سائرہ راحیل خان نے جب یہ لکھا ”مَیں بغیر کوئی کتاب پڑھے کہانیاں لکھتی رہی اور اپنے عظیم والد محترم شاہد راحیل خان کے سامنے رکھتی رہی کہ زندگی کے اس سفر میں جہاں پر امی جان نے ہر مرحلے پر میری تربیت کی تو دوسری جانب ابوجان نے پہلی جماعت سے لے کر ایم اے تک میرا حوصلہ بڑھایا۔ بظاہر میرے پاس ایم اے ابلاغیات اور ایل ایل بی جیسی ڈگریاں ہیں لیکن میری اصل ڈگریاں تو میرے والدین کی محبت، بھائیوں کا ایثار، شریکِ حیات کا ہر وقت ہم قدم رہنا اور بچوں کا ساتھ ہے جنہوں نے مجھے قدم قدم پر آگے بڑھنا سکھایا۔ مَیں ان سب کی شکر گزار ہوں۔“ تو مَیں نے ”رقصاں ہے زندگی“ کا مطالعہ شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ سائرہ راحیل خان نے اپنے بچپن اور جوانی میں جو کچھ دیکھا اور سنا اپنی والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد اس میں تحریر کر دیا۔ سائرہ راحیل خان نے بظاہر مختصر کہانیاں لکھی ہیں لیکن ہر کہانی مکمل کہانی ہے۔ اس کے ہاں کہانی میں بار بار خوبصورت مکالمہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے اور یہی انداز اس کو باقی لوگوں سے جدا کر دیتا ہے۔ وہ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد سے بہت متاثر دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کہانیوں میں کہیں نہ کہیں پر ان دونوں لکھنے والیوں کا اثر دکھائی دیتا ہے۔
مَیں نے جب اُن کی کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو آغاز میں ہی انہوں نے اپنی والدہ کے لیے نظم لکھی ہے۔ وہ نظم نہیں بلکہ ماں کی جدائی کا مرثیہ ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ سائرہ آج بھی ایک چھوٹی بچی ہے اور وہ ماں کی گود میں بیٹھی فرمائشیں کر رہی ہے۔ سائرہ راحیل خان لکھتی ہیں:
”امی! میری پیاری امی، کہاں ہو تم؟ وہ جو پریوں کی نگری کی کہانی تم سناتی تھی، بھلا کیا اب وہاں ہو تم؟ کوئی چٹھی ہی لکھ ڈالو، کوئی پیغام بھجوادو، مَیں خود ملنے تمہیں آؤں، میری امی! جہاں ہو تم، ذرہ تم آ کے دیکھو تو، تمہارا سب یہیں پر ہے، تمہارے ہاتھ کی چوڑی، تمہارے کان کی بالی، تمہاری چائے کا وہ کپ، تمہارے کھانے کی تھالی، وہ تکیہ بھی وہ چادر بھی، وہ مسہری بھی بچھونی بھی، وہ عدی بھی وہ ہنی بھی، وہ مہوش بھی وہ سونی بھی، ہر اک شے میں تمہاری یاد، جہاں دیکھوں وہیں ہو تم، سبھی کچھ ہے میری امی! مگر دیکھو نہیں ہو تم،، تم دیکھو تو ذرا آ کر کہ کیا حالت ہماری ہے، تمہی کو ڈھونڈتا ہے دل، ہر لمحہ بے قراری ہے، جو آنکھیں بند کرتی ہوں، تو بھی صورت تمہاری ہے، مجھے سب لوگ کہتے ہیں، کہ رکھوں حوصلہ تم بن، چلا جائے جو اتنی دور، پلٹ کر پھر نہیں آتا …. تمہاری یاد کا منظر، ان آنکھوں سے نہیں جاتا، صبر کرتی ہوں امی جی، مگر پھر بھی نہیں آتا؟؟؟؟؟؟“
یہ پڑھنے کے بعد آپ ایک بیٹی کے اپنی ماں کے بارے میں جذبات بخوبی جان سکتے ہیں۔ اور اسی قسم کا اسلوب ان کے ہر افسانے میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ کہانیوں کے کردار باہر کی دنیا سے نہیں لاتیں بلکہ اپنے اردگرد پھیلے ہوئے کرداروں سے کہانیوں کی بُنت کرتی ہیں۔ کبھی کہانیوں میں درد نظر آتا ہے کہیں پر قہقہہ۔ اس کی کہانیاں باغ میں اڑتی ہوئی تتلیوں کا منظرنامہ بھی ہے اور رات گئے خاموشی کے عالم میں خودکلامی کا ایک منظر۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر کہانی مجھے ایک نئی جہت سے ملاتی ہے۔ میری ذات کے کچھ ایسے پہلو جن سے مَیں خود بھی ناآشنا تھی مَیں نے ان کہانیوں سے سائرہ راحیل خان کو تلاش کیا، اس سے ملاقات کی، اس کو پہچانا اور پھر مَیں نے زندگی میں رقص ہونے والے دُکھوں کو رقم کیا۔ وہ ایک ماہر لکھنے والے کی طرح اس کتاب میں دکھائی دیتی ہیں۔ اور یوں لگتا ہے جیسے وہ جنم جنم کی لکھاری ہیں اور لکھنے کا ہنر اُن کی گھٹی میں تھا۔ زندگی کے سفر میں سائرہ کو جب لکھنے کی فرصت ملی تو اس نے اس فرصت کا بہترین استعمال کیا اور خوبصورت کہانیاں لکھ کر ہمارے سامنے لے آئیں۔ اسی لیے تو نامور ادیب، نقاد، محقق اور افسانہ نگار حفیظ خان نے لکھا ”سائرہ کی کہانیوں کی بنت کا اپنا ایک لطف ہے جو قاری کے تجسس اور دلچسپی کو آخری جملے اور آخری لفظ تک پھیکا نہیں پڑنے دیگی۔ ان کی کہانیاں پڑھتے ہوئے قاری کو کہانیاں تلاش نہیں کرنا پڑتی بلکہ کہانیاں ان کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ کسی دوست کی طرح احساس کو گدگداتے ہوئے اور کبھی آنکھوں کے گوشے بھگوتے ہوئے۔ سائرہ کی کہانیاں بجا طور پر آج کی نسائی فکر کا مکاشفہ ہیں۔
آئیے رقصاں ہے زندگی کو اپنی زندگی کی کتاب کا حصہ بنائیں کہ مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہو گا یہ تو آپ کی زندگی کی باتیں ہیں ہماری زندگی کی کہانیاں ہیں، اور اسی میں ہم رقص کر رہے ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ