شاہد راحیل خان کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔وہ کالم نگار ،فیچر نگار ،سفر نگار،افسانہ نگار کے طور پر تو معروف ہیں، عہدجوانی میں تھیٹر کے ساتھ بھی وابستہ رہے ،قیام پاکستان کے بعد کے ملتان کی تاریخ کے عینی شاہد ہیں اوراس حوالے سے ان کی کتاب ”میں اورمیرا ملتان “بھی منظر عام پرآچکی ہے ۔گردوپیش پبلی کیشنز کے زیراہتمام گزشتہ برس شائع ہونے والی اس کتاب کو ملک گیر پذیرائی حاصل ہوئی ۔
شاہد راحیل بینکنگ کے شعبے سے وابستہ رہے اوراب ریٹائر منٹ کے بعد تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں ۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شاہد راحیل شعر بھی کہتے ہیں انہوں نے اپنی اس شناخت کو چھپا کر تونہیں رکھا لیکن اپنے شاعر ہونے کاکبھی دعویٰ بھی نہیں کیا۔سخن ورفورم کے زیراہتمام ملتان آرٹس کونسل میں ادبی بیٹھک کے اجلاسوں میں وہ باقاعدگی سے شریک ہوتے رہے اوراسی فورم پرانہوں نے نثر کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری بھی پیش کی ۔خوشی کے بات یہ ہے کہ وہ اب اپنا پہلاشعری مجموعہ ”دہلیز پہ آنکھیں “کے نام سے منظر عام پرلارہے ہیں ۔اس سے پہلے ان کاسفر نامہ حج”قدم قدم سوئے حرم “ اوریاداشتوں کامجموعہ” تیری میری کہانی“ منظر عام پرآچکاہے آئیے اب شاہد راحیل خان کی شاعری پربات کرتے ہیں ۔
شاہد بھائی نے خود بتایاکہ وہ سترکے عشرے میں سول لائنز کالج اورپھر بوسن روڈ کالج میں مسعود کاظمی مرحوم اور اس زمانے کے دیگر شعراءکے ہمراہ انٹرکالجیٹ مشاعروں میں بھی شرکت کرتے رہے ۔اس عہد کے تمام شعراءکے ساتھ ان کاذاتی تعلق بھی رہا اوران کے ساتھ ملاقاتیں بھی کیں ۔پھر بینک سے وابستہ ہوئے توشاعری پرتوجہ کم کردی ۔شاہد راحیل خان کی زندگی کااہم موڑ اس وقت آیا جب ان کی اہلیہ کااچانک انتقال ہوگیا ۔وہ خود لکھتے ہیں کہ رومان پرورنوجوان کی طرح میں بھی ساحر لدھیانوی کامداح تھا اوران کی نظم تاج محل مجھے اپنی” ممتاز “کے حوالے سے پسند تھی ۔زیر نظر کتاب کاانتساب بھی انہوں نے اپنے اہلیہ مرحومہ کے نام ہی کیا ہے ان غزلوں کامطالعہ کریں تو محسوس ہوتاہے کہ یہ تمام شاعری بھی انہوں نے اپنی اہلیہ کے لیے ہی کی ہے ۔”دہلیز پہ آنکھیں “استعارہ ہے انتظار کاوہ انتظار جو محبت کرنے والوں کو کسی پل چین نہیں لینے دیتا۔شاہد صاحب کی شاعری روایت سے جڑی ہوئی ہے ہمیں ان کی غزلوں میں محبت کی بہت سے کیفیات دکھائی دیتی ہیں لیکن ایک باشعور اورحساس قلمکار کی حیثیت سے وہ اپنے ارد گرد ہونے والی ناانصافیوں اور مظالم سے بھی لاتعلق نہیں رہے جبر کی جوکیفیت ہمیں وطن عزیز میں ہمیشہ سے دکھائی دے رہی ہے اوربات کرنے پر قدغن کے ہم جس طرح عادی ہوچکے ہیں اس کااظہار بھی ان کے کلام میں موجود ہے ۔
شاعر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ بات کرنے کے لیے اظہار کاکوئی نہ کوئی سلیقہ تلاش کرلیتاہے اوریہ سلیقہ ہمیں شاہد صاحب کی کتاب میں بھی دکھائی دیتاہے ۔انہوں نے انقلابی شاعر ہونے کادعویٰ بھی نہیں کیا اورانقلابیوں کی طرح نعرے بازی سے بھی گریز کیا۔عملی زندگی میں بھی رواداری ،محبت اورکاجورویہ ہمیں ان کے ہاں دکھائی دیتاہے ایسی ہی کیفیات ان کے کلام میں بھی موجود ہیں ۔ہمیں خوشی ہے کہ اپنے پہلے شعری مجموعے کے لیے انہوں نے ”گردوپیش پبلی کیشنز “کاانتخاب کیاابھی ان کے پاس اوربہت ساکلام بھی موجود ہے جن میں نظمیں بھی ہیں قطعات بھی اورمذہبی شاعری بھی ۔ہمیں یقین ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کی شاعری کے کچھ اورمجموعے بھی منظر عام پرآئیں گے ۔شاہد راحیل خان کی صحت اورسلامتی کے لیے بہت سی دعائیں ۔
فیس بک کمینٹ