مجھے یاد نہیں، میں نے شاید کبھی لکھا ہے ، ایک بار کوئی رفیق خاص مجھے ایک صاحب حال بزرگ کے پاس لے گئے۔ ان معاملات میں ہر چند میری حالت ’’پر طبیعت ادھر نہیں آتی‘‘ والی ہے، تاہم میں نہایت ادب سے والاصفات کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔ مجھ سے میرے رفیق نے کہا کہ کچھ طلب کرو، قبلہ وکعبہ دعا کریں گے۔ مجھ سے کچھ کہا نہ گیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ ایک خواہش، ایک تمنا سینے میں بے طرح امڈی کہ صاحب تصوف سے کہوں، میرے بیان میں تاثیر کے لیے دعا کریں۔ خدا مجھے لفظ و خیال کی قوت و قدرت دے دے۔ کچھ ایسا ہو جائے کہ نوکِ زبان و قلم سے جو ادا ہو ،بس رگِ جاں میں ترازو ہو جائے، مجھے کچھ اور نہیں چاہیے۔ میں کہہ نہیں سکا، انہیں سن لینا چاہیے تھا، انہوں نے سنا نہیں شاید، سنا تو توجہ نہیں دی۔ میں تو ویسا ہی تہی داماں ہوں۔
آج اس نامہ جاں کی عرض گزاری میں مجھے اپنی بے مایگی اور بے چارگی کا احساس نہایت سوا ہے۔ میں نے حرفِ آغاز کے لیے نجانے کتنے پیرائے تراشے، کوئی صورت نہ بنی تو کسی مہربان وقت کے انتظار میں قلم ایک طرف رکھ دیا۔ قلم کو وقت سے کوئی خاص نسبت ہے۔ پہر گزر گئے اور گو قلم کاغذ میرے سامنے نہیں تھے مگر میں مسلسل لکھتا رہا یا یوں کہیے کہ میں آپ کی جناب میں حاضر، آپ سے مخاطب رہا۔ میں لفظ ڈھونڈتا، لفظ اکٹھے کرتا رہا۔ آخری کاپیاں پریس جا رہی ہوتی ہیں تو بہت سے میرے فکر مند ایک سوال ضرور کرتے ہیں،کب تک امکان ہے؟ میں کہتا ہوں کہ بس اب کچھ ہی دنوں کی بات ہے، وہ برملا پوچھتے ہیں کہ ذاتی صفحہ ہو گیا؟ جواب میں میرے توقف پر وہ سمجھ جاتے ہیں کہ ابھی دیر ہے، ان کے لبوں پر معنی خیز مسکراہٹ چھا جاتی ہے۔ان کے لہجے کی جستجو میں نرمی و حلاوت کے ساتھ کبھی کبھی طنز کی آمیزش بھی ہوتی ہے کہ دیکھتے ہیں عزیز من! اب کے کیا کہو گے، کون سی تاویل پیش کرو گے۔اب تو بہت وقت گزر گیا ہے۔ اتنی آسانی سے جاں بخشی نہیں ہو گی ۔اس مرتبہ تو پرسانانِ حال نے مجھے بھی دگرگوں کر دیا۔ یہ سوال اتنی کثرت اور شدت سے کیا گیا کہ میں بھی متزلزل سا ہو گیا۔ لگتا تھا سب کچھ جیسے منتشر ہو گیا ہے، سرا ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے۔ کچھ یاد نہیں رہا کہ کیا کہنا تھا، کیا نہیں ۔ چیزوں کی طرح لفظ بھی تو کھو جاتے ہیں، جیسے آپ کوئی چیز کہیں رکھ کے بھول گئے ہوں، خیال بھی کبھی یوں ہی گم ہو جاتا ہے۔ ذاتی صفحے کا مرحلہ دور تھا تو کیسے کیسے خیال امڈے آتے تھے۔ میں نے خود کو بہت دلاسا دیا کہ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ کیا اس بار ثبوت و شواہد کی کوئی کمی ہے؟ شیشہ بدل گیا ہے کیا؟ جو ماجرا ہے، وہی مدعا ہے،اس کے سوا کچھ نہیں کہنا،سچ کے سوا کچھ نہیں لیکن کسی دانائے راز کے بقول،سچ کے لیے بھی ایک سلیقہ لازم ہے۔ سچ بھی کبھی ایسا بےبس ہو جاتا ہے ؟لکھنے والے کو بھی اپنا لکھا ہوا دیکھنے کا تجسس پڑھنے والے سے کم نہیں ہوتا۔ تصویر اگر بگڑ جائے تو اہل نظر سے بڑا آزار مصور کا ہے۔ مجھے بھی بہت بے کلی ہے کہ اس بار حضوری کے مرحلے سے میں سرخ روئی کے ساتھ کیوں کر گزروں گا۔
کئی دن بیت جانے پر میں نے پھر قلم اٹھایا ہے کہ اب جو بھی تاخیر ہو گی، وہ سراسر اس تحریر بے ہنر کے سبب ہو گی۔ اب جو کچھ بھی ہو، سب قلم کے حوالے، یہ شہ سوار شرمندہ رفتار جدھر چاہے لے چلے۔ چل مرے خامے بسم اللہ‘ بسم اللہ الا اللہ… میں نے اوپر لکھے ہوئے میں کوئی ترمیم نہیں کی۔ سارا ہذیان جوں کا توں رہنے دیا کیوں کہ یہ صفحہ تو نامہ واردات ہے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ میں پچھلے شمارے سے اس شمارے کے دورانیے کی ساری تفصیل گوش گزار کر دوں گا لیکن جانے کیوں اچھا نہیں لگتا۔ قلم اس پر آمادہ نہیں، اور وہ میرا آقا، میں اس کا غلام، وہ میرا حاکم، میں اس کا محکوم ہوں۔ ہمہ لمحہ یہ قلم ہی تو ہے جو مجھے روکتا ٹوکتا رہتا ہےجو سچ پوچھیے تو یہ سب اِسی کی کرشمہ سازی ‘فتنہ گری ہے‘ع قلم گوید من شاہ جہانم… معذرت اور ندامت کے اظہار کی تکرار آپ کو بھی اچھی نہیں لگے گی ،سو اسے درگزر کیجیے۔ ہاں اتنا ضرور کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا، وہ میرے اختیار سے باہر تھا۔ ننھی آشتی کے دل میں دو سوراخ تھے۔جب تک ان کی خانہ پروی و پیوندکاری نہیں ہو گئی، روز و شب بے اختیار رہے، کوئی چھے سات مہینے اس افتاد میں گزر گئے۔ اس دوران میرے پیر پہ پلاستر چڑھنے کا لطیفہ بھی ہوا جیسے کسی کو بیڑیاں پہنا دی جائیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ حاکم کے گھر کا حاکم کے دفتر سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ روزنامے کومدیرِ سر دبیر میر صاحب کے دل و دماغ کے موسموں سے کوئی غرض نہیں۔ اخبار کو تو ہر صبح ہر حال میں زمانے بھر کی خبروں سے مزین و مرصع ہو کے در در دستک دینی ہے۔ ساری دنیا میں اداروں کا یہی قرینہ ہے۔ ادارے افراد پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن افراد سے بالا۔ کوتاہی تو یہی ہے جس کا ذکر میں نے بارہا کیا ہے اور باربار تجدید کی ضرورت پڑتی ہے۔ سب رنگ ایک ادارہ نہیں بن سکا ۔میں اسے کارخانہ نہیں بنا سکا۔ اردو رسالوں کی کچھ یہی ریت رہی ہے۔ بڑے بڑے اسمائے گرامی کے ساتھ مجھ ہیچ مداں کا نام قطعاً کوئی مناسبت نہیں رکھتا مگر بربنائے تذکرہ یہ ستم بھی گوارا کیجیے۔ نیاز صاحب کے ساتھ نگار تھا۔ صلاح الدین کے جانے سے ادبی دنیا کا سورج غروب ہوا۔ زمینوں پر نکل جانے کے بعد شمس زبیری کا نقش مٹ گیا۔ حکیم یوسف حسن کا نیرنگ ِخیال، شاہد احمد دہلوی کا ساقی، والد محترم عادل ادیب کو عارضہ مرگ لاحق ہوا تو مسافر نے دم توڑ دیا۔
سب رنگ کا بھی یہی ہے ۔ بے شک اردو کے چند رسائل نے رشک کے لائق ادارے قائم کر لیے ہیں۔ وہ اپنے مقررہ وقت پر کمپیوٹر جیسی پابندی سے آتے ہیں، ان کی اشاعتیں بھی بھلی ہیں لیکن پڑھنے والے کس دیدہ ریزی اور دیوانہ واری سے ان میں شامل ہیں؟ نہ معلوم یہ مقبول و مستعد جریدے عدم تواتر کا شکار ہوں تو کیا صورت بنے؟ ان کی قبولیت کا کیا درجہ رہے؟ کتنی دور تک ان کا تعاقب کیا جائے؟ سب رنگ کا ڈھب ہی سرے سے مختلف ہے۔ یہ بات شروع میں طے ہو گئی تھی کہ سب رنگ اور اس کے طلب گاروں کا تعلق کچھ اورہے۔ نہ اس کا مدیر اسے جنسِ بازار کے طور پر پیش کرتا ہے نہ اس کے قاری اسے یہ حیثیت دیتے ہیں۔ ایسا ہوتا تو مدیر کے لہجے میں یہ عشوہ و غمزہ نہ ہوتا۔ نہ اس کے نازبرداروں کو یہ تابِ انتظار ہوتی۔ یہ قیمت ، دکان ، اور خریدوفروخت وغیرہ ایک سے دوسرے تک رسائی کا وسیلہ اور محض علامت ہیں۔ میں کبھی بادشاہ بن گیا تو یہ مجبوری نہیں رہے گی۔ سو سب رنگ تو ایک فرد ہے اور فرد ایک کیفیت۔ یقیناً فرد کو بھی وقت کی پابندی لازم ہے لیکن فرد تو فرد ہے۔ وہ تو مقدار ہے،عدد نہیں، لہر ہے، سمندر نہیں، فرد تو رنگ ہے، ذائقہ، خوشبو، تیور، وہ تو عشق ہے۔ سب رنگ بھی یہی کچھ ہے۔ فرد کو ایک فرد کی رعایت ہمیشہ ملتی ہے۔ سب رنگ وقت پر نہ آنے میں کس کا زیاں زیادہ ہے؟ انتظار بڑی زحمت ہے۔میرا کرب آپ سے سوا ہے۔ یہاں سارا لاؤ لشکر وہی ہے، وہی آشیانہ، وہی رفقا، بتی جل رہی ہے اور پہیا گھوم رہا ہے۔ ہر لمحے میٹر کےہندےآگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ صد فی صد مادی زیاں ہے۔ میں اپنی جمع پونجی دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہوں، مگر یہ کوئی قمار خانہ نہیں ہے، میں نے آسمان سے چھپا کے ایک متاعِ پندار، ایک متاعِ جاں محفوظ رکھی ہے۔ مجھے یقین ہے ، ایک روز آسمان کا تیور بدل جائے گا، ورنہ ایک راستہ تو کھلا ہے،دیوانے کی بولی کا۔ میں بازار چلا جاؤں گا۔
(اگست 1988ء)
(جاری ہے)
(بشکریہ:دلیل ڈاٹ کوم)
فیس بک کمینٹ