آج اس اقبال ارشد کا ذکر کرنا مقصود ہے، جواردو شاعری کاخوبصورت اور البیلا فرد تھا ،وہ اقبال ارشد جس کی خوبصورت شاعری سننے کے لئےلاکھوں چاہنے والے بے قرار رہتے تھے ان کو ہم سے بچھڑے دو برس ہو گئے ۔ ان سے آخری ملاقات تقریبا دو برس پہلے ہوئی، جس میں رضی الدین رضی، نوازش علی ندیم ،اسرار احمد چودھری ،تحسین غنی اوران کی انتھک بیٹی مدیحہ بتول موجود تھی، اس ملاقات میں ہم سب نے ان کو ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن ہمیں کامیابی نہ ہوئی ، وہ اقبال ارشد جس کی آواز گھرمیں ہو یا کسی محفل میں ،سب سے نمایاں ہوتی تھی،اور وہی اقبال ارشد جس نے یہ کہا تھا،
میں نے تو ہلکی سی دستک سے پکارا تھا اسے
شہر سارا نیند سے بیدار کیسے ہو گیا
وہ اس دن بے سدھ پڑے تھے،ان کے کمرے میں چھ لوگ انھیں نیند سے بیدار کرنے کی لگن میں تھے، اور وہ بے خبر اور بیماری کی وجہ سےخاموش تھے، گرم ماتھا ،آنکھیں معصوم بچوں کی طرح بند اور ان کی خدمت گزار بیٹی مدیحہ بتول پر امید تھی ،وہ نم آنکھوں سے کہہ رہی تھی بھائی جان ابی جان ٹھیک ہو جائیں تو پھر نئے گھر کی خوشی میں مشاعرہ رکھیں گے۔ ایک طرف سے تحسین غنی کی آواز آئی کہ کل تک جب وہ ہسپتال میں داخل تھے تو غنودگی میں صرف رضی اور شاکر کو یاد کرتے رہے۔
میں نے تحسین غنی سے یہ سنا تو اپنا چہرہ ان کے چہرے کے قریب کر کے کہا
اقبال بھائی آنکھیں کھولیں آپ کے دلدار حسین سحر کی دوسری برسی آگئی ہے، اور آپ نے ان کی یادوں کو تازہ کرنا ہے ۔میں اقبال ارشد کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر ان سے باتیں کرتا رہا اور اس دوران مجھے یہ خیال ہی نہ رہا، اقبال بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے میری اپنی آواز بھی بھرا گئی ہے، اس وقت آنکھیں اٹھا کر جب میں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو معلوم ہوا کہ کمرے میں موجود ہر شخص اپنے آنسو صاف کر رہا ہے ۔
اقبال ارشد کو میں اقبال بھائی تو کبھی انکل کہتا تھا ۔ کہ وہ جب میرے سامنے پروفیسر حسین سحر کے ساتھ ہوتے تو تب انکل، ورنہ وہ میرے بھی اقبال بھائی ۔
ان کے ساتھ میری رفاقت کا سفرمیری پیدائش سے شروع ہوا تھا۔ میرے والد گرامی کو جعفر بھائی کہہ کر پکارتے، بابا ہوٹل نواں شہر ملتان میں ان کا بہت سا وقت گزرا۔ جہاں بیٹھ کر وہ شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کرتے، فی البدیہ
شعر اورطرح مصرعہ پر غزل کہنے میں انھیں ایسی مہارت حاصل تھی کہ بیک وقت کئی شاعر ان کی کہی ہوئی شاعری انہی کے سامنے پڑھ رہے ہوتے تھے۔ تو انھوں نے کبھی کسی کو یہ باور نہیں کرایا کہ وہ ان کی دی ہوئی شاعری پر داد سمیٹ رہے ہیں ۔ اقبال ارشد 22 اکتوبر1940ء کوانبالہ(بھارت) میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے ملتان آ گئے۔ ابتدائی تعلیم ملتان ہی سے حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کا امتحان پاس کیا اورپھر خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے سے منسلک ہوگئے۔ 1980ء میں ضیاءالحق نے بھٹو دور میں بھرتی ہونے والے ملازمین کو نوکریوں سے نکالا تو اقبال ارشد بھی اس کی زد میں آ گئے۔انہوں نے ازسرنوتگ ودو کی اور واپڈا کے ساتھ منسلک ہوگئے۔واپڈا میں ملازمت کے دوران وہ پہلے لاہور اور گوجرنوالہ میں تعینات رہے۔ بعد ازاں ان کاپی آراو کی حیثیت سے ملتان تبادلہ ہو گیا۔ 1990ء میں ان کے جواں سال بیٹے علی عدنان حیدر کا انتقال ہوگیا جس کے صدمے میں اقبال ارشد مسلسل گریے کے باعث اپنی بینائی سے محروم ہوتے چلے گئے۔
یہاں سے ان کی زندگی کا کٹھن دور شروع ہوا جو آخری سانس تک برقرارہا۔ اقبال ارشد نے پسند کی شادی کی تھی۔ان کی اہلیہ ثریا سلطانہ کا دو فروری 2011ءکو انتقال ہوا۔اس کے بعد وہ مکمل تنہائی کاشکارہوگئے۔ اکلوتے بیٹے کی موت کے بعد وہ کسی تقریب میں نہ جاتے تھے کہ آنکھوں کا نور بے وفا ہونے لگا، وہ اقبال ارشد جس کے بغیر کوئی تقریب نہ ہوتی تھی، وہ گھر بیٹھ گئے ۔ان کے قہقہے ہچکیوں میں تبدیل ہونے لگے ۔بینائی کے کم ہونے کی وجہ سے گھر میں قید ہو گئے، اب ان کو تقریبات میں شرکت کے لیے کسی رفاقت کی ضرورت تھی جس کو مختلف اوقات میں بے شمار دوستوں نے پورا کیا۔
ان کی یادداشت کمزور کبھی نہ رہی لیکن بیماری نے ان کی یہ خوبی بھی چھین لی ۔حسین سحر کی موت کو انھوں نے ذہنی طور پر قبول نہ کیا ۔کہ جب ہم ان کو سحر صاحب کی برسی کاکارڈ دینے گئے تو ان کو یہ یاد ہی نہیں تھا کہ ان کی برسی بھی آ گئی ہے ۔ انھیں یہ بھی یاد نہ تھا کہ اطہر ناسک ہمارے درمیان نہیں ہے، میں نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے بتایا کہ حسین سحر اور اطہر ناسک دونوں خیریت سے ہیں اور اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔
اقبال ارشد نے غزل کے علاوہ شاعر ی کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔وہ شاعری کی صنف خماسی کے بانی بھی ہیں۔ان کے شعری مجموعوں میں ” نظرانداز“، ”فصیل و پرچم “، ”منزل کی تلاش“، ”نوبہار“، ”سرمایہ حیات“، ”خماسی“، ”آبشار“، ”چاندنی کی جھیل“، ”بادلوں کے تلے“، ”کہکشاں کے درمیاں“ اور ” دکھوں کا آخری موسم“شامل ہیں۔ اقبال ارشد ریڈیو پاکستان ملتان کے ساتھ بھی فیچررائٹر ،ڈرامہ نگار اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے منسلک رہے۔ وہ طویل عرصہ تک ریڈیو پاکستان میں بچوں کے پروگرام میں ”بھائی جان “ کی حیثیت سے میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ڈاکٹرعاصی کرنالی کی وفات کے بعد ادبی بیٹھک میں جو تعزیتی ریفرنس ملتان آرٹس کونسل میں منعقد ہوا اس میں بھی اقبال ارشد شریک ہوئے۔ ان کی آخری تقریب حسین سحر کی وفات کے بعد ان کی یاد میں منعقدہونے والا تعزیتی ریفرنس تھا یہ تقریب 29 ستمبر 2016 کو منعقد ہوئی اس میں اقبال ارشد کے خطاب نے بہت سوں کو رلادیا۔۔
اقبال ارشد کی یادوں کا میرے پاس ایک ایسا جہان آباد ہے، جو کبھی بھی ان سے دور نہیں ہونے دیتا، اس کے ساتھ ملتان والوں نے بھی ان کے آخری سانس تک جس محبت کا ثبوت دیا، وہ ہمشیہ یاد رہے گا کہ جناز گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی حالانکہ جنازے میں نہ تو ان کا بیٹا تھا نہ ہی قریبی عزیز، لیکن اقبال ارشد کو4 ستمبر2018ءکوایسے سپرد خاک کیا جیسے ہمارے ہاں بڑے خاندانوں کے کسی اہم فرد کو دفنایا جاتا ہے
آخر میں اقبال ارشد کے چند اشعار
تُو اِسے اپنی تمناؤں کا مرکز نہ بنا
چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے
کُھلے دل سے جو حُسنِ یار کی باتیں نہیں کرتے
ہم ایسے عام لوگوں سے ملاقاتیں نہیں کرتا
اب اکیلے پِھر رہے ہو دشمنوں کی بھیڑ میں
مان لو تم سے سلوکِ دوستاں اچھا نہ تھا
ڈوبتی جاتی ہے کشتی ڈوبتے سورج کے ساتھ
کچھ ہَوائیں تیز تھیں کچھ بادباں اچھا نہ تھا
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ
( بشکریہ : روزنامہ خبریں )
فیس بک کمینٹ