بہت دنوں سے پورے ملک میں 13 جولائی زیرِ بحث تھی کہ کیا اُس دن سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز پاکستان آ کر گرفتاری دیتے ہیں یا نہیں؟ اخبارات سے لے کر ٹیلیویژن چینلز پر ایک ہی موضوع تھا۔ کیا سابق وزیراعظم گرمی کے اس موسم میں جیل میں شب و روز گزاریں گے؟ اور پھر آخرکار سوشل میڈیا میدان میں آیا اور سب سے مقبول ترین پوسٹ یہ ٹھہری
”ن لیگ کا پلان…. 13 جولائی کو نواز شریف لندن سے ابوظہبی پہنچیں گے اور وہاں اُن کو کلثوم نواز کے انتقال کی خبر ملے گی جو پہلے ہی وفات پا چکی ہیں۔ پھر نواز شریف اور اس کی بیٹی یہ سنتے ہی لندن واپس چلی جائیں گی۔ اس میسج کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ ن لیگ کا اصل چہرہ سامنے آ سکے۔“
اس پوسٹ کے برعکس نواز شریف پاکستان پہنچے، گرفتاری دی اور پھر ٹی وی چینلز پر بیٹھے بزرجمہروں نے ایسے ایسے انکشافات کیے کہ ان انکشافات کے پس منظر میں کسی کو یہ یاد ہی نہ رہا کہ 13 جولائی کو نواز شریف کی گرفتاری سے بڑا اور پاکستان کی تاریخ کا ایک اور افسوسناک سانحہ مستونگ میں ہو چکا تھا ۔ اور ہم سب شہداءکی تعداد کے اضافے کو دیکھ کر پھر لاہور میں ہونے والے سیاسی دنگل کی طرف آ جاتے۔ اور پھر کہیں پر ’شیر اک واری فیر‘ تو کہیں پر ’میرا ایمان عمران‘ کے نعرے دکھائی دیتے۔ سوشل میڈیا کی بے حسی اس دن انتہائی افسوسناک تھی کہ اس دن بھی اُن کو اپنے اپنے پیارے سیاستدانوں کی پڑی ہوئی تھی اور کسی کو یہ یاد ہی نہیں تھا کہ ابھی پشاور میں ہارون بلور کا کفن بھی میلا نہ ہوا تھا کہ مستونگ کے غریب اور محکوم لوگ بند بازاروں میں جا کر دکانیں کھلوا کر کفن کی خریداری کر رہے تھے۔ ایک طرف لاہور میں شہباز شریف کی گاڑی پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جا رہی تھیں تو دوسری جانب مستونگ کے شہداءکے لیے پھولوں کے ہار ہی دستیاب نہ تھے۔ گورکن سخت گرمی میں ڈیڑھ سو سے زیادہ قبریں کھودنے کے لیے لواحقین کو صبر کرنے کا کہہ رہے تھے کہ اتنی اکٹھی قبریں بنانے کا ان کے پاس کوئی تجربہ نہ تھا۔ کہ ہر شہر میں جو بھی گورکن اس روزگار کے ساتھ وابستہ ہے وہ زیادہ سے دو یا تین قبریں کھودنے کی سکت رکھتا ہے اور مستونگ میں تو اس دن گورکن جب زمین پر کھڈا لگاتے تھے تو اس کے ساتھ وہ دھاڑیں مار کر روتے بھی تھے۔ کہ 13 جولائی کا دن ان کے لیے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہ تھا۔
قارئین کرام! مَیں نے سراج رئیسانی کے جلسے میں بم بلاسٹ ہونے کی ویڈیو فیس بک پہ دیکھی۔ اور وہ ویڈیو دیکھتے ہی مَیں نے اپنے صفحے سے ہٹا دی کہ اس دن تو میرا صفحہ پاکستان کے ایک بڑے لیڈر کی اپنی بیٹی کے ساتھ گرفتاری کی خبروں سے بھرا پڑا تھا۔ مَیں مستونگ میں ہونے والے حملے کی ویڈیو کو اپنے صفحے پر شیئر کر کے سیاسی بے حسوں کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ مجھے اس دن مستونگ میں شہید ہونے والوں پر غصہ آ رہا تھا کہ انہوں نے شہید ہو کر ن لیگ اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں کے رنگ میں بھنگ کیوں ڈالی؟ مستونگ والوں نے تو مرنا ہی تھا تو اگلے دن مر جاتے۔ نواز شریف کا شو تو خراب نہ کرتے۔ ویسے بھی دہشت گردوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ
ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
ابھی تازہ کھدی قبروں کی مٹی بھی نہیں سوکھی
اگربتی کی خوشبو سانس کو مصلوب کرتی ہے
پس چشمِ عزا ٹھہرے سرِ شک حشر بستہ میں احساس کا نم ہے
ابھی پرسے کو آئے نوحہ گر واپس نہیں پہنچے
ابھی کنزِ غمِ جاوید میں صدہا الم ہیں عرصہ غم ہے
عزادارو ابھی پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
نئے تابوت پچھلے چوک پر ہیں نوحہ و نالہ کی لَے مدھم رکھو
گلہائے تازہ کا کوئی نوحہ نہیں کہنا (زمستاں ہے)
ابھی وہ خوش نفس واپس نہیں پہنچے
علی اصغرؑ علی اکبرؑ نہیں لوٹے
ابھی قاسمؑ کی مہندی کھولنا باقی ہے
پانی آئے تو نوحہ اٹھائیں گے
ابھی زنجیرِ گریہ میں کئی بے آب حلقے ہیں
اگربتی کی خوشبو ہڈیوں تک آن پہنچی ہے
مگر پچھلے جنازوں کے نمازی گھر نہیں لوٹے
(اختر عثمان)
لیکن دہشت گرد کہاں سوچتے ہیں۔ یہاں تو عوام سیاستدان سب ہی دہشت گروں کے نقشِ قدم پر ہےں۔ ہمیں بس اپنی پارٹی وابستگی کو دیکھنا ہے۔ ہمیں پشاور، بنوں، مستونگ اور دیگر شہروں میں پڑے جوانوں کے لاشے نہیں دیکھنے۔ مجھے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے ہیں۔ مجھے مستونگ کے شہداءکی اُن تصویروں کو نہیں دیکھنا جس میں وہ جلسہ گاہ میں ایسے لیٹے ہیں جیسے دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد کوئی مزدور بغیر سائے کے بھی سو رہا ہوتا ہے۔ مَیں شہداءکی تصویریں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ بہت سے بچے اپنے گھروں میں ان کے منتظر ہوں گے کہ ان کے والدین آنکھوں میں خواب سجائے اور جھولیوں میں اُن کے لیے بہت سی اُمیدیں لے کر آئیں گے لیکن مستونگ کے اب ہزاروں لوگ ہر سال 13 جولائی کو جب برسی منایا کریں گے تو ایک دوسرے سے پوچھا کریں گے کہ 25 جولائی کو جو لوگ ہمارے حکمران منتخب ہوئے ہیں کیا اُن میں سے کسی کو ہمارے شہداءکے نام بھی معلوم ہیں۔ یقینا کسی کو بھی یاد نہیں ہو گا کہ وہ کون کون سے شہید تھے جن کی قبروں پر پاؤ ں دھرتے ہوئے وہ اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ اس مرتبہ 25 جولائی کو جو منتخب ہو گا اس کو چاہیے کہ حلف اٹھانے سے پہلے مستونگ جا کر شہداءکے گھروں میں فاتحہ خوانی کرے اور پھر حلف کے لیے نئی گاڑی اور نئے لباس کا انتخاب کرے۔ کہ ان کے اسمبلی میں پہنچنے کی قیمت سب سے زیادہ اہلِ مستونگ نے ادا کی ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )