جتنی پرانی تاریخ ملتان کی ہے اتنی ہی یہاں کے میلوں کے بارے میں قدیم تاریخ ملتی ہے۔ اس علاقے میں پہلا میلہ کب اور کس نے کیا تھا اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ البتہ برصغیر میں ہندو اپنے میلے بڑے اہتمام سے کیا کرتے تھے۔ ان کو دیکھتے ہوئے خطے کی خانقاہوں کے سجادہ نشینوں نے سالانہ عرس کے موقع پر میلوں کا اہتمام کرنا شروع کر دیا۔ مختلف اشیاء کے عارضی بازار سجائے جاتے تھے جن میں کھانے پینے کے علاوہ مٹی کے کھلونے، چوڑیاں، توتی، باجے اور دیگر چیزیں شامل ہوا کرتی تھیں۔ ان میلوں میں ریچھ کا ناچ، بندر کی شرارتیں، اونٹوں، گھوڑوں اور بیلوں کی دوڑ کے مقابلے۔ سرکس، موت کا کنواں اور تھیڑ دیکھنے کے لیے بے حد رش ہوا کرتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ میلے ہمارے شہر سے رخصت ہوتے گئے۔ شہر میں اولیائے کرام کے سالانہ عرس تو اب بھی باقاعدگی سے ہوتے ہیں لیکن سیکورٹی وجوہات کی بنا پر میلوں پر پابندی لگا دی گئی۔ یوں ملتان کی سطح پر ہم ایک عرصے سے میلوں سے محروم ہیں۔ اس محرومی کے باوجود جب کبھی ہم نے کراچی، لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد میں منعقد ہونے والے ادبی میلوں کا احوال قمر رضا شہزاد سے لے کر ڈاکٹر انوار احمد سے سنا تو ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہونے لگا۔ ایسے میں کئی مرتبہ خالد مسعود خان، رضی الدین رضی، نوازش علی ندیم، انور جمال، وسیم ممتاز سمیت بے شمار دوستوں نے ملتان میں ادبی میلہ کرانے کا سوچا۔ لیکن ہمیشہ یہ سوچ کر ”ادبی میلہ ملتان“ کا بھاری پتھر چوم کے چھوڑ دیا کہ ہم نے جب بھی کبھی اس قسم کی ”حرکت“ کرنے کی غلطی کی ہے تو ایسے میں ہماری مدد کے لیے نیشنل بک فاؤنڈیشن، بہاءالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان ٹی ہاؤس اور دیگر علمی و ادبی ادارے آگے بڑھے اور انہوں نے یہ بھاری پتھر خود اٹھانے کا اعلان کر دیا۔
ایسے میں ہائیرایجوکیشن پنجاب سے تعلق رکھنے والے مرتضےٰ نور ملتان میں علم و ادب کا نور پھیلانے کے لیے ملتان پہنچ گئے اور اپریل کے پہلے ہفتے ”پہلا ادبی میلہ“ سجانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کو یہ کامیابی تب ملی جب ملتان سے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر قاضی عابد، ڈاکٹر عقیلہ بشیر، ڈاکٹر حماد رسول، ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر سجاد نعیم، پروفیسر الیاس کبیر، ڈاکٹر مقرب اکبر، منور آکاش، ڈاکٹر محمد اشرف خان، ڈاکٹر خالد اقبال، ڈاکٹر حسن بُچہ، سیّد محمد علی واسطی، طاہر محمود اور ذوالفقار علی بھٹی ان کے دست و بازو بنے۔
چونکہ یہ پہلا ملتان لٹریری فیسٹیول تھا اور ہر کام کے آغاز میں بے شمار مشکلات ہوتی ہیں۔ ان مشکلات کو کم کرنے کے لیے بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا و طالبات کا ایثار قابلِ دید تھا جنہوں نے اس میلے کو کامیاب بنانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ اس میلے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ خطے کے نامور ادیب، مترجم، عالم، صحافی اور محقق مرزا ابنِ حنیف کی بیوہ نے سرائیکی ایریا سٹڈی سنٹر (زکریا یونیورسٹی) کو مہاتما بدھ کی دو ثابت و سالم مورتیاں بلامعاوضہ عطیہ کر دیں۔ مرزا ابنِ حنیف کی بیوہ کا ایثار اپنی جگہ پر قابلِ فخر ہے۔ کیا بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے مالک و مختار اپنے خزانے سے اُن کی بیوہ کو اس خدمت کے عوض چند لاکھ روپے اعزازی طور پر پیش نہیں کر سکتے تھے؟ ممکن ہے ہماری اس بات پر یونیورسٹی کے کارپردازوں کو غصہ آ جائے لیکن ہمارے خیال میں اُن کے لیے مرزا صاحب کی بیوہ کو اعزازیہ دینا اتنا مشکل کام نہیں۔ بہرحال پہلا ملتان ادبی میلہ اس وقت اپنے جوبن پر پہنچ گیا جب ڈاکٹر انوار احمد اور اصغر ندیم سیّد کی دل موہ لینے والی گفتگو نے میلے کی کامیابی کی پہلی اینٹ رکھ دی۔ پھر ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر اسلم انصاری اور ڈاکٹر نجیب جمال جس بھی سیشن میں موجود ہوتے تو اُن کو سننے والوں کو ویسا ہی رش ملتا جس طرح ملتان کے قدیمی میلے حضرت شاہ شمس پر ہوا کرتا تھا۔ مرتضیٰ نور اور ان کی انتھک ٹیم ہر وقت کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے بیتاب ہوتی، کہیں محفلِ موسیقی میں ثریا ملتانیکر، غلام عباس، ارشاد علی، ثوبیہ ملک اور دیگر گلوکار اپنے سُروں کے ذریعے رنگ جما رہے ہوتے تو کہیں اہلِ ملتان ملتانی کھانوں سے سجے ہوٹلوں پر مصروف دکھائی دیتے۔ کوئی کتابوں کی رونمائی میں بیٹھا اسلم انصاری سے لے کر رفعت عباس کی شاعری سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا تو بہت سے مرد ملتان کی نامور خواتین کے اُن کے اپنے شعبوں کے حوالے سے تجربات کو سنتے ہوئے دیکھے۔
کتابوں کی نمائش اور کرافٹ بازار الگ سے لگا کر ملتان کی ثقافت کو اُجاگر کیا گیا۔ جھومر ڈانس اور گھوڑا ڈانس کی پرفارمنس نے پرانے میلوں کی یاد دلا دی۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پہلا ملتان ادبی میلہ ایک دو بڑے ناموں کے ساتھ منعقد ہوا۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر سکہ رائج الوقت بڑے ادبی ناموں کو بھی ملتان آنے کی دعوت دے دی جاتی۔ اس کے ساتھ ساتھ جنوبی پنجاب کے بڑے قلم کاروں کو بھی یاد کر لیا جاتا۔شوبز سے تعلق رکھنے والے ملتانی فنکار ناہید اختر، انجمن، گوری، زیبا بیگم، سہیل اصغر، محسن گیلانی، یونس سہیل کو بھی بلا لیا جاتا۔ اگر کراچی اور لاہور والے بنگلہ دیش سے اداکارہ شبنم کو بلا کر فیسٹیول کو گیٹ توڑ بنا سکتے ہیں تو پھر ملتان سے تعلق رکھنے والے فنکاروں سے یہ میلہ بھی سجایا جا سکتا تھا۔ اگر کارسرکار کو کوئی اعتراض نہ ہوتا تو سیّد یوسف رضا گیلانی، غلام مصطفی کھر، جاوید ہاشمی، حنا ربانی کھر اور دیگر بڑے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایک تقریب سجا کر میلے کو مزید مقبول کیا جا سکتا تھا۔ خطے کی وہ لوک موسیقی جو آج بھی دلوں پر حکمرانی کرتی ہے اس کو ڈرامائی شکل دے کر شام سجائی جا سکتی تھی۔ ملتان کی تاریخ میں قوالی کی بھی بھرپور روایت موجود ہے۔ اگر محفلِ سماع کو اس میلے کا حصہ بنایا جاتا تو یہ میلہ اپنی مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرتا۔
پہلا ادبی میلہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ مرتضیٰ نور یہ میلہ سجا کر واپس اسلام آباد جا چکے ہیں۔ واپسی پر ان کے ذہن میں دوسرا ”ملتان ادبی میلہ“ موجود تھا۔ ہماری تجویز ہے کہ اگلی بار یہ میلہ یونیورسٹی کے علاوہ ملتان آرٹس کونسل، ریڈیو پاکستان کے سبزہ زار اور ملتان ٹی ہاؤس تک پھیلا دیا جائے۔ شہر کے تمام شعبوں سے رکھنے والے نامور احباب کو شرکت کی دعوت دی جائے۔ اگر ایک سیشن حضرت شاہ شمس سبزواری کے مزار کی بیرونی سیڑھیوں پر کر لیا جائے تو حضرت شاہ شمس سبزواری کے گمشدہ میلے کو دوسرے ملتان ادبی میلے میں نہ صرف بازیافت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ میلوں کے شوقین ملتانیوں سے کہیں گے کہ جس نے اب پرانا میلہ دیکھنا ہے وہ نئے زمانے کے ادبی میلے میں آ جائے۔ جہاں پر ان کے لےے دھمال ہو گی، شہنائی کا سیشن ہو گا، موسیقی کی محافل ہوں گی۔ محفل مشاعرہ منعقد ہو گا۔ اور شاید پھر کوئی ملتانی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ”جھولے لال“ کا نعرہ بھی لگا دے۔
(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس )