بیڑے کے نام سے پہچان رکھنے والا سفینہ اہل بیت جنوبی پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں برآمد ہوتا ہے۔ملتان میں مظفر آباد، سوتری وٹ، سورج میانی، حسین آباد اور امام بارگاہ زینبیہ میں رکھے جاتے ہیں۔
محرم الحرام کے دل سوز ایام کا آغاز ہو چکا ہے۔ دُنیا بھر کے مسلمان اپنے خطے کی مناسبت سے یہ غم منا رہے ہیں کہ امام عالی مقام کی قربانی کسی ایک خطے کے مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ تمام اُمت کی بقا کے لئے تھی، اس شہادت کی گونج رہتی دنیا تک قائم رہے گی، یہی وجہ ہے کہ محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی ہر خطے میں شہدائے کربلا کی یاد تازہ کی جاتی ہے جس میں علاقائی ثقافتی رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ایام عاشورہ کے دوران سرائیکی خطہ میں عزاداری کے ساتھ نیازیں پکانا اور مل بیٹھ کر کھانا اور تقسیم کرنا، پانی مشروبات، دودھ کی سبیلیں لگانا روایات کا حصہ ہیں۔ جس میں کسی تفریق کو جگہ نہیں دی جاتی اور ان مواقع پر اجتماعیت اور قوم کی جانب سے بھرپور اتحاد کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ایام عاشورہ میں جہاں تعزیہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے وہیں سفینہ بھی برآمد کیا جاتا ہے جسے سرائیکی خطے میں ”بیڑا“ بھی کہا جاتا ہے ۔ کربلا سے منسوب کرتے ہوئے اسے عقیدت کے طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ حدیث پاک ہے کہ میرے اہل بیت کی مثال تمھارے درمیان سفینہ نوح کے جیسی ہے جو اس پر سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا اور جو ان سے روگردان ہوا وہ غرق اور ہلاک ہو گیا۔حوالہ جات اہلسنت کتاب حاکم نیشاپوری مستدرک علی الصحیحین جلد ۲ ص۷۴۳ شیعہ کتب حرعاملی وسائل الشیعہ جلد ۸۲ص۵۳۔برصغیر میں ”بیڑا“ لکھنو میں نکالا جاتا ہے یہی وجہ کہ ہمارے ہاں نکالے جانے والے بیڑے جنہیں ”سفینہ اہل بیت“ کہا جاتا ہے میں برصغیر کے ثقافتی رنگ نمایاں ہیں۔ سفینہ اہل بیت محرم الحرام کی آٹھویں یا نویں محرم کی رات کو برآمد کیا جاتا ہے۔ کشتی سے مماثل تیار سفینہ کی خوبصورتی دیکھنے لائق ہوتی ہے کیونکہ اس کا سائز اور وزن کشتی کے برابر ہی ہوتا ہے۔ اس کی تیاری میں لکڑی، کپڑا، لوہا، دوپٹے، رسی، گندم کے خوشے، کاغذی مصنوعی پھول، تازہ پھول اور برقی قمقمے شامل ہوتے ہیں جب کہ اس پر 72 شہدائے کربلا او رمعصومین کے نام بھی خطاطی کی صورت کنداں ہوتے ہیں۔ سفینہ اہل بیت سرائیکی خطے کے قریباً تمام شہروں سے برآمد کیا جاتا ہے۔
ملتان میں سوتری وٹ، امام بارگاہ زینیبہ مظفر آباد، امام بارگاہ حسین آباد، دولت گیٹ اور سورج میانی میں ”سفینہ اہل بیت“ برآمد کیاجاتا ہے۔ جن میں مظفر آباد کو قدیمی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر بیڑا 1959ءمیں پہلی بار سید قلب عباس نقوی (مرحوم) کے ہاں تیار کیا گیا۔ ان کے چھوٹے بھائی سرپرست سید حسنین اقبال نقوی نے اس بارے میں بتایا کہ ہمارے ہاں اس کی تیاری کا فیصلہ اس لئے کیا گیا کہ قبل ازیں مظفر گڑھ میں آٹھویں کی شب ”سفینہ اہل بیت“ جسے بیڑا کہا جاتا ہے برآمدہوتا تو ملتان خالی ہو جاتا، قریباً سب لوگ وہیں زیارت کے لئے چلے جاتے، تاہم 1958ءمیں مرحوم بھائی نے فیصلہ کیا کہ وہ خود بیڑا تیار کریں گے، اس طرح 1959ءمیں بیڑا تیار کرکے آٹھویں کی شب کو برآمد کیا گیا۔ سید حسنین نقوی کے مطابق مذکورہ سفینہ کی چوڑائی دس سے بارہ فٹ اور لمبائی 20 سے 25 فٹ رکھی جاتی ہے۔ اس کی تیاری میں کپڑا، لکڑی، مصنوعی وقدرتی پھول اور برقی قمقمے استعمال ہوتے ہیں۔ یہ ہر سال نیا تیار کیا جاتا ہے جس میں سات سے آٹھ دن لگ جاتے ہیں۔
سید حسنین نقوی نے بتایا کہ ہم یہ سفینہ اہل خانہ مرد وخواتین بچے مل کر تیار کرتے ہیں۔ اب تو مصنوعی پھول باآسانی دستیاب ہیں، آغاز میں تو پھول کاٹ کاٹ کر ہمارے ہاتھ ہی رہ جاتے تھے اور خواتین کپڑے بھی خود سلائی کرتی تھیں۔ تاہم جدید دور کے مطابق اب چیزیں تیار مل جاتی ہیں۔ اس سفینہ کو 30سے 40 مرد اٹھا کر چلتے ہیں۔ سید حسنین نقوی کا کہنا ہے کہ خاندان کے سب افراد کے ہاتھوں کی برکت سے یہ سفینہ تیار ہوتا ہے جس میں بانیان سید شمائل عباس نقوی، سید اصغر عباس نقوی، سید عمار عباس نقوی بھی شامل ہوتے ہیں۔
مظفر آباد کے علاوہ ملتان کا دوسرا مشہور اور قدیمی سفینہ اہل بیت سوتری وٹ کو کہا جاتا ہے جو 1963ءمیں برآمد کیا گیا۔ یہ بیڑا مظفر آباد سے متاثر ہو کر بنایا گیا، اس کو سوتری وٹ کے متولی سید امیر حسین شمسی نے تیار کرایا جبکہ تیار کرنے والے بانی سفینہ اہل بیت حاجی واجد بخش اور اُن کے بڑے بیٹے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد اب ان کے بیٹے ناصر عباس اور نسیم عباس تیار کرتے ہیں۔ یہ سفینہ نویں محرم کی رات کو برآمد کیا جاتا ہے۔ اس کی چوڑائی 8 فٹ اور لمبائی 36 فٹ ہے۔ ناصر عباس کا کہنا ہے کہ اس پر موجود ناموں کی خطاطی ان کے دادا حاجی واحد بخش کے ہاتھ کی ہے۔ اس کی تزئین وآرائش میں ہر سال تبدیلی کی جاتی ہے۔ وزنی ہونے کی وجہ سے 20 سے 25 افراد اٹھاتے ہیں۔ تاہم گزشتہ سات سال سے راستوں کی تنگی کے باعث سفینہ کے نیچے ٹرالی لگا دی گئی ہے تاکہ مشکل پیش نہ آئے۔ ناصر عباس نے بتایا کہ ہم نے تین سفینہ اہل بیت تیار کئے ہیں۔ یہ سفینہ ایک ماہ میں تیار ہوتا ہے۔ دولت گیٹ، حسین آباد سے برآمد ہونے والا سفینہ کی بنیاد بھی میرے والد مرحوم مختیار حسین بھٹی نے رکھی ہے۔ اس کے علاوہ امام بارگاہ زینبیہ میں بھی سفینہ ہم ہی تیار کرکے رکھتے ہیں۔ اس کی تعمیر کا فن اپنے والد سے سیکھا ہے۔ بچپن سے بنا رہا ہوں تاہم اہل محلہ کا بھی بھرپور ساتھ ہوتا ہے۔
ملتان میں تیسرا بڑا قدیمی سفینہ اہل بیت امام بارگاہ حسین آباد دولت گیٹ سے 1970ءسے برآمد ہو رہا ہے۔ مذکورہ بیڑے کے متولی ملک شجر عباس کا کہنا ہے کہ ہمارا سفینہ اہل بیت سال میں دو مرتبہ برآمد ہوتا ہے۔ پہلا نویں محرم کی رات کو امام بارگاہ میں زیارت کے لئے رکھا جاتا ہے دوسری بار 28 صفرالمظفر کو برآمد کیا جاتا ہے۔ جس کی زیارت کے لئے ملک بھر سے زائرین کی ملتان آمد ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قریباً 25 سال قبل تک سوتری وٹ سے تیار کراتے تھے مگر اب خود کرتے ہیں۔ یہ سفینہ نویں محرم کی رات کو امام بارگاہ میں ہی موجود ہوتا ہے مگر 28 صفر کو دربار حضرت شاہ شمس سبزواری پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ مذکورہ بیڑے کو 25افراد اٹھا کر چلتے ہیں۔ چوڑائی 8 فٹ، لمبائی 30 فٹ اور وزن 33 من ہے۔ ہر سال پرانے کے ساتھ نیا سامان بھی ضرورت کے مطابق شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملتان کے علاقہ سورج میانی سے بھی محرم کی نویں رات کو برآمد کیا جاتا ہے۔ مذکور ہ بیڑے کے متولی خلیفہ محمد رمضان کا کہنا ہے کہ 60ءکی دہائی سے یہ سفینہ برآمد ہو رہا ہے جو واقعہ کربلا کی یاد تازہ کر دیتا ہے
فیس بک کمینٹ