اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ملینئم ڈویلپمنٹ گول کے مطابق 2015ءتک 93 فی صد آبادی کو صاف پانی ملنا چاہیے تھا مگر صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان کے ہر شہر کی حالت پانی کے حوالے سے مایوس کن ہے۔ اب دنیا نے اس حوالے سے SDSS تشکیل دے دیئے ہیں جس کے گول نمبر6 کے تحت ہم نے دنیا سے وعدہ کیا ہے کہ 2030ءتک ہم اپنے تمام شہریوں کو صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولت فراہم کریں گے۔ لیکن حکومتوں کی غیر سنجیدگی دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ہم 3030ءتک بھی یہ سہولت فراہم کر دیں تو یہ بہت بڑی غنیمت ہو گی۔ اگر اعلیٰ عدلیہ اس معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ازخود نوٹس لے کر وزیرِ اعلیٰ صاحبان کو طلب کر کے ان کو یاد کروا رہی ہے کہ صاف پانی کی فراہمی ان کی ذمہ داری ہے لیکن آبادی کے بے بہا پھیلاؤ نے ان کو ذمہ داریوں سے بری کر رکھا ہے کہ وہ عوام کو جہاں دوسری سہولیات دینے سے انکاری ہیں تو ایسے میں صاف پانی کی فراہمی تو ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔
اس کے ساتھ اگر ہم پنجاب میں اس معاملے پر اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس صوبے میں صرف 24 فی صد لوگوں کو صاف پانی مل رہا ہے۔ یہ 24فی صد حصہ وہ علاقہ ہے جو شمالی پنجاب ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب (ملتان، مظفرگڑھ، خانیوال، لیہ، بھکر) کے پانچ اضلاع ایسے ہیں جہاں پر ایک فیصد سے کم آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ جنوبی پنجاب کے باقی پانچ اضلاع (لودھراں، ساہیوال، راجن پور، جھنگ اور پاک پتن) میں 10 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے جہاں پر ہمیں فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ہمیں لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہنگامی طور پر سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے لوگوں کی صحت کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ پینے کا صاف پانی جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی ہم لوگ محروم ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا مطالبہ ہے کہ 90 فی صد آبادی کو سیوریج کی سہولت ملنی چاہیے لیکن ہم سیوریج کی سہولت تو دینا چاہتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عالمی ادارے ہمیں صاف پانی کے معاملے کے لیے امداد بھی کرے اگر ہمارے پاس اس کام کے لیے بیرونی ادارے عملی طور پر ہاتھ بٹانا چاہیں تو ہم اس امداد کا درست استعمال بھی نہیں کر پاتے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے شہروں میں آج بھی کھلی نالیوں کا نظام موجود ہے جس سے ہر سال ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ایسی نالیوں کی وجہ سے ہمیں جگہ جگہ چھوٹے جوہڑ دیکھنے کو ملتے ہیں جس کے نتیجے میں مچھروں کی افزائش کی وجہ سے گھرانہ بیماریوں کی زد میں ہے۔اگر ہم پنجاب کے مختلف اضلاع میں سیوریج کی سہولت کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ حکومت اس سہولت کی فراہمی کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر وہ کچھ نہیں کر پاتی۔ کچھ یہی صورت حال ملک کے باقی صوبوں کی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس سہولت کی فراہمی میں بھی پنجاب دیگر صوبوں سے آگے دکھائی دیتا ہے۔
پنجاب صاف پانی کمپنی نے اس سلسلہ میں ایک سروے بھی کرایا جس کے تحت پنجاب کے بارہ اضلاع کے دیہاتی علاقوں میں پانی کے نمونے لیے تو معلوم ہوا کہ وہ پانی بھی مضرِ صحت ہے۔ ایسے میں اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر ہر یونین کونسل کی سطح پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگواتی۔ اس منصوبے پر پنجاب کے مختلف شہروں میں یہ پلانٹ لگائے گئے لیکن ان کو عملی طور پر چالو نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہر یونین کونسل کے مختلف علاقوں میں اس پر ام کیا گیا۔پلانٹ کی تعمیر کر کے اس میں پانی کو صاف کرنے کے لیے پلانٹ نصب کیے۔ اس کی حفاظت کے لیے سکول کے چوکیدار کو ہی ذمہ داری دی گئی۔ بجلی کی فراہمی سکول سے ہو گئی۔ دیکھ بھال کے لیے پنجاب صاف پانی کمپنی کے اہلکاروں کو متحرک کیا گیا۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ منصوبہ بظاہر تو بہت اچھا تھا لیکن عملی طور پر شہروں میں یہ پلانٹ شروع نہ کیے جا سکے۔ بہرحال یہ سب باتیں اپنی جگہ پر افسوسناک ٹھہریں لیکن اصل بات یہ ہے کہ عوام اب تک اس سہولت سے محروم ہیں۔
پانی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ زندگی ہے اور اس کی فراہمی ہی زندگی کی ضمانت ہے اگر ہمیں پینے کے لیے صاف پانی نہیں ملتا تو پھر عوام کس کا دروازہ جا کر کھٹکھٹائے؟ دور کیوں جائیں روزنامہ ایکسپریس ملتان کے دفتر کے سامنے ایک مشروب ساز کمپنی نے عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیے ایک پلانٹ عوام کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ وہاں چوبیس گھنٹے عوام کا رش رہتا ہے۔ ہر وقت سڑک پر ٹریفک بلاک رہتی ہے لیکن مجبور عوام شدید گرمی کے موسم میں تیز دھوپ کے تلے گھنٹوں صاف پانی کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سہولت اگر عوام کو ان کے گھروں کے قریب فراہم کر دی جائے تو ملتان کے عوام کو سکھ کا سانس مل جائے۔
صاف پانی اور صرف پانی۔ یہ نعرہ آنے والے انتخابات کے موقع پر عوام کو لگانا چاہیے جو ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ملک کا ایک خاص طبقہ اپنے لیے پینے کے پانی کے لیے غیرملکی پانی استعمال کرتا ہے جبکہ واسا اگر غلطی سے کسی جگہ پر واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب کرتا ہے تو اس کے باہر نمایاں طور پر لکھواتا ہے پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے اور پانی کو باقاعدگی سے ٹیسٹ کروایا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ واقعی پانی کا باقاعدگی سے ٹیسٹ ہوتا ہے اور واقعی یہ پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہے؟
آج کل سیاسی جماعتیں اپنے منشور کی تیاری کر رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں اس میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل کے حل سب کی ترجیحات میں ہوں گے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت ان تینوں مسائل کو اپنے اپنے منشور میں نمایاں رکھیں تاکہ آنے والے دنوں میں چاہے چند دنوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو عاوم کے لیے یہ سیاسی جماعتیں اپنی آوازیں تو بلند کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں نے پانی کے مسئلہ پر کوئی آواز بلند نہیں کرنی لیکن پھر بھی ہمیں مل کر اس مسئلہ کے حل کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا ورنہ یہ پانی ہمیں بہت جلد صحت مند زندگی سے دور کر دے گا۔
حکومت اس بارے میں کتنی سنجیدہ ہے اس بارے میں ایک مثال حاضر ہے کہ پورے ملتان کی آبادی کے لیے اس وقت فلٹریشن پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر خراب ہیں۔ اگر یہ تمام پلانٹ ٹھیک بھی ہو جائیں تو اوسط 34 ہزار کی آبادی کے لیے ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ آتا ہے۔ ہر پلانٹ کو اگر پورا ماہ چلایا جائے تو اس کا بجلی کا ماہانہ بل صرف چھ ہزار آتا ہے۔ اگر حکومت یہ بل بھی ادا نہیں کر سکتی تو پھر اسے چاہیے کہ اس علاقے کے کسی بھی ایسے شخص سے رابطہ کرے جو اس طرح کے کارِ خیر میں حصہ لیتے ہیں تو ملتان کے تمام بند واٹر فلٹریشن پلانٹ پورا سال چلتے رہیں گے اور کسی کے لیے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
اس کے ساتھ اگر ہم پنجاب میں اس معاملے پر اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس صوبے میں صرف 24 فی صد لوگوں کو صاف پانی مل رہا ہے۔ یہ 24فی صد حصہ وہ علاقہ ہے جو شمالی پنجاب ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب (ملتان، مظفرگڑھ، خانیوال، لیہ، بھکر) کے پانچ اضلاع ایسے ہیں جہاں پر ایک فیصد سے کم آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ جنوبی پنجاب کے باقی پانچ اضلاع (لودھراں، ساہیوال، راجن پور، جھنگ اور پاک پتن) میں 10 فی صد لوگوں کو پینے کا صاف پانی مل رہا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے جہاں پر ہمیں فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ہمیں لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہنگامی طور پر سوچنا ہو گا کہ ہم اپنے لوگوں کی صحت کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ پینے کا صاف پانی جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اس سے بھی ہم لوگ محروم ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا مطالبہ ہے کہ 90 فی صد آبادی کو سیوریج کی سہولت ملنی چاہیے لیکن ہم سیوریج کی سہولت تو دینا چاہتے ہیں لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ عالمی ادارے ہمیں صاف پانی کے معاملے کے لیے امداد بھی کرے اگر ہمارے پاس اس کام کے لیے بیرونی ادارے عملی طور پر ہاتھ بٹانا چاہیں تو ہم اس امداد کا درست استعمال بھی نہیں کر پاتے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے شہروں میں آج بھی کھلی نالیوں کا نظام موجود ہے جس سے ہر سال ہزاروں لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ایسی نالیوں کی وجہ سے ہمیں جگہ جگہ چھوٹے جوہڑ دیکھنے کو ملتے ہیں جس کے نتیجے میں مچھروں کی افزائش کی وجہ سے گھرانہ بیماریوں کی زد میں ہے۔اگر ہم پنجاب کے مختلف اضلاع میں سیوریج کی سہولت کا جائزہ لیں تو علم ہوتا ہے کہ حکومت اس سہولت کی فراہمی کا دعویٰ تو کرتی ہے لیکن عملی طور پر وہ کچھ نہیں کر پاتی۔ کچھ یہی صورت حال ملک کے باقی صوبوں کی ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس سہولت کی فراہمی میں بھی پنجاب دیگر صوبوں سے آگے دکھائی دیتا ہے۔
پنجاب صاف پانی کمپنی نے اس سلسلہ میں ایک سروے بھی کرایا جس کے تحت پنجاب کے بارہ اضلاع کے دیہاتی علاقوں میں پانی کے نمونے لیے تو معلوم ہوا کہ وہ پانی بھی مضرِ صحت ہے۔ ایسے میں اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر ہر یونین کونسل کی سطح پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگواتی۔ اس منصوبے پر پنجاب کے مختلف شہروں میں یہ پلانٹ لگائے گئے لیکن ان کو عملی طور پر چالو نہ کیا گیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہر یونین کونسل کے مختلف علاقوں میں اس پر ام کیا گیا۔پلانٹ کی تعمیر کر کے اس میں پانی کو صاف کرنے کے لیے پلانٹ نصب کیے۔ اس کی حفاظت کے لیے سکول کے چوکیدار کو ہی ذمہ داری دی گئی۔ بجلی کی فراہمی سکول سے ہو گئی۔ دیکھ بھال کے لیے پنجاب صاف پانی کمپنی کے اہلکاروں کو متحرک کیا گیا۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ یہ منصوبہ بظاہر تو بہت اچھا تھا لیکن عملی طور پر شہروں میں یہ پلانٹ شروع نہ کیے جا سکے۔ بہرحال یہ سب باتیں اپنی جگہ پر افسوسناک ٹھہریں لیکن اصل بات یہ ہے کہ عوام اب تک اس سہولت سے محروم ہیں۔
پانی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ زندگی ہے اور اس کی فراہمی ہی زندگی کی ضمانت ہے اگر ہمیں پینے کے لیے صاف پانی نہیں ملتا تو پھر عوام کس کا دروازہ جا کر کھٹکھٹائے؟ دور کیوں جائیں روزنامہ ایکسپریس ملتان کے دفتر کے سامنے ایک مشروب ساز کمپنی نے عوام کو صاف پانی مہیا کرنے کے لیے ایک پلانٹ عوام کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ وہاں چوبیس گھنٹے عوام کا رش رہتا ہے۔ ہر وقت سڑک پر ٹریفک بلاک رہتی ہے لیکن مجبور عوام شدید گرمی کے موسم میں تیز دھوپ کے تلے گھنٹوں صاف پانی کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ سہولت اگر عوام کو ان کے گھروں کے قریب فراہم کر دی جائے تو ملتان کے عوام کو سکھ کا سانس مل جائے۔
صاف پانی اور صرف پانی۔ یہ نعرہ آنے والے انتخابات کے موقع پر عوام کو لگانا چاہیے جو ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ ملک کا ایک خاص طبقہ اپنے لیے پینے کے پانی کے لیے غیرملکی پانی استعمال کرتا ہے جبکہ واسا اگر غلطی سے کسی جگہ پر واٹر فلٹریشن پلانٹ نصب کرتا ہے تو اس کے باہر نمایاں طور پر لکھواتا ہے پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہے اور پانی کو باقاعدگی سے ٹیسٹ کروایا جاتا ہے لیکن یہاں پر ایک سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ واقعی پانی کا باقاعدگی سے ٹیسٹ ہوتا ہے اور واقعی یہ پانی حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق ہے؟
آج کل سیاسی جماعتیں اپنے منشور کی تیاری کر رہی ہیں۔ ہمارے خیال میں اس میں تعلیم، صحت اور روزگار کے مسائل کے حل سب کی ترجیحات میں ہوں گے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت ان تینوں مسائل کو اپنے اپنے منشور میں نمایاں رکھیں تاکہ آنے والے دنوں میں چاہے چند دنوں کے لیے ہی کیوں نہ ہو عاوم کے لیے یہ سیاسی جماعتیں اپنی آوازیں تو بلند کریں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتوں نے پانی کے مسئلہ پر کوئی آواز بلند نہیں کرنی لیکن پھر بھی ہمیں مل کر اس مسئلہ کے حل کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہو گا ورنہ یہ پانی ہمیں بہت جلد صحت مند زندگی سے دور کر دے گا۔
حکومت اس بارے میں کتنی سنجیدہ ہے اس بارے میں ایک مثال حاضر ہے کہ پورے ملتان کی آبادی کے لیے اس وقت فلٹریشن پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر خراب ہیں۔ اگر یہ تمام پلانٹ ٹھیک بھی ہو جائیں تو اوسط 34 ہزار کی آبادی کے لیے ایک واٹر فلٹریشن پلانٹ آتا ہے۔ ہر پلانٹ کو اگر پورا ماہ چلایا جائے تو اس کا بجلی کا ماہانہ بل صرف چھ ہزار آتا ہے۔ اگر حکومت یہ بل بھی ادا نہیں کر سکتی تو پھر اسے چاہیے کہ اس علاقے کے کسی بھی ایسے شخص سے رابطہ کرے جو اس طرح کے کارِ خیر میں حصہ لیتے ہیں تو ملتان کے تمام بند واٹر فلٹریشن پلانٹ پورا سال چلتے رہیں گے اور کسی کے لیے کوئی مسئلہ بھی نہیں ہو گا۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ