کم و بیش 15برس پہلے کی بات ہے برادرم جبار مفتی نے اپنے ادارے کی طرف سے مشاعرے کا انعقاد کیا۔ نظامت کی ذمہ داری ہم نبھا رہے تھے۔ صدارت سرائیکی کے نامور شاعر احمد خان طارق کے حصے میں آئی۔ یہ ہماری اُن سے پہلی ملاقات تھی۔ مشاعرے میں 40 سے زیادہ شعراء کرام نے شرکت کی۔ بطور صدرِ محفل جب احمد خان طارق نے اپنا کلام سنایا ہال میں موجود حاضرین نے جی کھول کر اُنہیں داد دی۔ مَیں بھی پہلی مرتبہ اُن کو سن رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے:
اساں کلھیاں پڑھ پڑھ انج رہ گئے جُل کہیں دے کول نماز پڑھوں
ہتھ بَدھ بھان59ویں ہتھ کھول پڑھوں اے پھول نہ پھول نماز پڑھوں
ہتھ تسبیح مسجد رقص کروں پاگل وچ دول نماز پڑھوں
جتھاں طارق! دَڑکے نہ ہووِن اوہا مسجد گول نماز پڑھوں
مشاعرے کے بعد کھانا کھاتے ہوئے مَیں نے احمد خان طارق سے اُن کے گھر کا پتہ پوچھا کہنے لگے ’’ڈیرہ غازی خان کے نواح شاہ صدر دین میں میرا گھر ہے آپ وہاں آ کر کسی سے بھی میرے متعلق پوچھ لیجئے گا وہ آپ کو میرے گھر پہنچا دے گا۔ مجھے اپنے شہر کے لوگ ایسے ہی جانتے ہیں جیسے کسی شہر میں پاگل کو جانتے ہیں۔‘‘ مَیں جواب سُن کر حیرت سے اُنہیں تکنے لگا اور پھر ہم بہت دیر اُن سے ہمکلام رہے۔ اُس کے بعد ملتان میں جب بھی کوئی اچھا مشاعرہ ہوتا ہم احمد خان طارق کو لازمی زحمت دیتے۔ زیادہ پرانی بات نہیں تین برس ہوئے ملتان آرٹس کونسل نے ایک سرائیکی مشاعرے کا انعقاد کیا۔ ہم نے اُنہیں زادِراہ کے طور پر ’’پانچ ہزار روپے‘‘ کی خطیر رقم پیش کی۔ اتنے کم پیسوں کی وجہ سے مَیں دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہا تھا کہ انتظامیہ نے اُن کو شایانِ شان ادائیگی نہ کی۔ چائے پینے کے بعد احمد خان طارق مجھے سائیڈ پر لے گئے اور بڑی ہی معصومیت سے کہنے لگے ’’تساں میکوں بہوں زیادہ پیسے ڈے چھوڑن۔ تہاڈی بہوں مہربانی۔‘‘ اُن کی یہ بات سُن کر مَیں پھر اپنے آپ کو کوسنے لگا کہ ہم نے احمد خان طارق کو پانچ ہزار دے کر کوئی عزت نہیں دی لیکن جب اُن کے ساتھ آئے ہوئے ایک نوجوان نے یہ کہا کہ احمد خان طارق یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ملتان میں پہلی مرتبہ ان کو اتنا زیادہ معاوضہ ملا ہے ورنہ تو وہ جب بھی یہاں آتے ہیں تقریبات کے منتظمین اُنہیں دو ڈھائی ہزار سے زیادہ ادائیگی نہیں کرتے۔ اس ملاقات کے بعد اُن سے پھر برادرم ظہور دھریجہ کے ذریعے رابطہ رہنے لگا۔ ہمیں جب بھی اُن کی شاعری کی پیاس محسوس ہوتی ہم اُنہیں ملتان آنے کی دعوت دیتے۔ اُن کی شاعری سنتے، گفتگو کرتے کچھ دیر اپنے وقت کو اُن کے ساتھ بیٹھ کر امر کرتے اور وہ پھر واپس اپنے گھر چلے جاتے۔
ایک مرتبہ ہم نے پوچھا شاعری کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ کہنے لگے ابھی زندگی کے مَیں نے پچیس سال گزارے تھے کہ مَیں رُلتا ہوا اپنے گاؤں سے ڈیرہ غازی خان آیا وہاں میری شاعری کے ایک بڑے آدمی نور محمد سائل سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے شاعری کا سائل سمجھ کر احمد خان کو احمد خان طارق بنا دیا۔ میری رات کو دن میں تبدیل کیا۔ شاعری تو مَیں کر رہا تھا لیکن مجھے ایسی جاگ لگائی کہ ہر طرف کے لوگ میری طرف آنے لگ گئے۔ نور محمد سائل کے انتقال کے بعد اُن کے بیٹے عزیز شاہد نے مجھے بڑے بھائیوں کی طرح پیار دیا۔ آج مَیں جو کچھ بھی ہوں ان دونوں ہستیوں کی وجہ سے ہوں۔
وہ سرائیکی خطے میں دوہڑے کے سب سے بڑے شاعر جانے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صنف کے ذریعے اُنہوں نے لوگوں کے خیالات کو شاعری میں باندھا اور وہ کمال کو پہنچے۔ دوہڑہ گوئی میں اُن کے برابر تو کوئی شاعر نہیں البتہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے معاصر شاعری کو نیا لحن عطا کیا۔ اُن کی شاعری میں سرائیکی علاقے کی جہاں تہذیب و ثقافت ملتی ہے وہاں روزمرہ کے مسائل بھی دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے وسیب کی محرومیوں کو بھی اپنی تخلیق کا حصہ بنایا اور حضرت خواجہ غلام فرید کی شاعری کی طرح تصوف کو ساتھ لے کر چلے۔
دو برس قبل ہمیں معلوم ہوا کہ احمد خان طارق علیل ہیں۔ ملتان سے ظہور دھریجہ، اسد محمود خان، رضی الدین رضی اور وسیم ممتاز اُن کے آبائی گاؤں گئے۔ اُن کے ساتھ بیٹھ کر چائے پی، اُن کی شاعری سنی۔ انہوں نے علالت کے باوجود ہماری فرمائشیں پوری کیں۔ تب اُن کی کتاب ’’مَیں کیا آکھاں‘‘ اُن کے سرہانے موجود تھی۔ انہوں نے ملتان سے آئے ہوئے تمام دوستوں کو کتاب دی۔ ہم نے اُنہیں سرائیکی اجرک پہنائی اور ملتان کے ادیبوں کی طرف سے نذرانہ پیش کیا اور اجازت لے کر ملتان آ گئے۔ انہی دنوں مَیں نے ایکسپریس کے صفحات پر احمد خان طارق کے لیے ایک کالم تحریر کیا جس میں مَیں نے اکادمی ادبیات پاکستان سے مطالبہ کیا کہ احمد خان طارق کا علاج سرکاری سطح پر کروایا جائے۔ کچھ عرصے بعد مجھے اُن کے بیٹے کی طرف سے پیغام ملا کہ ہمیں کسی بھی قسم کی سرکاری امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سرائیکی کے اس نامور شاعر کا علاج نہ صرف خود کروا رہے ہیں بلکہ احمد خان طارق کا حکم ہے کہ حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کر کے اُن کی عزت نفس مجروح نہ کی جائے۔ جب ہمیں اُن کے بیٹے کی طرف سے یہ پیغام ملا تو مجھے اُن کا وہ سادہ سا گھر یاد آ گیا جہاں وہ رہائش پذیر تھے اور اسی حالت میں ہی کلمہ شکر ادا کر رہے تھے۔ مَیں نے ملتان کے اہلِ قلم سے اس واقعے کا ذکر کیا تو سب نے احمد خان طارق اور ان کے خاندان کے اس رویے کو سراہا۔ اس کے بالکل برعکس سرائیکی کے میرے ہم نام شاعر نے مسلسل مانگ مانگ کر جو عالمی ریکارڈ قائم کیا وہ مجھے احمد خان طارق کے اور قریب لے گیا کہ انہوں نے تادمِ مرگ کسی کے آگے نہ ہاتھ پھیلایا اور نہ ہی حکومت کو اپنا علاج نہ کروانے کا الزام دیا۔ طویل بیماری کاٹنے کے بعد جب 10 فروری 2017ء کی صبح عمران شاکر مہروی کا اُن کی موت کے بارے میں پیغام ملا تو مجھے یاد آیا کہ چند دن پہلے عمران نے مجھے کہا تھا کہ جناب احمد خان طارق کی شدید علالت پر سرکاری اداروں کی بے حسی کے بارے میں کچھ تحریر کریں۔ ابھی مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ وہ رخصت ہو گئے۔ ایک عہد ختم ہوا لیکن اپنے پیچھے شاعری کا ایک ایسا زندہ ذخیرہ چھوڑ گئے جو رہتی نسلوں تک ذہنوں کی آبیاری کرے گا۔ اُن کی شاعری کی تفہیم آنے والے دنوں میں ہو گی۔ فی الحال آپ اُس درویش منش شاعر کے یہ دوہڑے ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کس انداز سے وہ اپنی موت کا تذکرہ کرتے رہے:
میڈے بعد مرن دے لنگھ آنویں منہ ڈیکھیں تے ڈکھلائیں چا دل وِندلائیں چا
جیندیں جیکر جھیڑے ہانی موئیں تاں رنج ونجائیں چا گال بُھلائیں چا
بانہیں دے وچ بانہیں پا کے لاش کوں چھِک گل لائیں چا بغلیں پائیں چا
میڈے طارق سُوہے کفن بنا تے لتاں ڈے دفنائیں چا فرض لہائیں چا
۔۔۔*۔۔۔
میڈی موت دا سُن لنگھ آنویں سئیں نہیں ڈینہہ لگدا مُکلاوے نال
مَیں محشر تونڑیں وِندِل پوساں تیڈے ایں جھٹ دے وِندلاوے نال
سُنڑیں آپ صدا تھی لاش دا سئیں چا منہ ڈکھلائیں بہہ پاوے نال
جڈاں طارقؔ جنج چڑھ جُلدی ہے ہوندن ہر دَم گھوٹ کچاوے نال
فیس بک کمینٹ