25 جولائی 2018ءکے انتخابات میں ملتان شہر کے حلقہ پی پی 217 میں ایک اَپ سیٹ ہوا تھا۔ اس کے بعد ہارنے والے اُمیدوار نے یہ شکست دل میں رکھ لی اور سوچ میں پڑ گئے کہ عوامی میدان میں شکست کھانے کے بعد اُس اُمیدوار کو اب کیسے شکست دی جائے۔ پی پی حلقہ 217 میں مخدوم شاہ محمود قریشی کو انہی کے لگائے ہوئے پودے محمد سلیمان نعیم نے مستقبل کی وزارتِ اعلیٰ سے محروم کیا۔ جیسے ہی نتیجہ آیا تو پنجاب میں تحریکِ انصاف کو حکومت سازی کے لیے آزاد اُمیدوار کی اشد ضرورت تھی۔ ایسے میں جہانگیر ترین تحریکِ انصاف کی پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے سرگرم ہوئے۔ پورے پنجاب میں جہاں سے آزاد اُمیدوار کامیاب ہوئے تھے ان کو اپنے جہاز میں بٹھایا اور عمران خان کے نگ پورے کرنے لگے۔ چونکہ سلیمان نعیم بھی آزاد پنچھی تھے اسے عمران خان کے دربارِ عالیہ میں جہانگیر ترین نے پیش کیا۔ وعدے کیے گئے کہ حکومت سازی کے بعد انہیں کابینہ کا حصہ بنایا جائے گا۔ سلیمان نعیم نے تحریکِ انصاف کا مفلر عمران خان کے ہاتھوں سے اپنے گلے میں ڈالا۔ تصویری سیشن ہوا جس میں جہانگیر ترین بھی موجود تھے۔ اس موقع پر کپتان سے ایک غلطی ہوئی کہ جس وقت سلیمان نعیم کو تحریکِ انصاف کا حصہ بنایا جا رہا تھا بنی گالا میں مخدوم شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے۔ وہ شاہ محمود قریشی کو اُسی وقت سلیمان نعیم سے ملواتے، شکوے شکایات تمام کیے جاتے کیونکہ پارٹی کے سربراہ کو پارٹی کی بہتری کے لیے یہ اقدام کرنا چاہیے تھے۔ بہرحال سلیمان نعیم عمران خان سے ملاقات کر کے واپس ملتان آئے۔ صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں حلف اٹھانے کے بعد جب کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ آیا تو سلیمان نعیم کو دوسرے مرحلے میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا مشیر لگا دیا گیا۔سلیمان نعیم نے صوبائی اسمبلی میں شاہ محمود قریشی کو شکست کیا دی کہ اس کے نتیجہ میں ملتان شہر کے کسی منتخب رکنِ اسمبلی نے انہیں مبارکباد تک نہ دی۔ اخلاقیات کا عالم یہ ہوا کہ وہ تحریکِ انصاف کا حصہ بننے کے باوجود اچھوت جانے گئے۔ ایک طرف مخدوم شاہ محمود قریشی کی ناراضی کا خوف تو دوسری جانب سلیمان نعیم کے خلاف الیکشن کمیشن میں دو شناختی کارڈ رکھنے پر رِٹ دائر کر دی گئی۔ یہ رِٹ کس کے ایما پر دائر کی گئی اس کا نام لکھنا یہاں ضروری نہیں۔
الیکشن کمیشن نے مختلف اوقات میں اس کیس کی سماعت کرکے آخرکار مختصر فیصلہ سنایا کہ چونکہ سلیمان نعیم کی عمر کم ہے اس لیے سیٹ پر دوبارہ انتخاب ہو گا۔ نہ تو الیکشن کمیشن نے سلیمان نعیم کو نااہل قرار دے کر یہ کہا کہ وہ آئندہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے۔ اب سلیمان نعیم جب 25 برس کے ہو جائیں گے تب وہ الیکشن لڑیں گے۔ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ آتے ہی تحریکِ انصاف کے ایک مرکزی رہنما کے ہمنواؤ ں نے مٹھائی تقسیم کرنا شروع کر دی۔مبارکباد کے پیغامات تواتر سے سوشل میڈیا پر دکھائی دیئے جانے لگے۔ شہر میں یوں محسوس ہوا کہ جیسے عثمان بزدار کی جگہ پر مخدوم شاہ محمود قریشی وزیرِ اعلیٰ بننے ہی والے ہیں۔ سیاست میں نووارد محمد سلیمان نعیم نے اس فیصلہ کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اُمید ہے عدالت الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ معطل کر کے سلیمان نعیم کی صوبائی اسمبلی کی رکنیت بحال کر دے گی۔ اگر عدالت الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ برقرار رکھتی ہے تو اس نشست پر جب ضمنی انتخاب ہو گا تو کیا مخدوم شاہ محمود قریشی قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو کر صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑیں گے؟ اور اگر وہ دوبارہ اس نشست سے ہار گئے تو اس صورت میں وہ نہ صرف وزارت سے تو محروم ہو جائیں گے بلکہ قومی اسمبلی سے بھی فارغ ہو جائیں گے۔ کیا مخدوم شاہ محمود قریشی یہ ”جرات مندانہ“ فیصلہ کر سکیں گے۔ اور واقفانِ حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ طاقتور لوگ ایف بی آر کے ذریعے بھی سلیمان نعیم کے گرد شکنجہ کسوانا چاہتے ہیں تاکہ اس کو شکست دینے کی سزا دی جا سکے۔
حلقہ پی پی 217کی اس لڑائی کے بعد تحریکِ انصاف کی تنظیمی خامیاں کھل کر سامنے آئی ہیں۔سلیمان نعیم کو جب الیکشن کمیشن نے نااہل قرار دیا تو وہ تب تحریکِ انصاف کا حصہ تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی نااہلی پر تحریکِ انصاف ہی خوشیاں منا رہی ہے۔ ملتان سے کسی بھی عہدے دار میں اتنی اخلاقی ہمت نہیں تھی کہ وہ ڈھول تاشے بجانے اور مٹھائیاں بانٹنے والوں کو منع کرتے۔ تحریکِ انصاف کا یہ پہلا اقتدار ہے جس میں عجیب و غریب معاملات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اگر سلیمان نعیم الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں انتخاب نہیں لڑ سکتا تو دوسری صورت میں انہی کے والد یا چچا اُمیدوار ہو سکتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جو بھی اُمیدوار آئے گا شکست اس کا مقدر ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سلیمان نعیم کے حامی یہ سمجھ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے جو فیصلہ کیا ہے یہ سلیمان نعیم کے مدِمقابل اُمیدوار کا کیا دھرا ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے حلقہ پی پی 217 سے سلیمان نعیم کے گھر اور دفتر میں ویسا ہی رش دکھائی دے رہا ہے جو انتخابات سے پہلے نظر آتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر تحریکِ انصاف کی مرکزی قیادت سلیمان نعیم کے علاوہ کسی او رکو پارٹی ٹکٹ دے کر میدان میں اتارتی ہے تو اس بارے میں ہماری پیش گوئی ہے کہ سلیمان نعیم نے منتخب ہونے کے بعد گھر کے دروازے بند نہیں کیے تھے اس لیے اگلی جیت بھی اس کی ہو گی چاہے وہ آزاد لڑے یا تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر۔
جاتے جاتے ہمیں تحریکِ انصاف کے ان عہدےداران سے دریافت کرنا ہے کہ ان کو سلیمان نعیم کو نااہل کروا کے کیا ملا؟ سوائے اس کے کہ کچھ لوگوں نے مٹھائی تقسیم کی۔ البتہ اس فیصلے سے تحریکِ انصاف کو جو نقصان پہنچا ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو تحریکِ انصاف سے مخلص ہے۔
فیس بک کمینٹ