سٹیفن ہاکنگ کی کتاب ”وقت کا سفر“ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ایک کروڑ کی تعداد سے زیادہ فروخت ہوئی۔ اس میں پسماندہ ممالک کے شائع کردہ (جعلی ایڈیشن) شامل نہیں ہیں۔ لیکن اس کتاب کو ہر کتاب پڑھنے والے نے بڑے شوق سے خریدا۔ لیکن وہ کتاب نہ زیادہ تر پڑھی گئی اور اگر کسی نے اسے سرسری پڑھا تو وہ اس کے متن کو نہ سمجھ سکا۔ لیکن اس کے باوجود ڈاکٹر ہاکنگ کی یہ کتاب تقریباً ہر اس گھر میں دیکھی گئی جو کتاب سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھتے تھے۔
جن لوگوں نے ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ کو وہیل چیئر پر براجمان دیکھا ہے وہ بخوبی جان سکتے ہیں کہ وہیل چیئر پر اس کی گردن دائیں جانب ڈھلکی ہوئی ہوتی، خوراک اور بنیادی ضروریات کی ادائیگی کے لیے وہ نرس کے محتاج ہوتے۔نرس کے وہ اتنے عادی ہو گئے کہ جب انہوں نے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دی تو دوسری شادی انہوں نے اس خاتون سے کی جو اُن کے ساتھ کئی برسوں سے بطور نرس کے کام کر رہی تھی۔ پہلی شادی سے ان کے تین بچے ہوئے جن میں لکی، رابرٹ اور ٹم شامل ہیں۔ اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے اسی لیے انہوں نے بچوں کے لیے کہانیوں کی شکل میں آسان فزکس کی کتب تحریر کیں۔
جب سٹیفن ہاکنگ کی نئی تحقیق دنیا کے سامنے آئی تو سب سے پہلا سوال یہ سامنے آیا کہ مفلوج جسم کے ساتھ کوئی اتنی بڑی تحقیق کیسے کر سکتا ہے؟ ساکت جسم، زبان گنگ، لیکن موضوع ایسے کہ بڑے سے بڑا سائنسدان بھی اس کے قریب سے نہ گزرا۔ ڈاکٹر ہاکنگ کے شوق کو دیکھتے ہوئے کیمبرج کے سائبر ماہرین نے اس کے لئے خصوصی طور پر بولنے والا کمپیوٹر ایجاد کیا۔ اس کمپیوٹر کو وہیل چیئر پر نصب کیا گیا۔ اس کمپیوٹر کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہاکنگ کی پلکوں کی زبان کو سمجھ لیتا تھا۔ جو کچھ ہاکنگ سوچتا، اپنی پلکوں کی جنبش سے کمپیوٹر کے ذریعے اپنے خیالات کو حتمی شکل دیتا یعنی:
یہ کس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں آ گیا محسن
کہ ساری کائنات دسترس میں لگتی ہے
وہ خاص زاویے، توازن اور ردھم کے تحت اپنی جنبش دیتی پلکوں سے آواز کا کام لیتا۔ وہ آواز سب لوگ سن لیتے اور دیکھ بھی لیتے۔
اس نے آنکھوں سے پکارا مجھ کو
مَیں نے آواز کو آتے دیکھا
ہاکنگ نے کائنات کے پوشیدہ اسرار کے بنیادی مسائل کو چھیڑا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اس نے آئن سٹائن کے نامکمل کام کو مکمل کیا۔ اب اس کے جانے کے بعد اُسی کے کیے ہوئے کام پر سینکڑوں سائنسدان کام کر رہے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ سب ڈاکٹر ہاکنگ کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ خدا کو تسلیم نہیں کرتا تھا۔ لیکن جب ہم اس کی تھیوری کو پڑھتے ہیں تو علم ہوتا ہے ”کائنات پھیل رہی ہے، اس کا آغاز اور انجام طے شدہ ہے۔ اگر کوئی کائنات کے اس کیلنڈر کو جان لے تو وہ خدا کے وجود کو تسلیم کرے گا۔“
ڈاکٹر ہاکنگ کی زندگی بہت سے پیغامات دیتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کا سب سے بڑا اور اہم پیغام تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی معذور معذوری کی وجہ سے شرمندہ نہ ہو۔ اگر اس کا دماغ کام کرتا ہے تو اس سے لازم کام لیں۔ اس نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ زندگی 2600ءمیں ختم ہو جائے گی۔ پھر کہا نہیں یہ دنیا 2200ءمیں تمام ہو جائے گی۔ لیکن ان کی اس بات میں بھی کہیں نہ کہیں تو وزن ہو گا۔ کیونکہ یقینا انہوں نے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور دیکھا یا محسوس کیا ہے کہ دنیا کے خاتمے کی بات کی ہے۔
ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ کی زندگی کو دیکھیں تو علم ہوتا ہے کہ خاص ہونے کے باوجود عام لوگوں کی طرح سوچتا تھا۔ مثال کے طور پر وہ یہ کہا کرتا تھا کہ سمجھ نہیں آتا کہ ٹرمپ اتنا مقبول کیوں ہے؟ اور سب سے خوبصورت بات اس نے یہ کہی کہ ”مجھ کو کائنات تو سمجھ آ گئی لیکن مجھے خواتین سمجھ نہیں آئیں۔“ سٹیفن ہاکنگ پر لکھنے کے لیے کئی دفتر درکار ہیں لیکن فی الحال اس کی وصیت کو ملاحظہ کریں جس میں اس کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانوں کے علاوہ یقینا کوئی نہ کوئی مخلوق کہیں ضرور آباد ہے۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے انسانوں کو خبردار کیا تھا کہ ایسی کسی بھی مخلوق سے رابطے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ سٹیفن ہاکنگ کا موقف تھا کہ ایسی مخلوق بنی نوع انسان کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسی مخلوق انسانوں سے چالاک ہو سکتی ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ زمین پر آ کر ہمارے وسائل چھین کر لے جائے۔ سٹیفن ہاکنگ کے مطابق اگر کوئی ایسی مخلوق زمین پر آتی ہے تو انسانوں کے ساتھ وہی ہو گا جو کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کی مقامی آبادی کے ساتھ ہوا تھا جو یقینا اچھا نہیں تھا۔ پروفیسر سٹیفن ہاکنگ کا موقف تھا کہ اجنبی مخلوق کے ساتھ رابطوں کی کوشش کی بجائے انسانوں کو ان سے دور رہنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم اپنی مثال ہی لے لیں تو ہم نے کتنی ترقی کی ہے۔ اگر کوئی اور ذہانت والی مخلوق آتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ ایسی صورت اختیار کر لے جس کو ملنا شاید ہم پسند نہ کریں۔ خیال رہے کہ سائنسدانوں کی جانب سے خلا میں ایسے مشن بھیجے گئے ہیں جن پر انسانوں کی تصاویر کے ساتھ زمین تک پہنچنے کے نقشے بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ممکنہ طور پر دوسرے سیاروں پر آباد مخلوق کے ساتھ رابطہ کرنے کی نیت سے خلا میں ریڈیو بیمز بھی بھیجی گئی ہیں۔ پروفیسر ہاکنگ کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچنا کہ کوئی اور مخلوق بھی کہیں آباد ہے بالکل منطقی ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کیسی ہے؟“
اس کی زندگی سے ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے: ”اگر مَیں معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں۔ اگر مَیں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں۔ اگر مَیں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاءسلامت ہیں جو چل سکتے ہیں، جو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں۔“
قارئین کرام! ابھی ہم نے اپنا کالم یہاں تک لکھا تھا کہ قائد اعظم میڈیکل کالج بہاولپور کے سابق پرنسپل اور معروف سرجن ڈاکٹر ہارون خورشید پاشا میرے ہاں تشریف لائے۔ پوچھنے لگے کس پر کالم لکھ رہے ہو؟ مَیں نے ہاکنگ کا نام لیا تو فوراً کہنے لگے شاکر بھائی کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملتان کے نواح میں بھی سرائیکی شاعری کا ہاکنگ موجود ہے؟ مَیں سمجھ گیا کہ وہ شاکر شجاع آبادی کی بات کر رہے ہیں۔ کیا شاکر شجاع آبادی واقعی سرائیکی شاعری کا ہاکنگ ہے؟ اس کے لیے آپ کو ہمارے اگلے کسی کام کا انتظار کرنا ہو گا۔ کیونکہ بقول ڈاکٹر ہارون خورشید پاشا کے شاکر شجاع آبادی کو بھی وہی بیماری لاحق ہے جو ڈاکٹر ہاکنگ کو تھی؟؟
( بشکریہ : روزنامہ دنیا )
فیس بک کمینٹ