مَیں آخری مرتبہ لاہور جنوری کے دوسرے ہفتے آیا تھا۔ لاہور آتے ہی برادرم افضال احمد سے کتابوں کی ”نیاز‘‘ لی اور اپنے میزبان میاں محمد احسن کے ہاں چلا آیا۔ میاں صاحب نے جس گھر میں میرے قیام کا انتظام کیا وہاں اتنی خاموشی تھی کہ مَیں نے سوچا کہ آج کی رات کتابوں کے مطالعہ کے لیے آئیڈیل ہے۔ میرے سرہانے اسلم فرخی کا مجموعہ (خاکے)، عرفان جاوید کے ’دروازے‘ (خاکے) ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے سفرناموں کا مجموعہ ’’ہواؤں کے سنگ‘‘ اور منیزہ ہاشمی کی کتاب ’’کون ہوں مَیں؟‘‘ دعوتِ مطالعہ دے رہی تھیں۔ منیزہ ہاشمی کی کتاب کو سب سے پہلے پڑھنا شروع کیا تو یاد آیا یہ کتاب پہلے انگریزی میں شائع ہوئی تھی جس کو اب اُردو کے قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ میری عادت ہے کہ مَیں نئی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اس کی فہرست دیکھتا ہوں۔ فہرست میں اپنی پسندیدہ چیزوں کو تلاش کر کے کتاب کو چکھنا شروع کرتا ہوں۔ اس کی فہرست کو دیکھا تو اُس میں بے شمار شخصیات ایسی تھیں جن کے متعلق پہلے بھی بہت کچھ پڑھ چکا تھا لیکن ان کی شخصیت کے بارے میں ابھی اور پڑھنا چاہتا ہوں۔ بات ہو رہی تھی لاہور میں ایک رات گزارنے کی۔ مَیں اس رات یہ سوچ رہا تھا کہ آج کی رات مَیں اُس شہر میں سانس لے رہا ہوں جہاں پر میرے ساتھ مستنصر حسین تارڑ، بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، منو بھائی، طارق محمود اور دیگر احباب سانس لے رہے ہیں۔ یہ بات تصور کر کے ہی نہال ہو رہا تھا کہ مَیں اُس لاہور میں رات گزاروں گا جہاں پر انتظار حسین، عبدﷲ حسین، اشفاق احمد، احمد ندیم قاسمی اور اے حمید سمیت سینکڑوں نامور اہلِ قلم نے اپنی زندگی کی شامیں اور راتیں گزاری ہیں۔ مجھے ناصر کاظمی، منیر نیازی سے ڈاکٹر انور سدید تک سب یاد آتے رہے۔ جن کی تحریریں پڑھ کر ہم نے پڑھنا اور لکھنا سیکھا۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پر سوچتا سوچتا منیزہ ہاشمی کی کتاب میں عابدہ پروین، بانو قدسیہ، بہار بیگم، بیپسی سدھوا، سلیمہ ہاشمی، زہرہ نگاہ کے تذکرے پڑھتا پڑھتا نیند کی وادی میں گم ہو گیا۔ صبح میاں محمد احسن کی تقریب کی نظامت کی اور واپس ملتان چلا آیا۔
گھر آ کر بھی اسی کتاب کے مطالعے کو مکمل کیا تو معلوم ہوا کہ مجھے تو اب بھی نامور شخصیات کے بارے میں کچھ بھی علم نہ ہے۔ خاص طور پر بانو آپا (ہم سب انہیں آپا ہی کہتے تھے) والا باب پڑھ رہا تھا تو مجھے ان کے بارے میں بالکل نئی باتیں معلوم ہو رہی تھیں۔ پڑھتے پڑھتے مجھے یاد آیا میری ان سے پہلی ملاقات ’’داستان سرائے‘‘ میں یکم اگست 2003ء کو ہوئی جہاں مَیں بیگم بدر تصدق کے ہمراہ صرف ملاقات کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنی زیرِ طبع کتاب (مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح حیات و فکر) کا اشفاق احمد سے فلیپ لکھوانے گیا تھا۔ اس ملاقات کے لئے ہمارے سفارشی جناب نیاز احمد تھے جنہوں نے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کو فون کر کے کہا تھا میرا بیٹا ملتان سے ایک مہمان کے ساتھ آ رہا ہے۔ بس ٹرمینل پر نیاز احمد نے اپنی گاڑی بھجوا رکھی تھی جس نے ہمیں چند لمحوں بعد اس گھر پہنچا دیا تھا جہاں پر اُردو کے دو نامور لکھنے والے رہتے تھے۔ دستک کے بعد ایک خاتون ملازمہ نے ہمیں سادہ سے ڈرائنگ روم میں پہنچا دیا۔ پہلے بانو قدسیہ تشریف لائیں جنہوں نے سرخ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔ دس منٹ بعد اشفاق احمد آئے تو بانو آپا چائے کا کہنے کے لیے چلی گئیں۔ شدید گرمی میں پہلے سرخ شربت آیا بعد میں گھر کے بنے لوازمات اور چائے ہمارے سامنے تھے۔ مَیں نے اپنی زیرِ طبع کتاب کا مسودہ اشفاق احمد کے حوالے کیا۔ پھر بیگم بدر تصدق نے ان کے لکھے ہوئے خطوط دکھائے۔ دونوں اپنے پرانے خط محفوظ دیکھ کر خوش اور حیران ہوتے رہے۔ ہماری یہ نشست تقریباً دو گھنٹے رہی۔ پھر ہم نیاز صاحب کا شکریہ ادا کرنے سنگِ میل گئے اور شام سے پہلے ہم ملتان روانہ ہو چکے تھے۔ لاہور سے میرا رومانس کتابوں اور ان لکھنے والوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے میری زندگی کے کٹھن لمحوں کو آسان بنایا ہوا ہے کہ مَیں جب بھی پریشان ہوتا ہوں تو کتابوں کی پناہ میں آ جاتا ہوں۔ اسی لاہور کے نامور اہلِ قلم کی کتابوں نے میرے جیون کے سفر کے کانٹے بھی چنے ہیں اور مجھے سکون سے بھی روشناس کرایا ہے۔ ان لکھنے والوں میں یوں تو بے شمار نام ہیں لیکن آج تذکرہ بانو قدسیہ کا کروں گا جن کی سانس کی ڈوری 4 فروری 2107ء کو ٹوٹ گئی۔ بانو قدسیہ کے ساتھ اشفاق احمد کی جوڑی بہت مقبول ہوئی۔ دونوں کی محبت کی شادی تھی، گھر والے اس شادی کے خلاف تھے۔ جب گھر والے کسی نئی شادی کے خلاف ہوں تو شادی کرنے والے جب اپنی کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ اپنی محبت کو اَمر کرنے کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں جیسے بانو آپا اور اشفاق احمد نے لگائی۔ بانو آپا نے اپنے گھر کے متعلق ایک بات بار بار کہی کہ اگر اشفاق احمد نہ ہوتے تو مَیں شاید ایک لفظ بھی نہ لکھ سکتی۔ ان دونوں نے اپنے گھر کو بسانے کے لیے قلم اور کاغذ کا سہارا لیا۔ کبھی کچن کے سامان کی ضرورت ہوتی تو دونوں لکھنے بیٹھ جاتے۔ فرنیچر کو دیکھ کر کہتے تھے یہ فلاں ڈرامے کی رائلٹی سے خریدا۔ قالین کا شوق افسانے لکھنے کے بعد پورا ہوا۔ یہ ناول لکھا تو زندگی کا یہ دکھ کم ہوا۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا بانو آپا آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ جواب بھی ان کی شخصیت کی طرح مختلف تھا۔ کہنے لگیں:
’’میری کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ میرے شوہر کا ہے۔ شروع شادی کے دن تھے۔ داستان گو ہمارا رسالہ تھا۔ غریبی بھی پورے عروج پر تھی۔ انہوں نے مجھ سے فرضی ناموں سے کہانی لکھوانی شروع کر دی اور یوں مَیں کہانی لکھنے میں رواں ہو گئی۔ وہ گھر آ کر یہ نہیں پوچھتے تھے کہ آج کیا پکایا ہے؟ ان کا سوال ہوتا تھا آج کتنے صفحات لکھے، کتنے گھنٹے لکھنے کو دیئے۔ انہوں نے یہ عادت اتنی پکی کر دی کہ پھر تو انہوں نے کبھی نہ بچوں کی خیریت دریافت کی نہ میری۔ بس مجھے لکھنے اور پڑھنے پر لگا دیا۔ دوسری شخصیت میری ماں ہیں جنہوں نے جو بات بچپن میں بتائی وہ اب 55 میں کام آرہی ہیں۔ میری کامیابی میں تیسرا ہاتھ میری کھانا پکانے والی عورت کا ہے جس کو یہ نہیں معلوم کہ کتاب، اخبار، رسالہ، ٹی وی اور ریڈیو کیا ہوتا ہے۔ اسے میری شہرت کا بھی علم نہیں بالکل اَن پڑھ ہے مگر وہ میرے ساتھ تیس سال سے ہے۔ شروع کے دنوں میں اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپا جی یہ آپ کیا کرتی ہیں گھنٹوں میز پہ بیٹھی کیا کرتی رہتی ہیں۔ آپ آرام کیا کریں۔ مَیں نے کہا یہ لکھنا میرا کام ہے۔ چھوٹا موٹا کام۔ یہ بات سن کر کہنے لگی کہ ﷲ آپ کے کام میں برکت ڈالتا ہے۔ مَیں نے جواب دیا ہاں بڑی برکت ڈالتا ہے۔ اس دن سے لے کر اب تک مَیں جب بھی کبھی کچن میں جاتی ہوں تو وہ پہلی بات یہی کہتی آپا جی آپ یہ کام نہ کریں۔ آپ جا کر لکھیں اور پڑھیں۔ مَیں باورچی خانے کا کام کرتی ہوں۔ ایک گھنٹے بعد آ کر آپ کچن کا کام چیک کر لینا۔ تو مَیں سب سے زیادہ اپنی کھانے پکانے والی کی شکر گزار ہوں جس نے مجھے لکھنے کے لیے اپنا بہت سا وقت دے رکھا ہے۔‘‘
اسی طرح کسی انٹرویو میں ان سے دریافت کیا گیا کہ وہ اپنی کونسی حیثیت کو پسند کرتی ہیں ادیبہ، ماں، ساس، دادی یا بیوی۔ کہنے لگیں کہ ’’بیوی کے متعلق تو اشفاق صاحب میرے بارے میں لکھ چکے ہیں، اچھی ادیبہ کا فیصلہ میرے قاری اور تاریخ کرے گی۔ مَیں سب سے زیادہ خراب ساس ہوں جو اپنی بہوؤں کو اتنا وقت نہیں دے سکی۔ اپنے پوتے اور پوتیوں کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزارا جتنی میری خواہش تھی۔ مَیں اچھی ماں بھی نہیں بن سکی کیونکہ میرے بچے میرے لیے ترستے رہے۔ مَیں کوالٹی ٹائم کے تصور کو نہیں مانتی۔ بچوں کو صرف ماں کا وقت چاہیے ہوتا ہے جیسے سورج مکھی پھول کا منہ سورج کی طرف ہوتا ہے جہاں جہاں سورج جاتا ہے سورج مکھی کا منہ بھی اسی طرف ہو جاتا ہے۔ بچہ بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ جدھر ماں جاتی ہے ادھر ہی اس کا چہرہ جاتا ہے تاوقتیکہ وہ اپنی عمر یا بلوغت کو نہ پہنچے۔‘‘
بانو قدسیہ کے فن کے بارے میں کیا لکھا جائے ان جیسی نثر لکھنے والی شاید ہی اب کوئی ہو گی۔ مجھے یاد پڑتا ہے ایک مرتبہ خالد مسعود خان نے مجھے کہا اگر بانو آپا ’’ایک دن‘‘ (ناولٹ) کے بعد کچھ بھی نہ لکھتیں تو وہ تب بھی اُردو ادب میں زندہ و جاوید رہتیں لیکن انہوں نے تو خوبصورت نثر پر مبنی درجنوں کتابوں کو اپنے پڑھنے والوں کے لیے وقف کیا۔ ان کے نثری جملے لوگوں کو اچھے اشعار کی طرح یاد ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اقتباس دیکھیں اور سوچیں کہ اُردو ادب کتنی بڑی لکھنے والی سے محروم ہوا۔
*۔۔۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں مرد ایک غسل کر کے پاک ہو جاتا ہے جب کہ عورت اپنی پاکی ثابت کرنے کے لیے پوری زندگی لٹا دیتی ہے۔
*۔۔۔ عورت کا کیا کام جنت میں ۔۔۔۔۔۔ عورت یہاں بھی اولاد کی دوزخ میں جلتی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہاں بھی اولاد کی قسمت سے بندھ جائے گی۔۔۔۔۔۔ جو کسی کے 7 بیٹے ہوئے، عبدالکریم اور 6 جنت میں گئے اور ساتواں دوزخ میں گیا تو ماں کو جنت میں تلاش نہ کرنا وہ تمہیں ساتویں بیٹے کے ساتھ دوزخ میں ملے گی۔
*۔۔۔ اس دنیا میں سکون سے جینے کی ایک ہی تدبیر کہ ہر انسان کے پاس ایک وسیع قبرستان ہو جہاں وہ اپنوں کی غلطیوں اور خامیوں کو دفنا آیا کرے۔
ممتاز مفتی نے بانو آپا کے لیے کچھ یوں لکھا: ’’اشفاق احمد نے ایک خاتون سے عشق کیا۔ کئی سال وہ اس عشق میں گھلتا رہا۔ عشق کامیاب ہوا۔ خاتون بیوی بن کے گھر آئیں تو محبوبہ نہیں عاشق نکلیں۔ ورنہ اشفاق احمد کے جملہ کس بل نکل جاتے۔ محبوب طبیعت وہ ازلی طور پر تھا۔ بیوی کی آمد کے بعد بالکل دیوتا بن گیا۔ کانٹا اشفاق کو چبھے تو درد بانو کو ہوتا ہے۔ ہتھ چکی اشفاق چلاتا ہے آبلے بانو کے ہاتھوں میں پڑتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے ایک پکی دانشور نے پتی بھگتی میں اپنا سب کچھ تیاگ رکھا ہے۔ ‘‘
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ