مَیں سوچ رہا تھا کہ آخر حلقہ این اے 54 میں ایسی کون سی خرابی ہے کہ 2013ءسے لے کر 2018ءتک تیسری مرتبہ انتخابات کا میدان لگ رہا ہے۔ 2013ءکے جنرل انتخابات میں ن لیگ کے صدیق بلوچ منتخب ہوئے تو اُن کے خلاف جہانگیر ترین عدالت میں گئے اور صدیق بلوچ کو نااہل کروا کر خود ضمنی انتخاب میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو گئے۔ ابھی اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے میں چند ماہ باقی تھے کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کو نااہل قرار دے کر یہ حلقہ ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن کے حوالے کر دیا کہ اب جلد ہی ضمنی انتخاب کا بخار اس حلقے میں وائرس کی طرح پھیلنے والا ہے۔ تحریکِ انصاف کی طرف سے جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین ہی جانشین کے طور پر کام کر رہے تھے۔ کیونکہ جہانگیر ترین ایم۔این۔اے بننے کے بعد عمران خان کے ایک بازو کے طور پر ہر وقت ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اس کے علاوہ کے پی کے حکومت کی بیشتر پالیسیاں بھی جہانگیر ترین کی عطا کردہ ہیں۔ اسی وجہ سے علی ترین تو پہلے سے اس حلقہ میں سرگرم تھے۔ اب تحریکِ انصاف نے جب باقاعدہ علی ترین کو اپنا اُمیدوار نامزد کر دیا تو حلقہ این اے 154 میں یکطرفہ مقابلہ ہونے جا رہا ہے کہ اس کے مدِ مقابل ن لیگ کے صدیق بلوج بارے بہت سی افواہیں ایک عرصے سے گردش کر رہی ہیں کہ ن لیگ کی عدم مقبولیت کی وجہ سے وہ اب اپنے بیٹے کو جہانگیر ترین کے ساتھ ایم پی اے کی نشست پر انتخاب لڑانا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ ن لیگ کی کسی ایکٹیوٹی میں دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے بعد ن لیگ کے صدیق بلوچ پر نئی افتاد آن پڑی کہ وہ تو ن لیگ کو خیرباد کہنے والے تھے کہ ایک مرتبہ پھر ضمنی انتخاب میں ن لیگ نے صدیق بلوچ سے درخواست کی کہ وہ میدان میں اترے۔ صدیق بلوچ کو ضمنی انتخاب کے نتیجہ کا علم ہے۔ اس لیے موصوف نے عبدالرحمن کانجو کے ذریعے پارٹی قیادت کو پیغام بھجوایا کہ اگر ہمیں انتخاب لڑانا چاہتے ہیں تو ترقیاتی فنڈز کے علاوہ مالی طور پر ن لیگ تعاون کرے تاکہ اُمیدوار کو خاطرخواہ حکومتی حمایت کے ذریعے کم سے کم نقصان ہو۔ عبدالرحمن کانجو سے پہلے صدیق بلوچ نے ذاتی طور پر ن لیگ کی مرکزی قیادت کو ملاقات کے لیے درخواست کی تو وہ درخواست ردی کی ٹوکری کی نذر ہو گئی۔ جب اندرونِ خانہ صدیق بلوچ نے کانجو کے ذریعے پارٹی چھوڑنے کی دھمکی دی تو ان کا یہ فارمولا کارگر ثابت ہوا تو آخرکار خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے ملاقات کا وقت دے دیا۔ شہباز شریف سے ملاقات میں کیا معاملات طے ہوئے یہ سب باتیں بھی آنے والے دنوں میں باہر آ جائیں گی۔ دریں اثناءتحریکِ انصاف اور ن لیگ کے دونوں اُمیدواران کے بڑوں نے آف دی ریکارڈ ایک فیصلہ کیا کہ کسی طریقے سے عدالت میں رِٹ کر کے حلقہ این اے 154 میں ضمنی انتخاب رکوایا جائے جس کے تحت 12 جنوری 2018ءکو سپریم کورٹ میں انتخاب رکوانے کے لیے ایک رٹ دائر کر دی گئی ہے۔ اگر یہ رٹ دونوں اُمیدواروں کی مرضی سے تیار کی گئی ہے تو ہمارا خیال ہے کہ اس حلقہ میں انتخابات عدالتی فیصلے کے تحت روک دیئے جائیں گے۔ جس کے بعد جہانگیر ترین کو مالی فائدہ ہو گا جبکہ صدیق بلوچ کو مالی فائدے کے ساتھ ساتھ دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ یقینی شکست سے بچ جائیں گے۔
اب آ جائیں جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی کی جانب۔ جہانگیر ترین اپنی نااہلی کے بعد جب گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ ملتان آئے تو ملتان اور اس کے نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ترین کے حامیوں نے ان کے اعزاز میں ورکز کنونشن کا انعقاد کیا جو بلاشبہ ایک کامیاب کنونشن تھا۔ اس کنونشن میں مخدوم شاہ محمود قریشی اور ان کے گروپ کے کسی رکن اسمبلی اور عہدیدار نے شرکت نہیں کی۔ شاہ محمود قریشی کے شہر میں جہانگیر ترین کا ایک کامیاب شو کرنا اس بات کا غماز تھا کہ عدالتی نااہلی اپنی جگہ پر ہے تحریکِ انصاف پر ان کی گرفت آج بھی بڑی مضبوط ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی انہی دنوں اپنے بیٹے زین قریشی کی شادی کے سلسلے میں لاہور میں موجود تھے۔ اس شادی میں جہانگیر ترین اور یوسف رضا گیلانی نے شریک ہو کر یہ پیغام دیا کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ پر ہیں لیکن غمی خوشی سانجھی ہوتی ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کی غیر موجودگی اپنی جگہ پر لیکن ان کا دل و دماغ تو جہانگیر ترین کے ورکرز کنونشن کی طرف ہی تھا۔ جہانگیر ترین نے ملتان کے اس ورکرز کنونشن سے بہت سے فوائد حاصل کیے۔ پہلے مرحلے پر جہانگیر ترین نے ملتان میں اپنی طاقت کا اظہار کر کے شاہ محمود قریشی کو پیغام دیا کہ ملتان صرف شاہ محمود قریشی کا نہیں ہے۔ جہانگیر ترین بھی اس میں اپنا حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اس کے باوجود کہ شاہ محمود قریشی اور ان کے پورے گروپ کا اعلانیہ بائیکاٹ تھا کہ ان کے گروپ سے تعلق رکھنے والے کسی بھی رکن اسمبلی اور متحرک عہدےداروں نے شرکت نہیں کی۔ جہانگیر ترین کامیاب استقبال اور جلسہ کر کے لودھراں گئے۔ مَیں نے ورکرز کنونشن کو جلسہ اس لیے لکھا کہ تحریکِ انصاف جہانگیر ترین گروپ نے جس انداز سے شاہ محمود قریشی کے شہر میں طاقت کا مظاہرہ کر کے قیادت کو پیغام دیا کہ وہ ورکرز کے اجتماع کو جلسہ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تو مستقبل کے فیصلوں میں جہانگیر ترین کی اہمیت نااہلی کے باوجود اب بھی اہم ہے۔
قارئین کرام ابھی ہم نے یہ کالم یہاں تک لکھا تھا کہ اخبارات میں یہ خبر بھی آ گئی کہ جہانگیر ترین نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں انہوں نے اپنی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے کہ اس فیصلے کو تبدیل کیا جائے۔ اگر جہانگیر ترین نے اپنی درخواست میں کوئی ٹھوس ثبوت دیئے ہیں تو بقول نواز شریف کے عمران خان ”لاڈلا“ ہے تو جہانگیر ترین بھی مستقبل کے ”لاڈلے“ ہو سکتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتی ہے تو پھر آنے والے انتخابات میں جہانگیر ترین کسی بھی اچھے عہدے کے لیے شاہ محمود قریشی کے مدمقابل ہوں گے۔ ویسے بھی جہانگیر ترین عمران خان کے ان چند پیاروں میں شامل ہیں کہ جس دن جہانگیر ترین کو عدالت عالیہ نے نااہل قرار دیا اس دن عمران خان نے انتہائی افسوس کا اظہار کیا۔ (جاری ہے)
فیس بک کمینٹ