خبر یہ ہے کہ دو آدمی آئے، انہوں نے آئی جی پولیس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔آئی جی صاحب باہر تشریف لائے اور وہ دو آدمی آئی جی صاحب کو اغوا کر کے لے گئے۔آپ کو یاد ہو گا کہ اس سے پہلے ایک آدمی موٹر سائیکل پر آیا تھا اور وفاقی وزیر علی زیدی کو پیپلز پارٹی اور عزیر بلوچ کے تعلقات پر مبنی معلومات کا لفافہ تھماکر رفو چکر ہو گیا تھا۔چلیں۔ وہ بات تو پرانی ہو گئی ۔سب بھول بھال گئے ہوں گے ، کہ یہاں تو ہر روز ایک نیا تماشہ برپا ہوتا ہے جب مداری کی پٹاری میں دکھانے کو بہت کچھ ہو تو پرانا کھیل کون یاد رکھے۔
تازہ کہانی یوں بیان کی جا رہی ہے کہ آئی جی صاحب کے اغوا کے بعد الصبح کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ابھی یہ خبر نہیں آئی کہ وہ دروازہ توڑنے والے وہی دو آدمی تھے یا اغوا شدہ آئی جی کو ملا کر تین ہو گئے تھے۔اس سارے قصے میں آئی جی صاحب کے اغوا کے ساتھ ساتھ دروازہ توڑنے کا ”تڑکا“کچھ زیادہ ہی لگ گیا ہے۔جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کو دو دن شرم سے منہ چھپائے چھپائے پھرنا پڑا۔مگر جب سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کی طرف سے اجتماعی چھٹی پر چھٹی کی درخواستیں آنے لگیں تو بلاول بھٹو شرم کو بالائے طاق رکھ کر پریس کانفرنس میں آن پہنچے۔ملک میں اجتماعی زیادتی کے واقعات پر بھی کئی کئی دن تک ٹی وی چینلز دہائی دیتے رہتے ہیں مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سن پاتا۔ نہ پولیس کے کسی اعلیٰ افسر نے اس پر کبھی چھٹی مانگی نہ کسی نے استعفیٰ دیا۔نہ کسی سیاست دان یا حکمران کو شرم سے منہ چھپائے چھپائے پھرنا پڑا۔خیر۔ جہاں تک منہ چھپانے کا معاملہ ہے تو کورونا کی وجہ سے یہ سہولت سب کو حاصل ہے۔اس لئے بلاول بھٹو کیا قوم کے سب ”خیر خواہان“ہی منہ چھپا کر بیٹھتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو کا بڑا اور اہم سوال ہی یہ تھا کہ وہ دو آدمی کون تھے؟ جو رات کے پچھلے پہر ہمارے آئی جی صاحب کو اغوا کر کے لے گئے۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان دو آدمیوں کا پتہ چلانے کے لئے بلاول بھٹو نے اسی آرمی چیف کو مدد کے لئے پکارا جس کے خلاف اپنے جلسوں میں شریفوں کو ہزرہ سرائی کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔۔گویا۔ بیمار ہوئے جس کے سبب۔۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگتے ہیں۔بلاول بھٹو نے اس معاملے میں براہ راست آرمی چیف سے مدد مانگ کر انہیں سندھ پولیس ، اور سندھ کے دیگر تمام اداروں کی بے بسی سے آگاہ کر دیا ہے ۔اور یہ معذوری ظاہر کر دی ہے کہ ایک صوبے کی انتظامیہ پر جہاں بلاول بھٹو کی پارٹی اپنے اقتدار کی تیسری مدت پوری کرنے جا رہی ہے ،اس پارٹی کی کوئی گرفت نہیں ہے ۔ اور صرف دو آدمی کبھی بھی آکر آئی جی صاحب جیسے شخص کو نہ صرف اغوا کر سکتے ہیں بلکہ آئی جی صاحب کی وساطت سے کسی پرائیویٹ ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کے کسی بندے کو گرفتار بھی کر سکتے ہیں۔ اس دورانیئے میں سندھ پولیس کی پوری فورس اور دیگر ایجنسیاں شاید جلسے میں ڈیوٹی دینے کے بعد تھکن اتار رہی تھیں۔
جہاں تک سند ھ پولیس کی بات ہے تو سندھ پولیس نے دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ بیشمار جانیں گنوائیں ہیں۔مگر سندھ کے وڈیرہ کلچر کے مطابق سندھی وڈیرے سندھ پولیس کو بھی اپنے ذاتی گارڈز سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔پنجاب میں بھی شہری علاقوں کو چھوڑ کر دیہات میں یہی کلچر ہے۔بلاول بھٹو کو دکھ ہے کہ اس کے صوبے میں۔اس کی حکومت میں۔اس کی حکومت کے ماتحت پولیس کے ہاتھوں، اس کے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک ہوا۔تو۔بلاول بھٹو صاحب۔ آپ کے صوبے میں۔آپ کی والدہ محترمہ کی وزارت عظمیٰ میں آپ کے ماموں جان ،میر مرتضیٰ بھٹو کا بہیمانہ قتل بھی اسی سندھ پولیس کے ہاتھوں ہوا تھا۔آپ نہ تو آج تک اپنے ماموں کے قتل کا سراغ لگا سکے ہیں نہ اپنی عظیم والدہ کے قاتلوں کو سزا دلوا سکے ہیں۔ہاں۔ البتہ ۔ آپ اس بات پر فرحاں و شاداں ہیں کہ اٹھارہ اکتوبر کا کراچی کا جلسہ اتنا بڑا تھا کہ بقول آپ کے اتنا بڑا جلسہ نہ تو آپ کے نانا کے دور میں ہوا نہ آپ کی والدہ محترمہ کے دور میں ہوا۔تو جناب ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اٹھارہ اکتوبر کا جلسہ ہر سال سانحہ کارساز میں اپنی جانیں قربان کر دینے والے پیپلز پارٹی کے ان سینکڑوں کارکنوں کی یاد میں ہوتا ہے۔ جو پیپلز پارٹی ۔ذوالفقار علی بھٹو۔ اور محترمہ بے نظیر بھٹو پر خوشی خوشی قربان ہونے پر تیار رہتے تھے۔آپ نے یہ جلسہ مولانا فضل الرحمان۔ مریم نوا ز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے نام کر دیا۔اور اب آپ دو آدمیوں کی تلاش کے لئے آرمی چیف سے مدد مانگ رہے ہیں۔۔اگر ان دو آدمیوں کی کوئی خبر مل جائے تو قوم کو ضرور بتائیے گا۔
فیس بک کمینٹ