سید ریاض عابدی کی افطاری سے واپس آ رہا تھا کہ استادِ محترم پروفیسر انور جمال کا فون آیا کہ آپ سے ملاقات درکار ہے میرا نعتیہ مجموعہ ”حسنت جمیع خصالہ“ شائع ہوا ہے۔ یہ سنتے ہی مَیں نے استادِ محترم سے کہا سر آپ حکم کریں مجھے کہاں حاضر ہونا ہے۔ کہنے لگے ملتان ٹی ہائوس آئو۔ مَیں انتظار کر رہا ہوں۔ مَیں ٹی ہائوس کی طرف رواں دواں تھا اور ذہن میں نعت گو شعراءکرام کی فلم چلنے لگی کہ ماضی میں اس شہر میں کیسے شعراءکرام گزرے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی نعت کہنے میں بسر کی۔ مَیں گاڑی چلا رہا تھا اور مجھے ڈاکٹر عاصی کرنالی، ولی محمد واجد، تابش صمدانی، اصغر علی شاہ، ہلال جعفری، منصور ملتانی، لالہ صحرائی، عیش شجاع آبادی، نور صابری، حزیں صدیقی، ثمر بانو ہاشمی، عزیز حاصل پوری، ممتاز العیشی، مذاق العیشی، ارشد ملتانی، اسلم یوسفی، فخر الدین بلے، بربط تونسوی، پرواز جالندھری، تاباں عابدی، تاثیر وجدان، حسین سحر، حسن رضا گردیزی، حیدر گردیزی، حفیظ رومانی، خادم رزمی، صبوحی دہلوی، قمر لکھنوی، منیر فاطمی اور مشتاق کھوکھر کی کہی ہوئی نعتیں یاد آنے لگیں۔ کہ ان شعراء نے ملتان کے دبستانِ نعت میں کتنے خوبصورت انداز میں رنگ بھرے۔ جیسے جیسے ملتان ٹی ہائوس قریب آتا گیا تو مجھے شہر میں موجود نعت کے بڑے نام یاد آنے لگے۔ ان میں اقبال ارشد، ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر محمد امین، شوذب کاظمی، وسیم ممتاز، قمر رضا شہزاد، رضی الدین رضی، نوازش علی ندیم، سہیل عابدی، ضیا ثاقب بخاری، ساغر مشہدی، ایاز صدیقی، کرامت گردیزی، نوشابہ نرگس، اختر حسین جعفری، رہبر صمدانی، سرور صمدانی شفیق آصف سمیت درجنوں ایسے نعت گو موجود شعراء کی سلامتی کے لیے دُعائیں کرنے لگا جن کے دَم سے نعت کا جہاں آباد ہے۔ ایسے میں پروفیسر انور جمال کا نعتیہ اثاثہ بالکل الگ اسلوب رکھتا ہے۔ انور جمال اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ ان کے شعبہ تخلیق کے میدان بہت زیادہ ہیں۔ وہ کہیں پر ہمیں شعر و ادب کا معتبر حوالہ دکھائی دیتے ہیں تو کہیں پر وہ ایسے نقاد لگتے ہیں جو ادبِ عالیہ کا جائزہ لیتے ہوئے نت نئی راہ متعین کرتے ہیں۔ خاکہ، انشائیہ، کالم نگاری، اقبالیات اور مصوری کے حوالے سے ہم پھر کبھی بات کریں گے۔ فی الحال ہماری مطالعہ کی میز پر ایک روشن و اجلی کتاب ”حسنت جمیع خصالہ“ موجود ہے جو انہوں نے بڑی محبت سے دی ہے۔ کتاب ملتے ہی ورق گردانی کی تو سب سے پہلے ہماری نظر ان اشعار پر پڑی:
نہ اس جہاں میں نہ اُس عالمِ مثال میں ہے
وہ روشنی جو ترے قریہ جمال میں ہے
مرنے کے بعد بھی یہی وابستگی رہے
تربت میں تیرے شہر کی کھڑکی کھلی رہے
یہ اشعار پڑھتے ہی مَیں خود بھی دیدار اور حاضری مدینہ کی خواہش کی جانب چلا گیا۔ یعنی جب آپ کوئی اچھی نعت پڑھیں یا سنیں تو آپ کا مدعا زیارتِ مدینہ ہو جائے۔ انور جمال کی پوری کتاب کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ خیال آتا رہا کہ مجھے اذنِ حاضری کب ہو گا؟
کتاب کے آغاز میں اُردو ادب کی اس شخصیت نے تقریظ تحریر کی جس نے خود ریٹائرمنٹ کے بعد اُردو حمد و نعت پر پی۔ایچ۔ڈی کی۔ جی اس کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر عاصی کرنالی انور جمال کی نعت پر کچھ یوں لکھتے ہیں:
”انور جمال نعت گوئی میں بھی ایک بڑا نام ہے۔ ”لولاکِ تمنا“ ان کا مطبوعہ مسدس ہے جو اُس کے عشق و عقیدت، علم و جبر اور استعداد و مہارت کی تحریری دستاویز ہے اور جس کی قبولیت اور مقبولیت اس کے سلیقہ نعت گوئی کی روشن دلیل ہے۔“
شہر نبی کو جب بھی کوئی جانے لگتا ہے
مَیں دل کو اور دل مجھ کو سمجھانے لگتا ہے
….٭….
جب بھی دیکھتا ہوں مَیں اپنی عمرِ گریزاں کو
روضہ اطہر کا منظر یاد آنے لگتا ہے
مَیں جیسے جیسے کتاب کی ورق گردانی کرتا گیا میری آنکھوں میں عقیدت کے موتی چمکنے لگے۔ زیارتِ مدینہ منورہ یوں منور ہونے لگی کہ ہر نعت پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوا کہ جیسے مَیں دربارِ نبی میں کھڑا ہوں۔ ہاتھ میرے ہیں، دُعائیں میرے من کی ہیں لیکن ان کو لفظ انور جمال کی نعت کی طرف سے عطا ہو رہے ہیں۔
مَیں بے نوا ہوں مگر آشیاں نژاد حضور
سکت سے زیادہ ہے طوفانِ برق و باد حضور
کوئی سلیقہ اظہار ہی نہیں مجھ کو
دُعا کے حرف بھی مجھ کو نہیں ہیں یاد حضور
انور جمال کا یہ نعتیہ مجموعہ جب سے میری دسترس میں ہے مَیں سحری و افطاری میں اس کا مطالعہ کرتا ہوں۔ روزے کی عبادت کے ساتھ یہ نعتیں پڑھ کر مجھے یقین ہوتا ہے جیسے پروفیسر انور جمال پر یہ نعتیں بھی حضور پاک کی عطا ہیں۔ کتنی خوبصورت بات ہے کہ عبادتوں کے ان دنوں میں ”حسنت جمیع خصالہ“ مجھے دنیاوی ادب سے دور اس جہاں میں لے آئی ہے جہاں پر دُعا ہے، عطا ہے، رحمت ہے، زندگی ہے، تابندگی ہے یعنی ایک کتاب میں رحمتِ عالم کی اتنی توصیف موجود ہے کہ میری آنکھیں آپ کی عبادت کرتے ہوئے تھکتی نہیں ہیں۔ مجھے یہ بات کہنے دیں کہ جناب انور جمال کی نعت مجھے نئے زمان و مکاں کی سیر کروا رہی ہے۔ ایک ایسی سیر جس کا مجھے اندازہ بھی نہیں تھا۔
نبیِ محترم بابِ عطا، کرم ہی کرم
سراپا جُود، مکمل سخا، کرم ہی کرم
….٭….
سحر نے پوچھا محمد کے لفظ کا مطلب
صبا نے سُن کے ادب سے کہا کرم ہی کرم
….٭….
آمدِ سیدِ لولاک لما بسم اﷲ
نغمہِ صلِ علیٰ، صلِ علیٰ بسم اﷲ
….٭….
جب نوید آئی کہ سلطانِ زمن آتے ہیں
ماہ و خورشید نے اٹھ اٹھ کے کہا بسم اﷲ
….٭….
حشر میں نعت کی جب مَیں نے اجازت چاہی
داورِ حشر نے خود مجھ سے کہا ”بسم اﷲ“
….٭….
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)