برادرم صبیح رحمانی سے ہمارا تعلق تقریباً ایک عشرہ سے زیادہ کا ہے۔ اور ہر ملاقات میں صبیح رحمانی نعت گوئی کے حوالے سے خوب سے خوب تر خبریں سناتے ہیں۔ ان سے گزشتہ کئی برسوں سے ملاقات ربیع الاوّل میں ہوا کرتی تھی۔ اس سال وہ 12 ربیع الاوّل کے موقع پر امریکا اور کینیڈا کے دورے پر تھے تو ہم سوچ رہے تھے کہ یہ سال ان سے ملاقات کیے بغیر ہی گزر جائے گا۔ بھلا ہو برادرم خلیل احمد کا جنہوں نے اپنے والد کے چہلم پر صبیح رحمانی کو ملتان آنے کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کی جس پر گزشتہ ہفتے ہماری اُن سے سالانہ ملاقات ہو ہی گئی۔ اُن کی نعت کا ایک مشہورِ زمانہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
حضور ایسا کوئی انتظام ہو جائے
سلام کے لیے حاضر غلام ہو جائے
27 جولائی 1965ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے سیّد صبیح الدین رحمانی کی پہلی اور آخری پہچان نعت ہے۔ انہوں نے نعت گوئی کو ہی اپنا مرکزو محور بنا رکھا ہے۔ اس کے لیے وہ ایک سہ ماہی رسالہ ”نعت رنگ“ بھی شائع کرتے ہیں۔ جس کے اب تک 26 شمارے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ہر شمارہ نعت کے حوالے سے اس لیے اہم ہوتا ہے کہ اس میں وہ نئے مباحث کو منظرِ عام پر لاتے ہیں۔ وہ نعت کے بہت کڑے نقاد بھی جانے جاتے ہیں۔ اور اگر کوئی نعت کے حوالے سے سنجیدہ کام کرنا چاہتا ہے تو اسے ”نعت رنگ“ کی طرف لازمی رجوع کرنا چاہیے۔ اُن کی زندگی کا اب ایک ہی مقصد ہے کہ نعت کو حبِ رسول کے تقاضوں کے مطابق کہا اور پڑھا جائے۔ وہ نعت میں بھی تقدیس کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں نعت کے حوالے سے ایک ایسا معیار بن گیا ہے جو اس سے قبل اُردو میں موجود نہ تھا۔ صبیح رحمانی سے جب بھی کبھی ملاقات ہوتی ہے تو اُن کی گفتگو کے اندر نعتیہ مجموعوں کی معیاری شاعری کا ذکر ہمیشہ پایا جاتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نعتیہ مجموعوں میں مقدمات، دیباچے اور تقریظ کو بھی پوری احتیاط سے لکھنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کتاب کے آغاز میں پڑھنے والا سب سے پہلے انہی چیزوں کو پڑھتا ہے جس کے بعد شاعر کے کلام پر رائے بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے نعتیہ ادبی جریدے کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے دو مرتبہ صدارتی ایوارڈ عطا کیا گیا ہے۔
صبیح رحمانی کی نعت گوئی کو اگر ہم دیکھیں تو وہ معاصر شعراء سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صبیح رحمانی نے ابتدا میں اپنا کلام مولانا نیر مدنی مرحوم کو دکھایا۔ ان کے انتقال کے بعد حافظ مستقیم سے راہنمائی لیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گزشتہ تین عشروں سے نعت کے ساتھ اس انداز سے جڑے ہوئے ہیں کہ جب بھی کبھی معیاری نعت گوئی کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو صبیح رحمانی کا نام اس میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا مشہور کلام کعبے کی رونق، کعبے کا منظر اﷲ اکبر اﷲ اکبر، محافلِ نعت میں حمد کے طور پر پڑھا جاتا ہے اور ان کا بے شمار نعتیہ کلام اس وقت سینکڑوں نعت خواں حضرات پڑھ کر ایک طرف عاقبت سنوارتے ہیں تو دوسری جانب اسی کلام کے ذریعے وہ غمِ روزگار کو کم کرتے ہیں۔ صبیح رحمانی نعت کس انداز کی کہہ رہے ہیں صرف ایک نعت ملاحظہ فرمائیں:
خدا ہی جانے ہمیں کیا خبر کہ کب سے ہے
جو اُن کے ذکر کا رشتہ ہمارے لب سے ہے
نہ اُن سے پہلے کوئی تھا نہ اُن کے بعد کوئی
جدا جہاں میں نبی کا مقام سب سے ہے
ہو دل کا نور، نگاہوں کا نور، علم کا نور
ہر ایک نور کو نسبت مہِ عرب سے ہے
مری پکار درِ سیّد الوریٰ تک ہے
مرا رسول اُسی شاہِ خوش لقب ہے
نگاہِ بندہ نوازی تجھے درود و سلام
کہ تیرا لطف زیادہ مری طلب سے ہے
صبیح کو بھی اجازت ہو باریابی کی
حضور! آپ سے یہ التماس ادب سے ہے
اس نعت کو پڑھنے کے بعد آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ صبیح رحمانی نعت گوئی کے حوالے سے کس مقام پر ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی نعت کے حوالے سے ہے یہی وجہ ہے کہ تازہ ملاقات میں جب ہم نے نعت کے نئے رجحانات پر بات کی تو مَیں نے اُن سے کہا کہ ”نعت رنگ“ کا ہر شمارہ اپنے مواد کے لحاظ سے اتنا اہم ہے کہ اس پر ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپنے اس رسالے میں نعت گوئی کے نت نئے موضوعات پر جہاں مقالات شامل کیے وہاں انہوں نے خوب سے خوب تر نعتیہ کلام کو بھی رسالے کا حصہ بنایا۔ مَیں نے ان سے پوچھا کہ آپ نعت رنگ کا ہر شمارہ ایک ضخیم کتاب کی شکل میں شائع کرتے ہیں اس کے لیے وسائل کہاں سے لیتے ہیں؟ کہنے لگے :
نکل آئیں گے حل سب مسئلوں کے چند لمحوں میں
حیاتِ مصطفی کو سوچنا اوّل سے آخر تک
جب انہوں نے یہ شعر سنایا تو مجھے اپنے ہی سوال کا جواب مل گیا۔ صبیح رحمانی جہاں خود نعت کے بہت بڑے نقاد ہیں وہاں پر وہ اپنے بارے میں بھی اختلافی گفتگو اسی اہتمام سے شائع کرتے ہیں جیسے کسی اور نعت گو شاعر کے حوالے سے۔ نعت رنگ کے شمارہ نمبر26 میں خطوط کے حصے میں انہوں نے ڈاکٹر اشفاق انجم (بھارت) کا ایک طویل خط شامل کیا ہے جس میں انہوں نے شمارہ نمبر25 کے بارے میں طویل تبصرہ کیا۔ پورا خط نعت کی تنقید کے حوالے سے ایک نادر و نایاب مقالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں انہوں نے شمارہ نمبر25 میں موجود مختلف نعتیہ کلام پر بہت خوبصورت انداز سے تنقید کی ہے۔ اگر صبیح رحمانی کی جگہ پر کوئی اور مدیر ہوتا تو وہ شاید کبھی بھی یہ مقالہ شائع نہ کرتا لیکن صبیح رحمانی نعت کی تنقید کے حوالے سے ایک خاص معیار رکھتے ہیں اسی لیے وہ نعت رنگ کے خطوط والے حصے میں ہمیشہ ناقدین کی رائے کو من و عن شائع کرتے ہیں۔
صبیح رحمانی لمحہء موجود میں اُردو نعت کی تنقید و تحقیق کے علاوہ شاعر کی حیثیت سے ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کے حوالے سے نعت رنگ کے نام سے جو ادبی جریدہ شائع کر رہے ہیں اس کے لیے وہ کسی سے اشتہار نہیں لیتے کہ ان کا اپنا کہنا ہے:
حضور آپ جو سن لیں تو بات بن جائے
حضور آپ جو کہہ دیں تو کام ہو جائے
سو قارئین کرام نعت کہنے کی برکت سے صبیح رحمانی کے رکے ہوئے کام بھی ہو رہے ہیں اور اُن کی بگڑی بھی بن رہی ہے۔ اگر نعت کی نسبت سے سیّد صبیح الدین رحمانی کو ہر جگہ پر چاہا جاتا ہے تو مَیں سمجھتا ہوں اُن کے لیے یہ بھی ایک سعادت کی بات ہے۔ آخر میں صبیح رحمانی کے حوالے سے بات ختم کرتے ہوئے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ نعت سے محبت کی کوئی نسبت رکھتے ہیں تو اپنے گھر کی لائبریری کو ”نعت رنگ“ کے شماروں سے سجائیں جس سے آپ کی لائبریری نہ صرف خوبصورت ہو جائے گی بلکہ نعت کے حوالے سے وہ مواد دستیاب ہو جائے گا جس کے لیے آپ سینکڑوں لوگوں سے ملاقات بھی کر لیں تو علمی ادبی اور تنقیدی فیض نہ مل سکے گا جو نعت رنگ کے کسی ایک شمارے کے مطالعے سے مل سکتا ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ