ابنِ کلیم سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی؟ یہ تو یاد نہیں۔ البتہ یادوں کی البم میں شروع کی ملاقاتیں آج بھی محفوظ ہیں۔ انہوں نے پل شوالہ ملتان سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹی سی دکان میں اپنا دفتر بنا رکھا تھا جہاں پر وہ خطاطی کیا کرتے تھے۔ یہ بات 1982-83ء کی ہے۔ ابنِ کلیم کے ہاں بیٹھا ہوا تھا تو وہ مختلف کتبوں پر خطاطی کر رہے تھے۔ مَیں نے مذاق میں کہا حافظ صاحب! آپ کا کتبہ کون لکھے گا؟ مسکرا کر کہنے لگے مَیں نے اپنا کتبہ خود لکھ کر سنگِ مرمر پر ڈیزائن کروا کے محفوظ کر لیا ہے۔ میرے مرنے کے بعد اُس کتبے پر صرف تاریخِ وفات لکھی جائے گی اور وہ کتبہ مکمل ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے پہلو میں رکھے سفید سنگِ مرمر کی طرف اشارہ کیا کہ یہ میرا کتبہ ہے۔ ابنِ کلیم کے ہاتھوں اُن کا اپنا کتبہ جب دیکھا تو اس پر درج ذیل عبارت دکھائی دی:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
لااِلٰہ اِلّا اﷲ محمدالرسول اﷲ
یااﷲ یامحمد
یا صدیقؓ یا عمرؓ یا عثمانؓ یا علیؓ
یافاطمہؑ یا حسنؑ یا حسینؑ
آج جو عیب کسی پر نہیں کھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رسوائی ہو
ابنِ کلیم حافظ محمد اقبال خان احسن نظامی
بعمر…….. سال
توقع سے ترے لطف و کرم و بیشتر پایا
مَیں خود شرما گیا جب اپنا دامن مختصر پایا
1970ء
ابنِ کلیم جو خطاطی کے حوالے سے پوری دنیا میں جانے گئے۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے اُن کی خطاطی کو دیکھ کر انہیں ”موجدِ خطِ رعنا“ کا نام دیا۔ وہ سراپا خطاط تھے اور خطاط بھی ایسے کہ اگر سینکڑوں خطاطی کے فن پارے رکھے ہوں تو اُن میں اُن کا فن پارہ ہمیشہ سے الگ ہی دکھائی دیا۔ وہ شاعر، ادیب، مؤلف، پبلشر، ڈیزائنر اور خوبصورت انسان تھے۔ انہوں نے کبھی کسی کے آگے وسائل کے نہ ہونے کا رونا نہیں رویا۔ اپنی پذیرائی کے حوالے سے بھی ایک درویشی رویہ رکھتے تھے۔ وہ کہنی مار کر آگے آنے کی بجائے اپنے فن کے ذریعے پوری دنیا میں معروف ہوئے۔ دور کیوں جائیں گزشتہ برس 14 اگست کو ملتان کور نے خطاطی کی ایک نمائش کا اہتمام کیا جس کا افتتاح ہاکی کے نامور کھلاڑی سمیع اﷲ خان اور اسکواش کے بے تاج بادشاہ جہانگیر خان نے کیا۔ اس نمائش کے تمام حاضرین سمیع اﷲ خان اور جہانگیر خان کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لیے بے چین تھے جبکہ یہ دونوں شخصیات ابنِ کلیم کے ساتھ تصویر بنوانے کے لیے اُن سے درخواست کرتے رہے۔ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اہلیہ جب ملتان کور کے الوداعی دورے پر آئیں تو ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ پر موجود دمدمہ پر ابنِ کلیم کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ تمام مہمانوں نے اُن کے فن پاروں کی نہ صرف تعریف کی بلکہ جنرل راحیل شریف کی اہلیہ نے کچھ فن پارے اپنے گھر کے لیے بھی پسند کیے۔ سابق کورکمانڈر ملتان لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم نے جب ملتان کے چند دوستوں کے ساتھ اپنے گھر میں صبحانے کا اہتمام کیا تو انہوں نے ابنِ کلیم سے بھی درخواست کی کہ وہ بھی اس تقریب میں تشریف لائیں۔ ایسی تمام تقریبات میں میری کوشش ہوتی تھی کہ مَیں اُن کے ساتھ رہوں تاکہ گپ شپ میں وقت گزرتا رہے۔ 1980ء سے لے کر 2017ء تک مَیں نے کبھی اُنہیں اُردو میں بات کرتے نہ دیکھا۔ وہ میرے ساتھ سرائیکی میں ہی بات کرتے تھے اور اُن کی یہ خوبی مجھے بہت بھاتی تھی۔ اُن کی اب تک پچیس سے زیادہ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک ماہنامہ بھی شائع کرتے تھے لیکن انہوں نے کبھی صحافی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں پورے پاکستان سے خطاطین کے فن پاروں کی نمائش کی گئی تو اس میں نمایاں فن پارے جنابِ ابنِ کلیم کے بھی تھے۔ وہ اپنی طرح کے منفرد خطاط تھے جنہوں نے خطِ رعنا کے ذریعے خوب سے خوب تر فن پارے بنائے جس کو پوری دنیا میں پسند کیا گیا۔ اُن کا اوڑھنا بچھونا ہی خطاطی تھا اور مَیں نے کبھی بھی اُن کو اس فن سے دور نہ دیکھا۔ انتقال سے ایک روز قبل بھی وہ معمول کے مطابق اپنے دفتر آئے۔ سارا دن کام کیا۔ رات کو گھر گئے، کھانا کھایا اور پھر تہجد کے وقت دل کا دورہ پڑنے سے 12 مارچ 2017ء کو انتقال کر گئے۔ قارئین کرام ابنِ کلیم کے فن کے بارے میں اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے بچپن میں قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد اپنے والد سے خطاطی کی تعلیم حاصل کی۔ ابھی انہوں نے اپنے والد سے 1971ء میں نسخ اور نستعلیق ہی سیکھی تھی کہ اُن کا انتقال ہو گیا۔ جس کے بعد انہوں نے خطِ کوفی، نسخ، ثلث، رقاع، دیوانی اور خطِ نستعلیق کو انہوں نے نئے سرے سے پرکھنا شروع کیا۔ انہوں نے قواعد و ضوابط کے مطابق (قطوں) کے حساب سے تختیاں رقم کیں جو اُس زمانے میں ناپید تھیں۔ جس کے بعد انہوں نے مرقع خطاطی کے نام سے ”الف“ سے ”ی“ تک حروف کی ساخت پر کتاب شائع کی جس کی دوسری جلد 1978ء میں منظرِ عام پر آئی جس میں اُن کے اپنے خط ”خطِ رعنا“ کی تختی بھی شامل تھی۔ اس خط کے متعلق وہ خود بتاتے تھے کہ ”مَیں رمضان المبارک میں تراویح ختم کر کے رات کو سوتے وقت استخارہ کرتا اور باب العلم کے وسیلے سے اپنے ربِ کریم سے مدد طلب کرتا کہ یااﷲ میری رہنمائی فرمائیں کہ مَیں ایک نیا خط ایجاد کر پاؤں۔ وقتِ شنید آ پہنچا اور مدینتہ العلم نے مجھ پر باب العلم وا کیا۔ اکثر خواب میں مجھے پھولوں کی پتیاں دکھائی جاتیں اور آواز آتی کہ پھولوں کی پتی پر غور کرو جو ایک طرف سے تکونی ہیں اور بقایا گول ہیں۔ یہ ماجرا تو میرے علم میں تھا کہ نستعلیق دو خطوں کے امتزاج سے معرضِ وجود میں آیا ہے تو کیوں نہ اب تک چھ مروجہ خطوں کو ہی ملا کر ایک نیا خط تحریر کیا جائے اور اس میں پھول کی پتی کا تصور بھی شامل کیا جائے۔ بڑے تجربات کے بعد آخرکار ”س، ص، ق، ن اور ل“ والے حروف کے نچلے حصے کو جو کہ عموماً گول یا بیضوی بنائے جاتے ان کو پھول کی پتی کی شکل دی اور حروف کی ساخت کو نئے سرے سے مرتب کیا۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد مَیں نے ایک مفرد حروف کی تختی لکھی اور بعد ازاں اسی اسلوب کے مطابق اکثر پوسٹرز اور کتابوں کے ٹائٹل کتابت کرنے لگا۔ پھول کی پتی کا تصور میرے ہر فن پارے میں واضح ہے۔“ اس خط کو دیکھنے کے بعد اسلم انصاری نے ”خطِ رعنا“ کا نام دیا۔ جس کے بعد ابنِ کلیم کی خطاطی کی شہرت ملتان تو کیا پورے پاکستان اور دنیا میں پھیل گئی۔ ابنِ کلیم کی ملتان میں موجودگی نہ صرف اہلِ ملتان کے لیے باعثِ اعزاز تھی بلکہ فن کی دنیا کے لوگ بھی اُن سے ملنے کے بعد دوبارہ ملنے کے خواہش مند تھے۔ وہ اپنے پاس بیٹھنے والوں کو ہمیشہ محبت کا درس دیتے۔ مَیں نے اپنے پینتیس سالہ تعلق میں کبھی اُن کی زبان سے کسی کے خلاف کوئی بات نہیں سنی۔ وہ قلم کے مزدور تھے اور مزدوری کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پچھلے سال 15 ستمبر کو جب پروفیسر حسین سحر کا انتقال ہوا تو وہ مسلسل میرے ساتھ رابطے میں رہ کر اُن کی یادوں کو تازہ کرتے رہے۔ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران میں کوئی تقریب اُن کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔ وہ جہدِ مسلسل کے ذریعے زندگی کو گزارتے رہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا ابنِ کلیم کے انتقال پر مَیں اُن کے بیٹوں محسن جمال، مختار علی اور مبشر کلیم سے اظہارِ تعزیت کروں یا برادرم علی اعجاز نظامی کو پُرسہ دوں۔ راشد سیال جب بھی کبھی خطاطی کے معاملے کسی مشکل کا شکار ہوتے تو وہ بھی اُنہی سے استفادہ کرتے۔ اُن کے انتقال سے صرف ملتان ہی بلکہ پاکستان ایک بہت بڑے خطاط سے محروم ہوا۔ جس انداز سے انہوں نے رزقِ حلال کے لیے تگ و دو کی اُس کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اُن کا اگلا ٹھکانہ جنت الفردوس ہی ہو گا کہ وہ ساری زندگی قرآن پاک کی خطاطی کے علاوہ اﷲ جل جلالہ، حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ و آلِ محمد ﷺ کے ناموں کے ساتھ اپنے قلم کو کینوس پر چلاتے رہے۔ اور جب ان کا قلم متبرک ناموں کی خطاطی کرتا تو مجھے اُن کے ہاتھ اُن کے چہرے کی روشن دکھائی دیتے۔ دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن کی اگلی منزلیں آسان کریں۔ بچوں کو صبر دے کہ اب ملتان میں ابنِ کلیم جیسا آرٹسٹ کوئی بھی نہیں۔ شاید انہی لمحوں کے لیے کہا گیا ہے:
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
فیس بک کمینٹ