مَیں نے کئی برس پہلے ایکسپریس کے انہی صفحات پر روحی بانو کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا کہ وہ بے خودی کے عالم میں لاہور کی سڑکوں پر مانگتی ہوئی دکھائی دیں۔ تو مجھ سے رہا نہ گیا اور مَیں نے روحی بانو کی زندگی میں ہی اُس کا مرثیہ لکھ دیا تھا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ روحی بانو کی یہ کیفیت 2005ءمیں اُن کے اکلوتے بیٹے علی کے قتل کے بعد ہوئی۔ جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ اس کو پہلی مرتبہ قتل تب کیا گیا جب اُس کی پہلی شادی ناکام ہوئی۔ دوسری بار وہ تب مار دی گئی جب ایک بڑے زمیندار نے اپنی ہوس بجھا کر اسے گھر سے باہر نکال دیا۔ وہ حساس، باشعور اور تعلیم یافتہ خاتون تھیں اپنی توہین برداشت نہ کر سکی اور بیمار ہو گئی۔ کبھی وہ فاؤنٹین ہاؤس لاہور میں پائی جاتی تو کبھی کسی ہسپتال کے اُس وارڈ میں جہاں پر اُس کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہ ہوتا تھا۔ اور کتنی تکلیف دہ یہ بات ہے کہ جب وہ مر گئی تو بے شمار لوگوں نے فیس بک پر لکھا
روحی بانو مر گئی خدا کرے یہ خبر سچی ہو
روحی بانو کو یہ حالات کیوں دیکھنے پڑے؟ کیا حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی؟ کیا ثقافت سے وابستہ ادارے اس کی اس صورتحال سے بے خبر تھے؟ ٹیلیویژن والوں نے روحی بانو کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب سب کے پاس ہیں۔ مشرف کے زمانے میں چوہدری پرویز الٰہی نے اُن کی دس لاکھ روپے کی امداد کی۔ جب بھی حکومت کو روحی بانو کے لیے دستک دی گئی وہ اُن مدد کے لیے آئی۔ احمد بشیر کی بیٹیاں تو اس کی بہت قدردان تھیں۔ بشریٰ انصاری ہو یا اسما عباس دونوں نے کئی مرتبہ اس کو گمنامی سے باہر لانے کی کوشش کی۔ مَیں نے یہ بھی دیکھا کہ اسما عباس کے ایک پروگرام میں وہ اسے اور اس کی ٹیم کو گالیاں دے رہی تھی لیکن وہ بڑے صبر و تحمل سے روحی بانو کے ساتھ کھڑی رہی۔ کہ شیزوفرینا میں مبتلا روحی بانو کوئی معمول کی زندگی تو نہیں گزار رہی تھی۔ اس کے چاہنے والے ہوں یا حکومتی ادارے اس بہن روبینہ یاسمین سب نے روحی بانو کے لیے بہت کچھ کرنا چاہا لیکن اس نے تو اس دن مرنا شروع کر دیا تھا جب اس کے ہاتھ میں پہلی شادی کے بعد طلاق کے کاغذات آئے تھے۔ اس نے چاہا کہ وہ بیٹے کے ساتھ باقی زندگی گزار لے، کسی سفاک نے اس کے گھر پر قبضہ کرنا چاہا اور جب وہ ناکام ہوا تو بیس سالہ علی کو موت کے گھاٹ اتار کے بھاگ گیا۔ روحی بانو چیخی، چلائی عدالتی ایوانوں میں جا کر دستک دیتی رہی کہ مجھے میرا بیٹا انصاف کی صورت میں واپس دلا دو۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ہمارے ملک میں انصاف گم ہو چکا ہے۔ وہ اُن لوگوں کے ساتھ جینا نہیں چاہتی تھی جنہوں نے اس کے جوان بیٹے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی لیے اس نے ایک کتا پال لیا۔ اسی کو اپنا دوست کہتی تھی، جس برتن میں کتا کھانا کھاتا تھا اسی برتن میں وہ بھی کھانا کھانے لگی۔ اسے معلوم تھا کہ یہ جانور اس کے ساتھ وفا کرے گا۔ روحی بانو کی یہ کیفیت دیکھ کر ہم روتے رہے۔ اپنے چہرے کو جھوٹےآنسون سے سجاتے رہے۔ اور یہ بھی سوچتے رہے یہ کب مرے گی، اس کا تعزیت نامہ کب لکھیں گے۔ کبھی کبھار جب اس کے بارے میں تکلیف دہ خبر آ جاتی تو ہم حیران ہو جاتے کہ یہ ابھی تک زندہ کیوں ہے؟ ہم قلم کے مزدوروں کو اس پر لکھنے کے لیے کالم کے لیے مواد کب آئے گا۔ یہ سفید لباس کیوں نہیں اوڑھ رہی؟ یہ ہمیں بار بار زندہ کیوں دکھائی دیتی ہے۔ اسے تو ہم نے بہت عرصہ پہلے مار دیا تھا۔ یہ سانس کیوں لے رہی ہے؟ یہ باتیں کیوں کر رہی ہے؟
وہ باتیں کیوں کر رہی تھی؟ اسے پاگلوں کی طرح باتیں کرنے کا ہنر اداکاری سے ملا تھا۔ وہ بہت سے ڈراموں میں پاگل بنی تھی۔ بیمار بنی تھی، کبھی ٹی بی، کبھی کینسر کی، کبھی دمے کی۔ ان میں سے تو کوئی بیماری اسے نہ ہوئی۔ وہ تو اپنی یادداشت کھو بیٹھی تھی۔ اب اس کے چہرے پر آنسو نہیں آتے تھے۔ تاثرات سے بھرے ہوئے اس خوبصورت چہرے پر اب صرف اداسی دکھائی دیتی تھی۔ اس کی خوبصورت اور ملائم آواز میں تلخی آ گئی تھی اور تلخی کیوں نہ آتی کہ ہم نے اس کو سوائے دُکھوں کے اور تو کچھ دیا نہیں تھا۔ ایک صدارتی ایوارڈ جو اسے 14 اگست 1981ءکو ملا۔ کیا کوئی صدارتی اعزاز بھوک کم کرسکتا ہے؟ سکھ دے سکتا ہے؟ نہیں۔ کچھ بھی نہیں۔ یہ سب دھوکا ہے، فریب ہے اور روحی بانو نے یہ سب دکھ جھیلے اور جھیلتے جھیلتے پتہ نہیں کہ وہ ترکی کے شہر استنبول کیسے پہنچ گئی؟ جس کو اپنے گھر کا پتہ نہیں تھا، اپنے شہر کا علم نہ تھا جو اپنے آپ سے بے خبر ہو چکی تھی اس نے اتنا لمبا سفر جینے کے لیے کیا یا مرنے کے لیے؟ یہ سوال مَیں تب سے کر رہا ہوں جب سے روحی بانو کے باضابطہ مرنے کا اعلان ہوا ہے۔ وہ وہاں کس کے ساتھ گئی۔ اس دنیا میں اس کا ایسا کونسا چاہنے والا تھا جو اسے وہاں لے جا کر زندگی میں واپس لانا چاہتا تھا۔ اس کا کھوج بھی لگایا جائے کہ وہ استنبول کیسے پہنچی؟ اگر حکومت روحی بانو کی بہن کے مطابق اس کی نعش کو واپس پاکستان لے آتی ہے تو ایک اعلان کیا جائے کہ روحی بانو کی تدفین پر کوئی آنسو نہ بہائے کہ اس نے اپنی زندگی میں اپنے ہی دکھوں پر اتنے آنسو بہا لیے تھے کہ اگر اب کوئی اُس کے مرنے پر دکھی ہو گا یا آنسو بہائے گا تو وہ ڈرامہ کرے گا بالکل ایسے جیسے وہ کسی زمانے میں اداکاری کیا کرتی تھی اور لوگ اسے دیکھ کر کبھی ہنسا کرتے تھے تو کبھی رویا کرتے تھے بس یہ سوچ کر مَیں کہتا ہوں کہ مجھے روحی بانو کے لیے رونا نہیں ہے۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )