جب ڈاکٹر انعام الحق نے تالیوں کے شور میں اپنی تقریر مکمل کی تو پھر ہم سیکرٹری برائے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کی باتیں سننے کے بعد مشیر وزیراعظم عرفان صدیقی کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ اپنی شستہ گفتگو کے ذریعے صدرِ پاکستان اور پورے ملک سے آئے ہوئے نامور اہلِ قلم کو متوجہ کر کے بتا رہے تھے کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے سالانہ کتاب میلوں کی جو روایت ڈالی ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط و توانا ہو رہی ہے۔ اس سال کتاب میلے کا عنوان ”کتابوں کی دنیا سلامت رہے“ وسیع معنی لیے ہوئے ہے۔ یہ ایک دُعا بھی ہے اور قومی اُمنگ بھی۔ این بی ایف نے کتاب اور مطالعہ¿ کتاب کو ایک قومی مشن بنا کر جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی میں بدلنے کے لیے سالانہ قومی کتاب میلے کو ایک باوقار قومی تہوار کا درجہ دے دیا ہے۔ این بی ایف کا یہ سفر امن، خوشحالی اور روشنی کا سفر ہے جس نے مطالعہ کتاب کے ذریعے ملک میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ انہوں نے صدرِ مملکت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم نے قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے تحت مختصر وقت میں کتاب کے ذریعے نوجوان نسل کو امن، اخوت، قومی یگانگت اور ترقی و خوش حالی کی روشن منزل حاصل کر لی ہے۔ ہر سال نیشنل بک فاؤنڈیشن جب قومی کتاب میلہ کا اہتمام کرتی ہے تو اب یہ میلہ تہوار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ این بی ایف نے مفید و معیاری اور انتہائی کم نرخوں پر کتب فراہم کر کے مطالعہ کتاب کے ذوق کی نمو میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے مجھے یقین ہے کہ انقلاب کے اسی راستے پر امن و اخوت، قومی ہم آہنگی اور خوشحال مستقبل کے گلستان آباد ہوں گے۔
عرفان صدیقی ابھی تقریر کر رہے تھے کہ اچانک انہیں احساس ہوا کہ آج جمعتہ المبارک ہے، تقریب پہلے ہی کافی تاخیر کا شکار ہے۔ انہوں نے پھر جلدی سے اپنی گفتگو کو تمام کیا تو کچھ ہی دیر کے بعد صدرِ مملکت ممنون حسین سیاہ پٹی باندھ کر گویا ہوئے کہ آج ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج اس لیے بھی بامعنی ہو گیا ہے کہ مَیں آج اہلِ قلم کے درمیان ہوں جنہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے۔ مَیں سفیرانِ کتب سے گزارش کروں گا کہ وہ اپنی تحریروں میں بھارتی تسلط اور ظلم و ستم کا ذکر کریں تاکہ ہم آپ کے ذریعے پوری دنیا کو بھارت کا متعصب چہرہ دکھا سکیں۔ جب صدر ممنون حسین اپنے بازو پر سیاہ پٹی باندھ کر یہ بات کر رہے تھے تو ہمیں سمجھ آ گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم کے خلاف انہوں نے ہی نہیں بلکہ قومی کتاب میلے کے تمام شرکاءنے اپنے اپنے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی ہیں۔ یہ بات کرنے کے بعد صدر ممنون حسین گویا ہوئے کہ ہم سیرو نے کہا تھا کہ کتابوں کے بغیر ایک کمرہ ایسے ہے جیسے بے روح بدن۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام سالانہ قومی کتاب میلے معاشرے کی روح ہیں اور ولولہ تازہ بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ کتاب محبت کا پیغام اور تبادت کا ایک عمل ہے اور اس عمل میں عوام اور نوجوان نسل کی بھرپور شرکت قوم کے روشن مستقبل کا اشارہ دیتی ہے۔ کتابوں کے مطالعے سے محبت اور لائبریریوں سے رغبت کا عمل فرد اور معاشرہ دونوں کو وقار بخشتا ہے۔ کتاب انسانی فکر و شعور کو بلندی اور پختگی عطا کرتی ہے اور معاشرے میں اعتدال، رواداری و برداشت جیسی روایات کو مضبوط کر کے اس دنیا کو رہنے کے قابل بنا دیتی ہے کیونکہ یہ کتاب ہی ہے جو محبت کا پیغام دیتی ہے۔ علم کے خزانوں کا منہ کھولتی ہے۔ مسائل کا حل پیش کرتی ہے اور مشکلات کو آسان بناتی ہے۔ کتاب دوستی کے اس سفر میں عوام اور نوجوان نسل کی بھرپور شرکت ایک روشن مستقبل کی نوید ہے۔ یہ سب باتیں کر کے جب صدر پاکستان ممنون حسین واپس جا رہے تھے تو ہمیں یاد آیا کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی نے اپنی تقریر میں صدر پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ اسلام آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی ہمیں تنگ کرنے کے بہانے تراشتی رہتی ہے۔ انہیں حکم دیا جائے کہ کتاب دوستی کے منصوبوں میں اپنے خود ساختہ قوانین سے ہمیں آگاہ نہ کیا کرتے۔ ہمارا خیال تھا کہ صدر پاکستان اپنی تقریر میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو کوئی اچھی خبر دیں گے لیکن انہیں نماز جمعہ ادا کرنے کی جلدی تھی سو اس جلدی میں وہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا واحد مطالبہ ہی بھول گئے۔
مجموعی طور پر نواں قومی کتاب میلہ گزشتہ میلوں کی طرح بھرپور اور بارونق رہا۔ اس مرتبہ میلہ تین دن کی بجائے چار دنوں پر محیط تھا اس لیے لوگ اپنی سہولت کے تحت آتے جاتے رہے۔ ایک دن بارش اور آندھی نے لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا لیکن اس کے باوجود ہر تقریب میں شائقینِ ادب کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی۔ موجود کیوں نہ ہوتی کہ اس میلے میں مسعود اشعر، عطاءالحق قاسمی، زاہدہ حنا، پروفیسر فتح محمد ملک، احسان اکبر، فاطمہ حسن، حمیرا اشفاق، سعداللہ شاہ، توصیف تبسم، اسلم کمال، محمود شام، مبین مرزا، ذوالفقار چیمہ، خالد شریف، فاروق عادل، حمید شاہد، افتخار عارف، عکسی مفتی جلیل، ڈاکٹر ریاض مجید، تابش الوری، اصغر ندیم سیّد، ڈاکٹر یوسف خٹک، مظہر برلاس، یاسر پیرزادہ، فاضل حمیدی، خواجہ رضی حیدر، سرفراز شاہد، خالد مسعود خان، اختر شمار، آصف بھلی، عائشہ مسعود ملک، عقیل عباس جعفری، فرخ سہیل گوئندی، نیلوفر اقبال، فوزیہ چوہدری، وحید احمد، نسیم سحر، راشد نور، ناصر علی سیّد، ہارون الرشید، ناصر بشیر، ممتاز احمد شیخ، رخشندہ نوید، جبار مرزا، افضال احمد، مرزا حامد بیگ، عباس تابش، مرتضیٰ نور، عزیر احمد، رؤف طاہر، امجد اسلام امجد، انور شعور، وسعت اللہ خان، رضی الدین رضی، خورشید احمد ندیم اور ان جیسے بے شمار اہلِ قلم سے ہاتھ ملانے اور تصویر بنوانے کے لیے شائقینِ ادب گھنٹوں کھڑے رہتے تھے۔ صبح سے لے کر رات گئے مختلف سیشن کے ذریعے کبھی لوگ شاعری سن رہے ہوتے تھے تو کبھی وہ کتابوں کے اقتباسات۔ ذرا تصور کریں کہ یہ سب کچھ اپنی جگہ پر تھا لوگ کتابوں کے سٹال پر لائن بنا کر کتابیں یوں خرید کر رہے ہوتے تھے جس طرح کسی زمانے میں راشن ڈپو پر لائن بنا کر چینی ملا کرتی تھی۔
قومی کتاب میلے کا مرکزی خیال معروف افسانہ نگار مظہر الاسلام کے زمانے میں آیا۔ انہوں نے جب پہلے کتاب میلے کا انعقاد کیا تو تب کسی کو اندازہ نہ تھا کہ یہ میلہ اسلام آباد ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہو جائے گا۔ جس طرح میلہ چراغاں لاہور کا، بری امام کا میلہ اسلام آباد میں، شہباز قلندر میلہ سیہون میں، شاہ شمس کا میلہ ملتان اور حضرت عبداللہ شاہ غازی کا میلہ کراچی میں معروف ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کتابوں سے عشق کرنے والوں کو اسلام آباد کتاب میلے کا تحفہ دیا۔ جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گا کہ کتاب انعام ہے اور کتاب عرفان ہے اس لیے ہمیں کتابوں پر ناز ہے کہ کتاب ان سب کی ”ممنون“ ہے کہ جنہوں نے کتاب کو دکانوں سے نکال کر میلوں کا حصہ بنا دیا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ