شیر شاہ سوری نے تو ہندوستان میں مفاد عامہ کے لئے جرنیلی سڑک بنوا کر تاریخ میں اپنی جگہ بنائی تھی۔پاکستان میں جرنیلی جمہوریت متعارف کروا کے تاریخ رقم کی جاتی رہی ہے۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں جمہوریت کا راج ہوتا ہے جہاں عوام کے منتخب کردہ نمائیندے ایوانوں میں پہنچ کر عوام کی آواز بنتے ہیں مگر بائیس تئیس کروڑ جمہور کی آبادی والے ملک پاکستان میں ہمیشہ جرنیلی جمہوریت کی حکمرانی رہتی ہے جس میں نہ عوام کے شعور پر بھروسہ کیا جاتا ہے اور نہ عوام کی رائے کا احترام۔
حکمرانی کا فیصلہ انتخابی نتائج آنے سے پہلے کر لیا جاتا ہے۔ عوامی نمائندے عوام کے ووٹ لے کر ان کی نمائندگی کا خواب لئے ایوانوں میں پہنچتے ہیں تو وہاں جا کر ان کا واسطہ عوامی جمہوریت کی بجائے جرنیلی جمہوریت سے پڑتا ہے ۔
یہ ملک اپنے قیام کا سہرا تو جمہور کے سر پر سجاتا ہے مگر قیام کے چند سال بعد سے ہی جرنیلی جمہوریت اس ملک پر حکمرانی کر رہی ہے۔ جب 1954 میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی قانون ساز اسمبلی کی تحلیل کے بعد محمد علی بوگرہ کو جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا وزیراعظم بنا کر نئی کابینہ بنانے کی دعوت دی تو اس وقت حکومتی امور چلانے کے لئے بنائے جانے والے حکومتی سیٹ اپ میں دو باوری جرنیل اسکندر مرزا اور ایوب خان دس رکنی "کونسل آف منسٹرز” میں شامل اور اہم وزارتوں پر فائز ہوئے تھے جو دونوں ہی بعد ازاں اس ملک کے منصب صدارت تک پہنچے اور اپنے بعد آنے والوں کے لئے جرنیلی جمہوریت کے تسلسل اور اس کی قابلِ تقلید مثال بنے۔
یہ روایت اتنی توانا ہے کہ نام نہاد جمہوری نظام کے باوجود پاکستان آج بھی اسی صورت حال سے دوچار ہے اور اس جرنیلی جمہوریت کے نظام کے بغیر یہاں ہر عمل تعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔
دنیا کے جمہوری ممالک میں بسنے والی عوام کی اکثریت کو شاید اپنی مسلح افواج کے کمانڈر یا سپہ سالار کا نام بھی معلوم نہیں ہوتا مگر پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ ہر تین سال بعد سپہ سالار کی تعیناتی ہوتی ہے اور ان تین سالوں کے دوران بھی ملک کے وزیراعظم اور عسکری ادارے کے سپہ سالار کے درمیان ”اٹ کھڑکا” لگا رہتا ہے۔
عوام کو سپہ سالار کی تعیناتی سے کوئی فرق نہیں پڑتا نہ ان کے مسائل میں کمی آنے کا امکان ہوتا ہے مگر نئے سپہ سالار کی ہونے والی تقرری پر اس قدر بحث عام آدمی کو بھی اس میں شامل کر لیتی ہے اور ہر محفل میں اس تقرری پر تبصرے عوام کو سپہ سالار کے عہدے کی افادیت و اہمیت پر قائل کرنے لگتے ہیں۔
اس تقرری کو وزیراعظم کا حق یوں قرار دیا جاتا ہے جیسے یہ وزیراعظم کا کوئی ذاتی معاملہ ہو یا وزیراعظم نے اپنے کسی ذاتی کاروباری ادارے کا سربراہ مقرر کرنا ہو۔ اس میں قومی اور عوامی مفاد کا کہیں ذکر سنائی نہیں دیتا ۔آئین میں وزیراعظم کے اس "حق”کے استعمال کا طریق کار موجود ہے مگر اس طریق کار کی تشریح اپنا "حق”فائق سمجھ کر کی جاتی ہے۔پاکستان کی ساری سیاست ساری جمہوریت اسی ایک تقرری کے گرد گھومتی ہے۔
ابتدا میں کچھ عرصے تک حکومتی بانسری سے نکلنے والی "ایک پیج پر” کی سر سننے والے کانوں کو بھلی لگتی ہے اور پھر جب اختلافات کی دیمک اس "ایک پیج” کو چاٹنا شروع کرتی ہے تو تردید اور وضاحتوں کا موسم شروع ہو جاتا ہے اور بلآخر محبوب معتوب اور معتوب محبوب بن جاتا ہے پھر انہیں گھسے پٹے پرانے الزامات اور مقدمات کا دور لوٹ آتا ہے۔
اعلٰی عدالتیں آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کا عزم لئے متحرک ہو جاتی ہیں۔ انہی عدالتوں میں عام شہری کی سنوائی پر کچھ کہنے کی جسارت نہیں کی جا سکتی ۔شام کے بعد ٹی وی سکرینوں پر رونق لگ جاتی ہے ہر وہ معاملہ زیر بحث آتا جس کا عوام کو درپیش روز مرہ کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔
آج بھی جب کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ساڑھے تین کروڑ لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں پاکستان کا سب سے زیادہ اہم بڑا اور حل طلب مسئلہ جو حکومتی ایوانوں اور اپوزیشن کی "اذانوں” کی گونج میں سنائی دے رہا ہے وہ نومبر میں ہونے والی نئے سپہ سالار کی تقرری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عمران خان پر توہین عدالت اور دہشتگردی کے قائم کردہ مقدمات اور ان کی اعلٰی عدلیہ میں سماعت ہے۔
ایسی صورت حال میں جبکہ سیلاب زدگان تو کیا عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی میسر آنا محال ہو چکا ہے عمران خان کے عدالت میں پیشی پر آنے کے لئے سیکیورٹی کے نام پر کئے جانے والے خطیر خرچی انتظامات دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ ملک عوامی مسائل کے چنگل سے آزاد ہو چکا ہے۔ غیر مقبول حکومت کے ارباب اقتدار ہوں یا مقبول اپوزیشن لیڈر عمران خان سب کا مستقبل جرنیلی جمہوریت سے وابستہ دکھائی دے رہا ہے اسی لئے آپس میں سخت اختلاف کے باوجود سب کی نظریں اپنی محبوب جرنیلی جمہوریت کے تسلسل پر لگی ہوئی ہیں۔۔کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ” جسے پیاء چاہے وہی سہاگن”۔
فیس بک کمینٹ