پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپریل 1979ء کی اہمیت اس لیے ہے کہ 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی اور اس پھانسی کے اثرات اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ بھٹو کی جیل کی زندگی کے بارے میں یوں تو بے شمار مضامین، انٹرویو اور کتابیں منظرِ عام پر آئیں لیکن ان سب میں جو کتاب سب سے زیادہ پڑھی گئی وہ راولپنڈی جیل کے سابق سکیورٹی سپرنٹنڈنٹ کرنل رفیع الدین کی کتاب ”بھٹو کے آخری 323 دن“ ہے۔ یوں تو پوری کتاب پڑھنے کے لائق ہے لیکن اس کتاب کے صفحہ نمبر 191 میں وہ بھٹو صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں ”یہ دیکھ کر مَیں اُس وقت بےحد حیران ہوا کہ ایک آدمی کو اس کی پھانسی کا آخری حکم سنایا جا رہا ہے اور وہ مسکرا رہا ہے۔ اُس کو ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ہے کہ اس کو پھانسی لگایا جائے گا۔“
یکم اپریل کو 9:30 پر محترمہ شہر بانو، رخسانہ بیگم اور شبنم بیگم نے دس بجے صبح تک ملاقات کی۔ اور اسی تاریخ کو ممتاز علی بھٹو نے 11:30 سے لے کر 12 بجے دوپہر تک ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کی۔ یکم اپریل کو ہی ملاقات سے قبل بھٹو کی بہن شہر بانو نے اپنے بھائی کے لیے جنرل ضیاء سے رحم کی اپیل کی۔ جس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کی بہنیں اپنے بھائی سے ملاقات کر رہی تھیں عین اسی وقت مولانا مفتی محمود نے بیان دیا کہ ہم حکومت سے الگ ہو رہے ہیں کیونکہ ہمارے مقاصد پورے ہو گئے ہیں۔ 2 اپریل کو جنرل ضیاء نے نواب محمد احمد خان کے قتل کے تمام مجرموں کی رحم کی درخواست مسترد کر دی جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی کراچی، نوڈیرو اور لاڑکانہ کی رہائش گاہوں پر مارشل لاء حکام نے چھاپے مارے جس کے بعد سرکاری طور پر یہ اعلان کیا گیا کہ اُن تمام گھروں سے انتہائی خفیہ دستاویزات برآمد ہوئی ہیں۔ 2 اپریل کو جب جنرل ضیا نے پانچوں مجرموں کے رحم کی درخواستیں مسترد کیں تو اُس دن جیل میں ذوالفقار علی بھٹو سے کسی بھی عزیز و اقارب کی ملاقات نہ کرائی گئی۔ البتہ 3 اپریل کی صبح بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کو جیل سپرنٹنڈنٹ نے اطلاع کی کہ آج آپ نے ذوالفقار علی بھٹو سے آخری ملاقات کرنا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھٹو خاندان کے نبی بخش بھٹو، پیر بخش بھٹو، مسٹر اینڈ مسز منور الاسلام اور پرویز علی بھٹو راولپنڈی میں موجود تھے اور وہ بھٹو سے آخری ملاقات کے منتظر تھے۔ جیسے ہی بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی آخری ملاقات تمام ہوئی تو حکومت نے جیل حکام کو پیغام دیا کہ بھٹو صاحب سے اب کسی اور رشتہ دار کی ملاقات نہیں کروائی جائے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو SMLA کے حکم کے مطابق 3 اپریل کو جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد، سکیورٹی بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل رفیع الدین، مجسٹریٹ درجہ اول بشیر احمد خان اور جیل ڈاکٹر صغیر حسین شاہ نے سیل میں جا کر بھٹو کو پھانسی کی اطلاع کرنا تھی۔ یہ تمام لوگ 3 اپریل شام چھ بجے سیل میں داخل ہوئے۔ بھٹو صاحب گدے پر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کا سر اور کندھے سیل کی شمالی دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ان کو دیکھتے ہی سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد نے درج ذیل حکم پڑھ کر سنایا۔
”آپ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے 18 مارچ 1978ء کو نواب محمد احمد خان کے قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ آپ کی اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان نے 6 فروری 1979ء کو نامنظور کر لی اور ریویو پٹیشن کو بھی 24 مارچ 1979ء کو نامنظور کر دیا گیا۔ صدرِ پاکستان نے اس کیس میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے اب آپ کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔“
جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے سیل میں سپرنٹنڈنٹ جیل یار محمد کی آواز میں حکم نامہ سنایا جا رہا تھا بھٹو صاحب گدے پر اسی طرح بغیر کسی گھبراہٹ اور پریشانی کے لیٹے رہے۔ اس دوران ان کے جسم اور چہرے پر ڈھیلا پن اور مسکراہٹ نمایاں ہوئی۔ جس کے بعد بھٹو نے کہا کہ مجھے میری پھانسی کا کوئی لکھا ہوا حکم ابھی تک نہیں دکھایا گیا۔ مَیں اپنے وکلاء سے ملنا چاہتا ہوں۔ میرے دیگر رشتے داروں کو بھی مجھ سے ملنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ میرے دانت بہت سخت خراب ہیں اور مَیں اپنے معالج ڈاکٹر ظفر نیازی سے بھی ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کی یہ باتیں سننے کے بعد مجسٹریٹ درجہ اول بشیر احمد خان نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا اگر آپ اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو کاغذ قلم فراہم کر دیا جائے گا۔ جس وقت یہ سب لوگ بھٹو کے سیل کے نکل رہے تھے تو اسی دوران انہوں نے اپنے مشقتی عبدالرحمن کو آواز دی اور کہا شیو کے لیے گرم پانی لایا جائے۔ مَیں اپنے اﷲ تعالیٰ کے سامنے صاف ستھرا ہو کر جانا چاہتا ہوں۔ پھر انہوں نے کرنل رفیع سے کہا یہ کیا ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے جس کے جواب میں انہوں نے کہا مَیں نے کبھی آپ کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ جس پر بھٹو نے کہا کیا مطلب؟ کرنل رفیع نے کہا ’جناب آپ کے بارے میں آخری حکم مل گیا ہے اور آپ کو آج ہی پھانسی دی جا رہی ہے۔‘ ان کے چہرے پر پیلاہٹ اور خشکی آ گئی۔ آنکھوں میں وحشت دیکھ کر کرنل رفیع خاموش ہو گئے۔ جس پر بھٹو نے کہا کس وقت؟ کرنل رفیع نے اپنے ہاتھوں کی سات انگلیاں بھٹو کے سامنے کیں جس پر بھٹو نے کہا کیا سات دن بعد؟ کرنل رفیع نے نزدیک ہو کر بتایا جناب سات گھنٹے۔
اس کے بعد بھٹو صاحب کو بتایا گیا کہ اب آپ اپنی اہلیہ اور بیٹی سے آخری ملاقات کریں گے۔ 3 اپریل رات 8 بج کر 5 منٹ پر ان کے مشقتی عبدالرحمن نے بھٹو صاحب کی فرمائش پر کافی کا کپ بنا کر دیا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ رحمن کو دیکھ کر بولے مجھ سے اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو معاف کر دینا۔ مَیں اب چند گھنٹوں کا مہمان ہوں۔ مَیں اس وقت جو لمحے تیرے ساتھ گزار رہا ہوں یہ آخری ہیں۔ 8 بج کر 15 منٹ سے لے کر 9 بج کر 40 منٹ تک اپنی وصیت لکھتے رہے۔ اپنے دانتوں میں برش کیا، منہ ہاتھ دھویا اور بالوں میں کنگھی کی۔ دوبارہ رات 10 بج کر 10 منٹ سے 11 بجکر 5 منٹ تک لکھتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے بقول کرنل رفیع الدین وہ تمام کاغذات نذرِ آتش کر دیئے جن کو وہ مختلف اوقات میں تحریر کرتے رہے۔ مشقتی عبدالرحمن کو کہا ان کا سیل صاف کیا جائے۔ بھٹو نے ڈیوٹی پر موجود سنتری سے پوچھا کہ میری پھانسی میں کتنا وقت ہے ایک گھنٹہ، دو گھنٹے۔ لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا اور پھر خود ہی کہا مَیں ایک دو گھنٹے سو سکتا ہوں۔ سنتری نے جواباً کہا جی جناب اور پھر کہا کہیں جگا تو نہیں دو گے؟ اور یہ کہہ کر وہ لیٹ گئے اور انہوں نے اپنی بیٹی صنم بھٹو کو دو مرتبہ پکارا۔ 3 اپریل کو 11 بجکر 30 منٹ سے بھٹو کی آخری ملاقات (نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو) کئی گھنٹے جاری رہی۔ اس کے بعد پھر 4 اپریل کی صبح 2 بج کر 4 منٹ پر پھانسی دے دی گئی۔ میت کو صبح 7 بج کر 10 منٹ پر ایک C-130 طیارے کے ذریعے پہلے جیکب آباد پہنچایا گیا جہاں سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کے تابوت کو گڑھی خدا بخش لے جایا گیا۔ فوجی جوانوں نے حکومت کی ہدایت کے مطابق آبائی قبرستان میں اُن کی قبر پہلے ہی تیار کر رکھی تھی۔ 4 اپریل کی صبح 9 بجکر 20 منٹ پر گڑھی خدا بخش کی جامع مسجد کے امام محمود احمد بھٹو نے نماز جنازہ پڑھائی۔ 9 بج کر 40 منٹ پر بھٹو کے آبائی قبرستان لے جایا گیا جہاں 10 بجکر 30 منٹ پر تدفین کے تمام مرحلے طے کیے گئے۔
4 اپریل کو ہی مفتی محمود نے اُن کی پھانسی کی خبر سن کر کہا آج بھٹو سے ہمارے تمام اختلافات ختم ہو گئے۔ 6 اپریل کو جنرل ضیا نے نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو بھٹو کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے خصوصی طیارے کے ذریعے نوڈیرو لے جانے کا حکم دیا اور ساتھ ہی کہا کہ مَیں نے بھٹو کے بارے میں بالکل صحیح فیصلہ کیا کیونکہ کوئی بھی شخص ملک کے لیے ناگزیر نہیں۔ 11 اپریل 1979ء کو اسلام آباد میں جنرل ضیا نے اکادمی ادبیات پاکستان کی اہل قلم کانفرنس کا افتتاح کیا جس میں ملک کے نامور لکھنے والوں نے بڑے ذوق و شوق سے شرکت کی۔ یوں 4 اپریل 1979ء کو بھٹو کی پھانسی کے بعد جس بحران کا آغاز ہوا وہ بحران گاہے گاہے ہمیں باخبر کرتا ہے کہ ناحق خون جب بھی کہیں پر بہایا جائے گا اس کے اثرات برے مرتب ہوں گے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے جب مَیں نے بھٹو کے تابوت کو C-130 کے ذریعے پنڈی سے جیکب آباد منتقل کرنے کا لکھا تو مجھے 17 اگست 1988ء یاد آ گیا جب جنرل ضیا C-130 طیارے میں سفر کرتے ہوئے بہاولپور سے اسلام آباد آ رہے تھے اور بہاولپور کے نواحی بستی لال کمال میں طیارہ گرنے سے 31 جانیں جل کر لقمہ اجل بن گئی۔ بظاہر جنرل ضیا کی موت اور بھٹو کی پھانسی میں کوئی بات بھی مشترکہ نہیں لیکن C-130 والا معاملہ مشترک نکل آیا ہے۔ شاید اسی کو مکافاتِ عمل کہا جاتا ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ