کلدیپ کو ہم سے جدا ہوئے بہت دن ہو گئے۔ روزنامہ ایکسپریس کا ادارتی صفحہ ان کے کالم کے بغیر اب سونا دکھائی دیتا ہے۔ وہ اگرچہ بھارت کی شہریت رکھتے تھے لیکن اُن کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ دنوں اُن کی پوتی مندرا نائر نے اپنے دادا کی وصیت کے مطابق اُن کی راکھ لاہور میں دریائے راوی کے سپرد کی۔ اس موقع پر مندرا نے کہا کہ میرے دادا ابو کی رہائش دلی میں ضرور تھی لیکن وہ روحانی طور پر لاہور کے باسی تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے مجھے یہ وصیت کی تھی کہ اُن کی راکھ کا کچھ حصہ دریائے راوی میں بھی بہایا جائے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا رہا۔ اس موقع پر ایک صحافی نے مندرا سے پوچھا ہمارے اخبارات میں کلدیپ کا نام کہیں پر نیئر اور کہیں نائر شائع ہوتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایکسپریس میں جو اُن کا کالم شائع ہوتا تھا اس میں نائر لکھا جاتا تھا جس پر مندرا نیئر نے کہا کہ اُن کا نام نائر نہیں نیئر ہے جیسے ہمارے ہاں نیئرِ تاباں لکھا جاتا ہے۔ نائر جنوبی ہند میں بولتے ہیں۔ اکثر ملیالی، پنجابی نیئر ہوتے ہیں۔ جیسے اوپی نیئر۔ اس کے علاوہ بھارت میں بہت سے لوگ نائر ہوں گے اسی لیے شاید کلدیپ کو بھی یہی سمجھا جاتا ہے۔
ایک بھارتی اُردو اخبار میں یہ بھی شائع ہوا کہ ایک ہندو کے نام کے ساتھ نیئرِ تاباں والا ”نیئر“ خلافِ قیاس سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ جس زمانے کے تھے تب فراق گورکھپوری اور محروم چند ہی نہیں کئی ہندو فارسی کے صاحبِ دیوان شاعر بھی تھے۔
یہ ساری گفتگو ہم نے اس لیے کی کہ جب سے ہم کلدیپ نیئر کی تحریریں پڑھ رہے تھے تب سے اُن کے نام کے متعلق اسی قسم کی غلط فہمی کا شکار تھے لیکن اب اُن کی پوتی نے نام کے حوالے سے ایک اہم غلطی کی نشاندہی کر دی ہے اس لیے ہمارا خیال ہے کہ اُن کا نام کلدیپ نیئر ہی لکھا جانا چاہیے۔ یوں تو اُن کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جائے گا لیکن اُن کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم کوئی تدریسی موضوع نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر غیرجانبداری سے بات کرنی چاہیے۔ سیالکوٹ جو کلدیپ کا جنم بھومی ہے وہاں ان کے والد مشہور طبی ماہر تھے اور مسلمانوں میں اتنے مقبول تھے کہ وہ چاچا کے نام سے معروف تھے۔ وہ اپنی خودنوشت ”ایک زندگی کافی نہیں“ میں لکھتے ہیں:
”اگر آزادی کے چند سال بعد پاکستان میں اقتدار پر فوج قابض نہ ہوتی تو دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ سکتی تھی۔ ملک میں فوج نے تین مرتبہ اقتدار پر قبضہ کیا جس وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری نہ آ سکی۔ نئی دلی اور اسلام آباد دونوں کو یہ احساس کرنا ہو گا کہ امن قائم کرنے کے لیے اور کوئی متبادل نہیں۔“
کشمیر کے بارے میں اُن کی رائے بڑی دو ٹوک ہوتی تھی وہ یہ کہا کرتے تھے کہ ”کشمیر کا مسئلہ نہ حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے۔ اسے باہمی تعاون اور فہم و فراست کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے معاہدے کے لیے چند تجاویز، جن سے موجودہ سرحدوں میں کوئی تبدیلی نہ ہو، انہیں دونوں اطراف کی حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستان کو جو بات ذہن نشین کر لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہندوستان کبھی بھی مذہبی بنیادوں پر ایک اور تقسیم پر رضامند نہیں ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ریاست جموں و کشمیر آئین سے باہر بھی خودمختاری حاصل کر سکتی ہے لیکن ہندوستانی وفاق سے باہر نہیں۔“
بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے جب لندن میں میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے تو اُس وقت کلدیپ نیئر کا مؤ قف بہت اہم تھا وہ کہتے تھے کہ اس میثاق کا پورے برصغیر پر اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ اس میں جمہوریت کو تباہ اور کمزور کرنے والے آمروں یا فوجی رہنماؤ ں کے بغیر جمہوریت پر زور دیا گیا تھا۔ اور عین اس وقت اس میں فلاحی ریاست کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ مجھے یہ بھی اُمید ہے کہ ایک دن یورپ جیسا معاشی اتحاد فروغ پائے گا جس میں لوگ بغیر ویزے کے آ جا سکیں گے جس کی بدولت پورے جنوبی ایشیا میں سفر کرنے اور تجارت کرنے کے مواقع میسر ہوں گے۔
مجموعی طور پر اُن کی شخصیت نظریات اور رائے کو دیکھا جائے تو وہ کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں سوچتے تھے۔ وہ یہ کہا کرتے تھے کہ جب مَیں اپنا سیالکوٹ چھوڑ کر ہندوستان داخل ہوا تو مَیں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ مَیں ایک دشمن ملک کو خیرباد کہہ کر آیا ہوں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں میرے لاتعداد دوست بستے ہیں۔ اُن کے وہاں رہنے کامطلب یہ ہے کہ میرا کچھ حصہ پاکستان میں بھی رہائش پذیر ہے۔ انہوں نے مرتے دَم تک پاکستان کے بےشمار دورے کیے اور وہ اکثر 14 اگست اور 15 اگست کی رات کو پاک بھارت سرحد واہگہ جاتے رہے، امن و دوستی کی شمعیں روشن کرتے رہے۔ یہ کام انہوں نے 1992ءمیں دس سے بارہ لوگوں کے ساتھ شروع کیا اور اب ہر سال اُن کے ساتھ ہزاروں لوگوں کا اضافہ ہوتا گیا۔ اُن کا یہی خواب تھا کہ بھارت اور پاکستان کی دوستی امن و محبت کا پیغام لے کر آگے بڑھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ کراچی میں بھارتی پارلیمانی وفد کی قیادت کر رہے تھے تو انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان اور بھارت کے لوگوں کا خون ایک ہے اور ہم پاکستان سے محبت کرنا نہیں چھوڑیں گے تو تقریب میں موجود لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ انہوں نے یہ بات دل سے کہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے اہلِ خانہ کو وصیت کی کہ میری راکھ دریائے راوی میں بھی بہا دی جائے تو انہوں نے یہ ثابت کیا کہ امن کے متلاشی لوگوں کے خون کا رنگ ایک ہوتا ہے اور امن کی تلاش کے لیے ایک زندگی کافی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے بہت سی زندگیوں کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں امن کا پودا کلدیپ اپنی زندگی میںلگا گئے اور اب اس پودے کی آبیاری کرنے کے لیے ان کی پوتی دریائے راوی کو اپنے دادا کی راکھ دے کر یہ بتا رہی ہے کہ محبت کرنے والوں کے خون کا رنگ ایک ہوتا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ