ملک صلاح الدین ڈوگر سے لے ملک عامر ڈوگر کا سیاسی سفر میرے سامنے کا ہے۔ صلاح الدین ڈوگر 1985ءکی صوبائی اسمبلی میں رکن منتخب ہوئے۔ ن لیگ کا حصہ بنے وہاں سے پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ شہر کے میئر بھی رہے۔ کرپشن کے الزامات کی بنیاد پر مشرف دور میں قید و بند صعوبتیں بھی برداشت کی، جیل میں بیٹھ کر ہزاروں کی تعداد میں اپنے حلقے کے لوگوں کو اپنے بھائی ملک لیاقت علی ڈوگر کے لیے خط لکھے اور اُن کے حلقے کے لوگوں نے اسے انتخابی مہم کا حصہ جان کر کامیاب کروایا اور یہ کامیابی لیاقت علی ڈوگر کو پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملی۔ 2008ءکے الیکشن میں عامر ڈوگر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ ملک صلاح الدین ڈوگر پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کاالیکشن ہار گئے۔ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی نے اُن پارٹی کے لیے خدمات کو دیکھتے ہوئے سینیٹر منتخب کرایا۔ 2013ءکے انتخابات میں عامر ڈوگر نے اسی نشست پر پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لیا اور ہار گئے جہاں سے اس مرتبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ چند سال پہلے پیپلز پارٹی کو خیرباد کہہ کر وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے۔ چونکہ انہوں نے اور ان کے چچا اور والد نے اس پارٹی کے ساتھ اچھا وقت گزارا ہے اس لیے عامر ڈوگر نے کبھی بھی پیپلز پارٹی کے بارے میں بازاری زبان استعمال نہیں کی۔ اسی وجہ سے پیپلز پارٹی کے بے شمار رہنما اور ووٹرز اُن کو ووٹ دیتے ہوئے جھجکتے نہیں۔
حلقہ NA156 میں مخدوم شاہ محمود قریشی تحریکِ انصاف کی طرف سے اُمیدوار جبکہ عامر سعید انصاری ن لیگ کے اُمیدوار ٹھہرے۔ اس حلقے میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی غیر حاضر تھی اس لیے مقابلہ شاہ محمود قریشی اور عامر سعید انصاری کے درمیان ہوا۔ ن لیگ نے اپنے اُمیدوار کا اعلان تاخیر سے کیا جس سے اُن کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ اس حلقے میں رانا محمود الحسن سابق MNA نے بھی عامر سعید انصاری کے ساتھ منافقت کی اور اس انداز سے حمایت نہ کی جس کی توقع وہ آخری دن تک کرتے رہے۔ واقفانِ حال کا یہ کہنا ہے کہ سینیٹر رانا محمود الحسن نے شاہ محمود قریشی کو یقین دلا رکھا تھا کہ مَیں عامر سعید انصاری کو آپ کے مقابلے میں جیتنے نہیں دوں گا۔ اس حلقے میں شاہ محمود قریشی کو اتنے ووٹ نہیں ملے جتنے وہ توقع کر رہے تھے۔ اگر عامر سعید انصاری کے ساتھ مسلم لیگ ن کے تمام ونگز مخلصی سے چلتے تو وہ اَپ سیٹ کر سکتے تھے۔ اسی حلقے کی صوبائی نشست PP217 میں اگر ایک آزاد اُمیدوار شیخ سلمان نعیم شاہ محمود قریشی کو شکست سے دوچار کر سکتا ہے تو عامر سعید انصاری کے لیے شاہ محمود قریشی کو شکست دینا کوئی مشکل نہ تھا۔ سو نتائج کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ شاہ محمود قریشی اور مسلم لیگ ن نے مل کر عامر سعید انصاری کو شکست دی۔ اگر شاہ محمود قریشی کو ن لیگ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو وہ آج اسمبلی سے باہر ہوتے۔
NA157 کی رام کہانی بھی پڑھ لیں اس حلقے میں پاکستان تحریکِ انصاف کی طرف سے زین حسین قریشی (شاہ محمود کے بیٹے) کا مقابلہ علی موسیٰ گیلانی (یوسف رضا گیلانی کے بیٹے) سے تھا۔ دونوں مخادیم کی اولادوں کا یہ مقابلہ دلچسپ ٹھہرا اور مخدومزادہ زین حسین قریشی جو اپنی زندگی کا پہلا الیکشن لڑ رہے تھے کامیاب ہوئے۔ اس حلقے میں علی موسیٰ گیلانی کی شکست کی وجہ ایک یہ بھی ہوئی کہ اُن کے ایک صوبائی اُمیدوار رائے منصب علی خان ن لیگ کو چھوڑ کر پی پی میں شامل ہوئے تھے جن سے اُن کے حلقے کے لوگوں بہت شکایات تھیں اگرچہ علی موسیٰ گیلانی اس حلقے میں بہت مقبول تھے اور پیپلز پارٹی کا اس حلقے میں ووٹ اتنا نہیں رہا سو زین حسین قریشی نے اپنے دادا اور والد کی آبائی سیٹ پر کامیابی حاصل کر کے سیاسی مبصرین کو یہ بتایا کہ یہ حلقہ اب بھی ہمارا ہے۔
حلقہ NA159 میں مقابلہ تحریکِ انصاف کے رانا قاسم نون اور مسلم لیگ نواز کے سیّد ذوالقرنین بخاری کے درمیان تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم اس حلقے کے نتائج کے بارے میں جائزہ لیں پہلے ان دونوں جماعتوں کے اُمیدواروں کی سیاسی قلابازیوں کے بارے میں کچھ پڑھ لیں۔ اس حلقے کے فاتح اُمیدوار راناقاسم نون کے بارے میں کوئی شخص بھی یہ نہیں یقین سے کہہ سکتا کہ وہ صبح جس جماعت میں ہوتے ہیں دوپہر میں اُس جماعت میں ہونا ضروری نہیں۔ پارٹیاں بدلنا ان کا مشغلہ ہے۔ وہ لباس کم اور سیاسی وفاداری زیادہ بدلنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اُن کے جو مدِمقابل اُمیدوار سیّد ذوالقرنین بخاری کے بزرگ بھی اسی قسم کی شہرت رکھتے ہیں۔ شاید اس حلقے کی مٹی میں وفا نام کی کوئی چیز نہیں۔ اسی لیے عام انتخابات میں یا بلدیاتی انتخابات میں یہاں کے سیاسی خانوادے ہوا کا رُخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں اور وہی راستہ اختیار کرنے میں عافیت جانتے ہیں جہاں پر اُن کو اقتدار کی منزل دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ رانا قاسم نون اپنے مختصر سے سیاسی سفر میں ن لیگ، ق لیگ اور پیپلز پارٹی کا حصہ رہے اور اب تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ ہمیں تو اس حلقے کے عوام پر ترس آتا ہے کہ ہر مرتبہ اُن کو اپنے نمائندے کا انتخاب کرتے ہوئے نئی پارٹی کا بھی انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ بھی رانا قاسم نون ن لیگ کی بجائے تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم پر دکھائی دیئے، بلے کا طلسم یہاں بھی چلا اور رانا قاسم نون ایک مرتبہ پھر اسمبلی کا حصہ بن گئے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اُن کی ایک صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر اُن کے حلقے کی عوام نے سابق صوبائی وزیر محترمہ نغمہ مشتاق لانگ کو کامیابی دلائی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حلقے میں اب بھی لوگ وفاداری کی قدر کرتے ہیں۔
ضلع ملتان میں قومی اسمبلی کی چھ نشستوں کی کامیابی کا کریڈٹ کس کو جاتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے اگر ہم منتخب ہونے والے تمام اراکین سے الگ الگ کریں تو سب کا یہی جواب ہو گا کہ ہم اپنی محنت اور کارکردگی کی وجہ سے کامیاب ہوئے حالانکہ یہ کامیابی ان تمام اراکین کو تحریکِ انصاف کی وجہ سے ملی کہ جب سے انتخابات ہوئے ہیں تب سے لے کر تادمِ تحریر تک ہم نے سینکڑوں لوگوں سے اُن کے منتخب اُمیدواروں کا نام پوچھا تو ان میں اکثریت کا یہی کہنا تھا کہ ہم نے بیلٹ پیپر پر صرف بلے کا انتخابی نشان تلاش کیا اور مہر لگا دی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے حلقے کا ایم این اے اور ایم پی اے کون ہے۔ کامیاب ہونے والوں کی خوشی اپنی جگہ پر لیکن اُن کو یہ سوچنا ہو گا کہ اُن کو اسمبلی کا رکن بنانے میں اُن کی پارٹی کے سربراہ کا زیادہ حصہ ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملتان شہر میں وہ اپنے بل بوتے پر کامیابی حاصل کر کے بیٹھا ہوا ہے تو انہیں مخدوم شاہ محمود قریشی کی حلقہ PP217 میں شکست کو یاد رکھنا چاہیے جس نے مخدوم صاحب کو ایک رات میں وزارتِ اعلیٰ سے نہ صرف محروم کیا بلکہ اُن کے اور ان کے بیٹے کے رکن قومی اسمبلی بننے کی خوشی کو بھی ماند کر دیا۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ