عرصہ کے بعد فیصل آباد سے فون آیا۔ معمول کی سلام دعا اور خیر، خیریت کے بعد حالات حاضرہ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مخصوص اندا ز میں کہا۔۔” یار اسی تے سٹھ دی دہائی توں اے تماشے ویکھدے پئے آں۔۔ پتہ نی کی بنے گا۔۔۔؟“پروفیسر صاحب کی کچھ دیر بعد ختم ہونے والی گفتگو مجھے ، ساٹھ، ستر کی دہائی میں لے گئی۔پی این اے(پاکستان نیشنل الائینس سن ستتر) اور ۔پی ڈی ایم( پاکستان ڈیموکریٹک موومینٹ دو ہزار بیس) تک کا سفر 43سال کے عرصے پر محیط ہے۔اس سے پہلے جنرل ایوب خان کے گیارہ سالہ آمریت کے دور کا خاتمہ جنرل یحیٰ خان کے مارشل لاءپر اور اس مارشل لاءکے دور کا خاتمہ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ہوا تھا۔ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جنرل امیر عبدللہ خان نیازی کا اپنا پستول ان لوڈ کر کے بھارتی جنرل اروڑا کے حوالے کرنے کا منظر میرے ہم عصر افراد کو دسمبر کے مہینے میں ایک بار ضرور یاد آتا ہے۔اور ساتھ یہ بھی کہ باقی ماندہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں نیا پاکستان بنانے کے لئے وہ لوگ برسر اقتدار آگئے جو بنگالیوں سے جان چھڑانے کے خواہشمند تھے۔
قوم( مغربی پاکستان کے باسیوں) کو یہ یقین دلا دیا گیا تھااوراچھی طرح ذہن نشین کرا دیا گیا تھا کہ عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کاشیخ مجیب الرحمان نامی سربراہ بھارتی ایجنٹ اور غدار ہے۔لہٰذا۔ قومی سلامتی کے تقاضوں کے پیش نظر اسے مملکت پاکستان کا اقتدار منتقل نہیں کیا جا سکتا۔نتیجہ یہ نکلا کہ غدار شیخ مجیب ، بنگلہ دیش نامی ایک آزاد مملکت کا پہلا سر براہ بن گیا۔
مغربی پاکستان نیا پاکستان کہلایا۔ذوالفقار علی بھٹو ،پہلے مارشل لاءایڈمنسٹریٹر، پھر صدر مملکت اور بالآخر نئے پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ملک میں جمہوریت چل پڑی۔1973کا آئین متفقہ طور پر پاس کر لیا گیا۔بھٹو عوامی لیڈر اور ان کی حکومت عوامی حکومت قرار پائی۔عوامی حمایت کے زعم میں بھٹو نے چار سال بعد ہی1977میں انتخابات کا ڈول ڈالا۔لاڑکانہ کے ڈپٹی کمشنر(نام شاید خالد کھرل تھا) نے لاڑکانہ کی سیٹ سے وزیر اعظم بھٹو کو بلا مقابلہ منتخب کرانے کا کارنامہ سر انجام دے کرسارے انتخابی عمل کو مشکوک بنا دیا۔لہٰذا۔صاف و شفاف الیکشن اور حقیقی جمہوریت کی بحالی کے مطالبے و مقصد کے لئے پی این اے (پاکستان نیشنل الایئنس یا پاکستان قومی اتحاد)کے نام سے سیاسی اتحاد بنا ۔ جو نو سیاسی جماعتوں کی شمولیت کی وجہ سے نو ستارے بھی کہلایا۔
مولانا مفتی محمود لاہور کے جلسے میں قرآن پاک گلے میں لٹکا کر آئے۔تو۔مولانا شاہ احمد نورانی کی تجویز اور مطالبے پر چار دن بعد جمہوریت کی بحالی کی یہ تحریک۔نفاذ نظام مصطفی۔ کی تحریک میں بدل گئی۔اپوزیشن اور حکومت کی مذکراتی ٹیمیں طویل مذاکرات کے بعد کسی نتیجے پر پہنچ کر ایک اعلامیے کی نوک پلک درست کرنے میں مصروف تھیں۔کہ۔ جنرل ضیاءالحق نے قوم کے جذبہ ایمانی کو بھانتے ہوئے ،منتخب وزیراعظم کو سہالہ ریسٹ ہاﺅس بھیج دیا اور یوں5جولائی1977 رونماہو گیا۔اسلامائیزیشن ، ضیائی دور کا نصب العین ٹھہرا۔عوام ،صلواة کمیٹیوں کے ذریعے ،طریقہ نماز اور زکواة کمیٹیوں کے ذریعے ادائیگی زکواة کا سبق پڑھتے رہے۔ ملک میں نظام مصطفیٰ کے نفاذ کے لئے مجلس شورہ بنی ،جس کے پہلے چیئرمین ، آج کے جمہوریت کے چیمپئین خواجہ آصف کے والد ، خواجہ صفدر تھے۔سن ستر کے آغاز میں غدار شیخ مجیب الرحمان سے جان چھڑا لی گئی تھی اور اب اس دہائی کے آخر میں قاتل بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر قومی سلامتی کے تحفظ کا گوہر مقصود حاصل کر لیا گیا۔ حالانکہ ، بھٹو کہتا رہا۔۔درداں دی ماری دلڑی علیل اے ۔کوئی نہ سندا دکھاں دی اپیل اے۔۔مگریوں ایک ہی دہائی میں قومی سلامتی کے سارے تقاضے پورے ہو گئے۔
ضیائی دور کے کار ہائے نمایاں میں اور بہت سی اسلامائزیشن ، جس میں شوق شہادت رکھنے والے نوجوانوں کی تلاش ،مذہبی جنونیوں کی پرداخت، کے ساتھ ساتھ سیاسی محاذ پرمقابلے کے لئے آل شریف کی دریافت بھی شامل ہے۔آل شریف نے اس محاذ کے لئے اپنے انتخاب پر ضیاءالحق کو کبھی مایوس نہ کیا بلکہ اپنی خدمات سے ضیاءالحق کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ۔۔عمر میری تجھے لگ جائے۔۔ اللہ تعالیٰ نے ضیاءکی دعا سن لی اور پھر ایک دن اٹھارہ اگست1988کو قوم نے سینٹ کے چئیرمین غلام اسحاق خان کوسرکاری ٹی وی پر یہ کہتے سنا۔۔۔ہمارے صدر کا طیارہ۔فضاءمیں ۔دماکے سے۔پٹ گیا۔۔ضیاءاپنے انجام کو پہنچا۔۔اور قوم کو۔۔نہ خدا ہی ملا ۔۔نہ وصال صنم۔۔
البتہ ۔قوم ایک بار پھر حقیقی جمہوریت کی طرف پلٹی۔بے نظیر، چاروں صوبوں کی زنجیر کے نعرے کے ساتھ، وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ تک پہنچیں۔مگر اقتدار میں آنے کے لیئے بے نظیر کی بے قراری نے اسے شرف بے اختیاری بخشا۔بے اختیار وزیر اعظم کے مقابلے میں بھر پورمالی اور خیالی امداد کے ساتھ، آئی جے آئی میدان میں اتاری گئی۔آل شریف کاروباری لوگ ہیں ، انہوں نے نوٹ کے ذریعے ووٹ کو بہت عزت بخشی اور جو سرمایہ کاری آل شریف نے چھانگا مانگا کے جنگل میں سیاسی پودوں کی پرداخت پر کی تھی،اب آئی جے آئی نے اس کا پھل کھانے کا موقعہ فراہم کیا۔سن اسی کی دہائی میں پنجاب کی وزارت خزانہ سے ہوتے ہوئے ، ضیاءالحق کی برسی پر ان کا مشن مکمل کرنے کے دعویدار میاں محمد نواز شریف بھاری اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہو ئے ۔اسی بھاری اکثریت کے گمان نے انہیں اکسایا اوروہ ضیاءالحق کے روحانی جانشین بننے کی خواہش میں 12 اکتوبر 1999کا شکار ہو گئے۔جنرل مشرف اس روز ہوا میں تھے، انہوں نے زمین پر اترتے ہی سوال کیا۔۔۔مجھے دھکا کس نے دیا؟ ۔جواب میں جنرل مشرف کو کشتی اور پتوار دونوں میسر آگئے تو انہوں نے قوم کی نیاءپار لگانے کی ٹھان لی۔بھٹو ، سول کپڑوں میں مارشل لاءایڈمنسٹریٹر بنے تھے۔مشرف ، جنرل کی وردی میں ، صدر منتخب ہوئے۔
پھر 2007 آیا۔ بےنظیرکسی یقین دہانی پر پاکستان آئیں۔کراچی کارساز دھماکے میں محفوظ مگر منصوبہ سازوں کے نشانے پر موجود رہیں۔ پی پی کے رہنما،رحمان ملک جب بی بی کے سیکورٹی انچارج تھے تو لیاقت باغ میں جلسے کے بعد باہر نکلتے ہوئے ،ایک ماہر نشانہ باز کی گن سے نکلی ہوئی گولی نے بی بی کو اس جہان فانی سے ملک عدم روانہ کر دیا۔اور قصاص کے طور پر آصف علی زرداری کی سربراہی میں بی بی کی جماعت کو اقتدار میں آنے کی سہولت ملی۔
ملک میں ایک بار پھر جمہوریت کا بول بالا ہوا۔ بی بی کے شوہر آصف زرداری نے ،بی بی کے اندھے قتل کا بقایا قصاص ، ایوان صدر میں بطور صدر مملکت داخل ہو کر وصول کرنے کے بعد بی بی کے قاتلوں کو پکڑ کر سزا دینے کی بجائے۔۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔۔کا نظریہ
متعارف کروایا۔اور جمہوریت نے واقعی عوام سے بدترین انتقام لیتے ہوئے پانچ سال پورے کئے اور بقایا انتقام آئیندہ پانچ سال میں لینے کے لئے میاں محمد نواز شریف کی حکومت پر چھوڑ دیا۔2013 کے انتخاب بھی پاکستانی انتخابات کے معروف طریقے پر ہی منعقد ہوئے۔ ہارنے والوں نے دھاندلی کا شور مچایا۔ 22سال سے اقتدار کے منتظر کپتان نے چار حلقوں کی وہ دہائی دی کہ اللہ کی پناہ۔126دن کنٹینر شو چلتا رہا اور بلآخر دشمن نے آرمی پبلک سکول پشاور پربہیمانہ دہشت گردی سے معصوم بچوں کو قتل کر کے کپتان کے لئے کنٹینر سے اترآنے کا جواز مہیا کیا۔اسی دوران کہیں سے پانامہ آن ٹپکا۔پانامہ کے ہنگامے سے اقامہ برآمد ہوا۔اور پھر2018کپتان کی امیدیں بھر آنے کا سال ثابت ہوا۔اب ہم 2020کے اختتام کی طرف گامزن ہیں۔ایک بار پھر حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لئے پی ڈی ایم بن چکی ہے۔پی این اے سے شروع ہونے والے سفر اور اس کے نتائج اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت راقم نے کی ہے۔اس سیاسی سفر کے دوران ، اے آر ڈی اور ایم آر ڈی کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ ان سب تحریکوں نے عام پاکستانی کو کچھ نہیں دیا۔سوائے، نفرت اور عدم استحکام کے۔ہاں۔ ایک بات یہ کہ پی این اے، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی حکومت کے خلاف تھی اور اس کے روح رواں تھے ، مولانا مفتی محمود۔۔پی ڈی ایم، کپتان اور کپتان کی حکومت کے خلاف ہے اور اس کے کرتا دھرتا ہیں، مولانامفتی محمود کے فرزند ارجمندمولانا فضل الرحمان۔اور ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ بلاول،مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اس تحریک میں شامل ہے۔ پی ڈی ایم کے باقی سب عناصر ترکیبی کم وبیش وہی ہیں ۔عالم ارواح میں مولانا مفتی محمود اپنے حریف ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ پر ہاتھ مار کرخوشی سے کہتے تو ہوں گے۔۔بھٹو صاحب۔۔کیسے لگتے ہیں۔میرا بیٹا اور آپ کا نواسہ؟البتہ ہم اس ساری صورت حال پر صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ۔۔یہ تو وہی جگہ ہے ۔گزرے تھے ہم جہاں سے۔۔
فیس بک کمینٹ