اکتوبر کے پہلے ہفتے میں میری سالگرہ ہوتی ہے۔ہر سال میرے فون پر اس دن خوبصورت دعاؤ ں کا ایک پیغام آتا۔اس سال جو مبارک باد کا پیغام آیا۔وہ کچھ یوں تھا۔
Shakira Bhai WISHING YOU A VERY HAPPY BIRTHDAY. PARVAR DIGAR BLESS YOU WITH GOOD HEALTH, LONG LIFE AND HAPPINESS. KUSSH RAHO, SALAMAT RAHO. AMEEN. Your visit to my house I will never forget. THANK YOU. Hoshang.
میں نے پیغام پڑھنے کے بعد ہوشنگ بھائی کا شکریہ ادا کیا۔لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ مجھے ہر سال سالگرہ پر وش کرنے والے کا یہ آخری پیغام ہے کہ ملتان اور اہل ملتان سے بے لوث محبت کرنے والے "ہوشنگ جی "مختصر علالت کے بعد 27 اکتوبر 2022ء کو اپنی محبوب اہلیہ کے پہلو میں جا سوئے۔
قارئین کرام اس سے قبل آپ سے ہوشنگ کے بارے گفتگو کروں۔میں ان کے خانوادہ کے بارے بتانا چاہوں گا۔پاکستان بننے کے بعد کی مردم شماری کے مطابق 1961 میں ملتان میں 39 پارسی اور 1972 میں 70 پارسی رہائش پذیر تھے۔آہستہ آہستہ ان میں بے شمار افراد بیرون ممالک یا کراچی منتقل ہو گئے۔2011 تک ملتان میں صرف دو پارسی رہ گئے تھے۔جن میں ایک مسز بلیموریا اور دوسرے ہوشنگ پی بومن جی شامل تھے۔مسز بلیموریا چند سال پہلے انتقال کر گئیں تھیں۔ گزشتہ ہفتے شہر کا آخری پارسی ہوشنگ جی بھی چل بسا۔یوں ملتان اپنے آخری پارسی سے محروم ہو گیا۔پارسی خاندان کے مختلف افراد نے ملتان کی علمی، تہذیبی، تعلیمی، ثقافتی اور کاروباری زندگی میں بھر پور کردار ادا کیا۔منچر جی مانک جی فیملی کے پروفیسر ڈنشا ایک عرصہ تک اسلامیہ کالج ملتان میں مفت درس و تدریس دیتے رہے۔اسی طرح چلا فیملی اور بومن جی خاندان کی دو خواتین نے مل کر "دی جوئنیر سکول "کی بنیاد رکھی۔بعد میں مسز بلیموریا بھی سکول کی منجمنٹ میں شامل ہو گئی۔یوں ان تینوں خواتین کی بدولت تعلیمی معیار اور نظم و ضبط کا ایک ایسا معیار قائم ہوا کہ دی جوئینر سکول میں داخلہ بھی مشکل سے ملنے لگا۔اس سکول کے سینکڑوں طالب علموں نے پوری دنیا میں نام کمایا۔یہ سکول مسز بلیموریا نے پیرانہ سالی کی وجہ سے بند کر دیا۔لیکن ملتان کی علمی و تعلیمی تاریخ میں یہ سکول آج بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔اسی طرح ملتان کا پہلا ڈیپارٹمنٹل سٹور دادا بھائی مانک جی اینڈ سننر نے 1868 میں قائم کیا۔اس کے بعد منچر جی مانک جی کا "بزنس ہال "اور ایم بومن جی اینڈ سننر کا "وائن اینڈ جنرل سٹور "بنا۔پارسی خاندان کے بے شمار افراد ملتان سے بے تحاشا محبت کرتے تھے۔جن میں ایک نام پروفیسر ڈنشا تھے۔،( جو بھٹو دور میں ایم پی اے بھی رہے، بھٹو صاحب جب بھی ملتان آتے تو پروفیسر ایرج ڈنشا کو لازمی بلا لیتے )جنہوں نے ملتان کی محبت میں خود کو وقف کر رکھا تھا۔اور ملتان میں ہی دفن ہوئے۔اور مانک جی بومن جی کے انتقال کے بعد ہوشنگ جی کے والد پیسن جی مانک جی نے کاروبار جاری رکھا۔حالات کے مطابق اس میں تبدیلیاں کرتے رہے۔میری ہوشنگ جی سے پہلی ملاقات پارس ڈرائ کلینرز پر ہوئی۔جب چچا افتخار حسین کی شادی کا سوٹ ہم پارس ڈرائی کلینرز سے اٹھانا بھول گئے تھے۔بارات کی لاہور روانگی سے قبل یاد آیا کہ دولہا میاں کا سوٹ تو پارس ڈرائی کلینرز پر رہ گیا۔تب ہوشنگ جی کی رہائش پارس ڈرائی کلینرز کی بیک پر تھی۔میں نے ان کے گھر جا کر مجبوری بتائی۔انھوں نے ماتھے پر بل لائے بغیر سوٹ کی رسید مانگی۔اور اگلے لمحے شوروم سے سوٹ نکال کر مجھے تھما دیا۔
1987 میں ہوشنگ جی کی پراپرٹی کے برابر جب حسن آرکیڈ بنا۔تو کتاب نگر کے بنتے ہی میں ان کا ہمسایہ ہوگیا۔یوں ہوشنگ جی کی فیملی، مسز بلیموریا اور پروفیسر ڈنشا باقاعدگی سے کتاب نگر آنے لگے۔ہوشنگ جی کے ساتھ تعلق اس لئے بھی بن گیا کہ وہ باقاعدگی سے اپنی اہلیہ کے ہمراہ تشریف لاتے۔سرخ وسفید رنگ، چہرے پر عینک، پینٹ شرٹ پہنے ہوئے ہوشنگ جی کبھی پیدل آتے تو کبھی سائیکل پر۔
یوں تو پورا ملتان ہی ان سے محبت کا دعوٰی دار ہے۔لیکن ان کی بیٹھک میں باقاعدگی سے معروف شاعر مقبول قریشی دکھائی دیتے۔مقبول قریشی خود بھی سائیکل پر پورا شہر گھومتے۔لیکن وہ جب ہوشنگ جی کے ساتھ بیٹھتے تو وقت گزرنے کا احساس نہ رہتا۔ایک دن میں نے پوچھا کہ پارس ڈرائی کلینرز کا ملتان میں ایک مقام تھا۔ہزاروں افراد اس کے گاہک تھے۔کبھی اس کاروبار کی یاد آئی؟کہنے لگے کہ پارس ڈرائی کلینرز کو کیسے بھول سکتا ہوں۔خاص طور پر جب لوگوں کے کپڑوں سے قیمتی اشیاء اور کرنسی برآمد ہوتی تو ہم ہر گاہک کو ان کی امانت لازمی واپس کرتے تھے اگر کوئی گاہک اپنی چیزیں واپس لینے نہ آتا تو کئی برس تک اس کا انتظار کرتے۔
ہوشنگ جی کو اپنی اہلیہ کے ساتھ جنون کا عشق تھا۔ان کی اہلیہ "ہومائے "کا انتقال کینسر سے 6 نومبر 1993 کو ہوا۔تب سے لے آخری دن تک ہوشنگ بھائی نے اپنی زندگی کے دن گن کر گزارے۔جب بھی ملاقات ہوتی وہ اپنی اہلیہ کا ذکر لازمی کرتے۔اکثر کہتے کہ بھر پور مالی وسائل ہونے کے باوجود میں اسے نہ بچا سکا۔اہلیہ کی ناگہانی موت کے بعد ہوشنگ بھائی نے ڈاکٹر ابرار احمد جاوید، شیخ نذیر احمد، ڈاکٹر احمد اعجاز مسعود اور دیگر احباب کے ساتھ مل کر کینسر سوسائٹی بنائی۔جس کا مقصد کینسر میں مبتلا مریضوں کی امداد کرنا تھا۔یہ سوسائٹی آج بھی اسی مشن کے تحت کام کر رہی ہے۔کہ زیادہ سے زیادہ کینسر کے مریضوں کا علاج مفت ہو سکے۔یہ سوسائٹی ایک عرصے تک کینسر ڈے پر واک کا اہتمام کرتی۔اسی طرح نادار مریضوں کے علاج معالجہ میں امداد کرتی۔
وقت گزرتا رہا۔ہر چیز زمانے کے حوادث کا شکار ہو گئی۔پارس ڈرائی کلینرز اور فورڈ موٹرز کے شوروم ختم ہو گئے۔ایک جگہ کے تین حصے ہو گئے۔لیکن ہوشنگ بھائی نے کارنر والے پلاٹ پر ملتان کا طرز تعمیر کے حوالے سے خوبصورت ترین پلازہ بنا دیا۔نہ کسی بینک کا قرضہ نہ کسی سے لین دین کا جھگڑا۔کمال کی شخصیت تھے۔پلازہ دیکھنے میں مسحور کن۔لیکن شومئی قسمت پلازہ ناکام ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے ماتھے پر کبھی شکن نہ آئی کہ پلازہ مطلوبہ پذیرائی حاصل کیوں نہ کر سکا۔روزانہ معمول کے مطابق پلازہ کے دفتر میں دوستوں کی منڈلی سجی رہتی۔چائے، کافی اور کھانے کا دور چلتا۔ایک دن گیا تو ملتان کے نامور ماہر تعلیم پروفیسر ظفر الدین خان موجود تھے۔خوب گپ شپ ہوئی۔یہ کورونا کے آغاز کے دن تھے۔پروفیسر ظفر الدین خان کورونا کی وجہ سے واپس نہ جا سکے تو وہ زیادہ وقت ہوشنگ بھائی کے گزارتے۔ایک دن فون آیا کہ شاکر بھائی کسی دن گھر آ جائیں تو اکٹھے کافی پیتے ہیں۔میں اگلے دن کے گھر موجود تھا۔برآمد ےمیں انھوں نے مقبول قریشی کے لکھے ہوئے اشعار اپنی اہلیہ مرحومہ کی یاد میں فریم کی شکل میں آویزاں کر رکھا تھا۔
کنج فردوس محبت میں چھپالے مجھ کو
کرنہ بےدرد زمانے کے حوالے مجھ کو
دور ہوتے ہوئے بھی من ہےخوشبو تیری
میں مہک جاؤں جو پہلو میں بٹھا لے مجھ کو
عشق کچھ محبوب کے مرنے سے جاتا
درد بن کے روح میں رہتا ہے پر جاتا نہیں
اس ملاقات میں انھوں نے بڑی روانی سے بتایا کہ آج میری اہلیہ کو مجھ سے بچھڑے اتنے سال، اتنے ماہ، اتنے ہفتے اور اتنے گھنٹے ہو چکے ہیں۔کمرے میں جابجا ان کی فیملی کی تصاویر رکھی تھیں۔کچھ کتابیں، اور صاف ستھرا کمرہ ان کے ذوق کی گواہی دے رہا تھا۔
ہر عید، نئے سال پر مبارکباد کا پیغام لازمی بجھواتے۔ان کا میرا آخری رابطہ سات اکتوبر 2022ء کی صبح برتھ ڈے کی وش کے ساتھ ہوا۔پھر 25 اکتوبر کو معلوم ہوا کہ وہ مقامی ہسپتال میں آئی سی یو وارڈ میں داخل ہیں۔27 اکتوبر کو ملتان سے باہر تھا۔تو اسی دن وہ اہلیہ کے پہلو میں جانے کے لیے موت کے منہ میں چلے گئے۔ آخری رسومات اگلے دن ہوئیں۔اور یوں سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی کے گھر کے سامنے بارہ کنال پر پھیلے قبرستان میں پارسی خاندان کا آخری فرد رزق خاک ہوا۔کہ اب اس قبرستان میں دفن ہونے کے لئے شہر میں کوئی پارسی مقیم نہیں ہے۔
فیس بک کمینٹ