عام انتخابات کے بعد جنوبی پنجاب میں پانچ نشستوں پر انتخاب ہونا تھا، ایک نشست پر بلامقابلہ تحریک انصاف کو کامیابی مل گئی۔ باقی چار نشستیں بھی تحریکِ انصاف نے خالی کیں اس لیے خیال یہی تھا کہ چاروں نشستیں بھی پی ٹی آئی کو مل جائیں گی لیکن 14 اکتوبر 2018ءکی شام جب چاروں نشستوں کے نتائج آئے تو حکمران جماعت چار میں سے دو نشستیں ہار چکی تھی۔ جلالپور پیروالہ کی نشست پی ٹی آئی کو مل سکتی تھی لیکن تحریکِ انصاف کی مرکزی قیادت نے حلقہ پی پی 222 کے لیے جس اُمیدوار کا انتخاب کیا وہ حالیہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہار چکا تھا لیکن کیا کریں یہ اقتدار کا نشہ اچھے بھلے لوگوں کا ستیاناس کر دیتا ہے۔ پی پی222 کا معاملہ یہ تھا کہ یہ نشست ملک غلام عباس کھاکھی کے انتقال سے خالی ہوئی۔ اصولی طور پر پی ٹی آئی کو چاہیے تھا کہ ضمنی انتخابات میں یہ ٹکٹ مرحوم کھاکھی کی بیوہ کو دیتی۔ لیکن رکن قومی اسمبلی رانا قاسم نون نے نجانے اپنی مرکزی قیادت کو کیا پٹی پڑھائی کہ موصوف پی پی222 کا ٹکٹ اپنے بڑے بھائی رانا سہیل نون کے لیے لے آئے۔ فائنل صف بندی ہونے کے بعد تین اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ دکھائی دیا۔ شازیہ کھاکھی آزاد۔ قاسم عباس لنگاہ آزاد (لیکن ن لیگ کی واضح حمایت حاصل تھی) اور رانا سہیل نون پی ٹی آئی سے انتخابی جنگ شروع کر دی۔ قاسم عباس لنگاہ دو مرتبہ ایم پی اے بننے والے مہدی عباس لنگاہ کے بڑے بھائی ہیں جن کا تعلق ن لیگ سے ہے۔ آخرکار وہی ہوا جس کا تمام تجزیہ کرنے والوں نے پیش گوئی کی تھی کہ پی ٹی آئی کو اس حلقے میں شکست ہو گئی۔ رانا سہیل نون پورے اہتمام کے ساتھ ہار گئے۔ حالانکہ ان کے ساتھ جلالپور پیروالہ کے بڑے گروپ بھی تھے اسی طرح شازیہ کھاکھی کی پی پی نے بھی حمایت کی لیکن اسے فتح نہ مل سکی۔ قاسم عباس لنگاہ کو ن لیگ نے سپورٹ کیا ان کی انتخابی مہم میں سیّد جاوید علی شاہ، دیوان عاشق حسین بخاری اور محترمہ نغمہ مشتاق نے جی جان سے محنت کی اور 14 اکتوبر کی رات کو نومنتخب ایم پی اے قاسم عباس لنگاہ کے ڈیرے پر آیا آیا شیر آیا کے نعرے گونج رہے تھے اور پھر اگلے دن نومنتخب ایم پی اے قاسم عباس لنگاہ کی گاڑی میں عطاءاﷲ نیازی کا گایا ہوا یہ گیت چل رہا تھا:
جب آئے گا عمران ……..
باقی آپ ہم سے ان کی پارٹی وابستگی کے متعلق سوالات نہ ہی کریں تو بہتر ہے کہ جلالپور پیروالہ کے سیاستدانوں کا ٹریک ریکارڈ ہی ایسا ہے کہ یہ صبح کسی ایک پارٹی میں ہوتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا دوسری سیاسی جماعت کے دسترخوان پر کھاتے ہیں اور ڈنر بھی کسی نئے ڈیرے پر کرتے ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کی تمام حماقتوں کے بجائے اسے پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ قاسم عباس لنگاہ جلد ہی آستانہ عمرانیہ پر بیعت کر لیں گے۔
حلقہ پی پی 261 کا نتیجہ وہی آیا جو عام انتخابات کا تھا۔ مخدوم خسرو بختیار نے فواز احمد ہاشمی کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ دلایا اور وہ باآسانی اس نشست پر کامیاب ہو گئے۔ البتہ پی پی کے سابق ایم پی اے مخدوم ارتضیٰ حسین ہاشمی نے اپنی پارٹی کے اُمیدوار مخدوم حسن رضا ہاشمی کی مخالفت کی جس کی وجہ سے پی پی کا اُمیدوار مدِمقابل کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔
حلقہ پی پی 272 پر جو ضمنی انتخاب ہوا اس پر تمام سیاسی جماعتوں کی نظر تھی۔ یہ نشست سیّد باسط سلطان بخاری نے خالی کی تو انہوں نے اس نشست پر اپنی والدہ محترمہ زاہدہ بتول بخاری کو کھڑا کر دیا۔ عام انتخابات سے پہلے سیّد باسط سلطان بخاری اور ان کے بھائی سیّد ہارون سلطان بخاری ن لیگ کا حصہ تھے جبکہ ہارون سلطان تو شہباز شریف کابینہ کے رکن بھی تھے۔ جیسے ہی پی ٹی آئی نے تحریک صوبہ محاذ کے نام سے سیاست دانوں کو ”لوٹا“ بنانے کا منصوبہ بنایا تو سیّد باسط سلطان بخاری اس میں شامل ہوئے تو ان کے بھائی ن لیگ کا دَم بھرتے رہے۔ عام انتخابات میں جنوبی پنجاب سے ن لیگ کا صفایا ہوا تو سیّد ہارون سلطان بخاری بھی شکست کھا گئے۔ اب ضمنی انتخاب میں بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کے مقابلے پر اپنی والدہ ماجدہ کو کھڑا کیا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اہلِ حلقہ یہ کہہ اٹھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اگرچہ اپنے بیٹے کے مقابلے میں ماں نے انتخابی مہم نہیں چلائی البتہ بڑا بھائی میدان میں اپنے ہی بھائی کے خلاف ڈٹا رہا اور پھر جب رات کو نتیجہ آیا تو ماں نے روتے ہوئے کہا مجھے اس جیت پر کوئی خوشی نہیں ہوئی کہ کبھی ماں بیٹے کا بھی مقابلہ ہوتا ہے۔ یاد رہے یہ بات اس بزرگ خاتون نے کہی جس کا شریکِ حیات سیّد عبداﷲ شاہ بخاری کبھی اپنے علاقے میں سیاست دانوں کے جھگڑے ختم کرایا کرتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد خاندان پر ایسا زوال بھی دیکھنے کو ملا کہ رکن صوبائی اسمبلی بننے کے لیے ماں اور بیٹا آمنے سامنے آن کھڑے ہوئے۔
پی پی 292 ڈیرہ غازی خان کا ضمنی انتخاب بھی چچا اور بھتیجے کے درمیان ہوا۔ ایک طرف سردار مقصود خان لغار ی تھے جن کے بیٹے محمد خان لغاری نے قومی اسمبلی کی نشست اپنے پاس رکھ کر صوبائی اسمبلی کی نشست خالی کر کے اپنے والد کو میدانِ کارزار میں اتار دیا۔ دوسری جانب سردار اویس لغاری ن لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہو گئے۔ اویس لغاری کو سب سے پہلے اس بات پر داد دینی چاہیے کہ انہوں نے برے حالات میں بھی ن لیگ کا دامن پکڑے رکھا اور اُسی پارٹی کی وابستگی لے کر اپنے چچا کے سامنے آ گئے۔ تحریکِ انصاف کی چند روزہ حکومت سے جنوبی پنجاب کے عوام اتنی جلدی تنگ آ گئے کہ انہوں نے ڈیرہ غازی خان سے فوراً ہی اویس لغاری کو واضح اکثریت دی کہ آنے والے دنوں میں عوام کے موڈ کا بھی بتا دیا۔
ابھی حکومت کے سو دن اور ہنی مون کا دور چل رہا ہے۔ پی پی 292 میں بزدار قبائل کی تین یونین کونسل میں سردار مقصود لغاری کو شکست ہوئی ہے جس سے عثمان بزدار کی رِٹ کمزور ہونے کا تاثر مل رہا ہے ویسے بھی عثمان بزدار کو تخت لاہور اتنا پسند آ گیا ہے کہ وہ خود ہی کہتے پھرتے ہوں گے
اَساں قیدی تخت لہور دے
لیکن اس مربہ قید کا انتخاب عثمان بزدار نے خود کیا ہے ورنہ ایسی بھی کیا بات ہے کہ وہ وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد ابھی تک جنوبی پنجاب کے دورے پر نہیں آئے۔ اگر وہ واقعی بااختیار ہیں تو انہیں اپنے حلقہ کا دورہ فوراً کرنا چاہیے کہ حلقہ کے عوام ان کی شکل ہی نہ بھول جائیں۔
فیس بک کمینٹ