جنوبی پنجاب کے معروف سیاست دان ملک غلام مصطفیٰ کھر کی وجہء شہرت ویسے تو بے شمار ہیں لیکن دو کاموں میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ پہلا کام چند برسوں بعد اپنی نئی پارٹی کا انتخاب کرنا جبکہ دوسرا کام بھی اس سے ملتا جلتا ہے یعنی نئی شادیاں کرنا۔ سیاست اور سماج کا کوئی کتنا بڑا ماہر کیوں نہ ہو وہ کبھی یہ گنتی نہیں کر سکتا کہ کھر نے اب تک کتنی شادیاں کی ہیں اور کتنی سیاسی پارٹیاں تبدیل کی ہیں۔ کھر اس اعتبار سے خاصے خوش نصیب ہیں کہ وہ گورنر پنجاب، وزیر اعلیٰ پنجاب اور وفاقی وزیر کے علاوہ ڈھیروں خواتین کے شوہر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا تازہ ترین کارنامہ تحریکِ انصاف میں شمولیت ہے۔ اس شمولیت سے پہلے یہ بھی خبر آئی تھی کہ موصوف اپنی سابقہ پارٹی پیپلز پارٹی میں واپس آنے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ لیکن شامت اعمال تحریکِ انصاف کے نام لکھی گئی۔ یوں انہوں نے عمران خان سے ایک ملاقات کی اور تحریکِ انصاف کا حصہ بن گئے۔ کسی نے ہم سے دریافت کیا عمران خان نے بزرگ سیاست دان ملک غلام مصطفی کھر کو اپنی پارٹی میں کیوں قبول کیا۔ ہمارا سیدھا سادہ جواب تھا عمران خان دو ناکام شادیاں کر چکے ہیں، تیسری کی تیاری کر رہے ہیں، اس کام کے لیے کسی جہاں دیدہ شخص کی ضرورت تھی۔ جبکہ آصف علی زرداری نے ابھی دوسری شادی کا سوچا نہیں ہے اسی لیے وہ ملک غلام مصطفیٰ کھر کے جھانسے میں نہیں آئے۔ عمران خان کو ویسے بھی آج کل اپنی پارٹی میں آثارِ قدیمہ کی اشد ضرورت ہے تاکہ وقت پڑنے پر وہ مقتدر حلقوں کو باور کروا سکیں کہ مَیں وفاق میں حکومت بھی کر سکتا ہوں اور مزید شادی بھی۔ حکومت کرنے کے لیے ”وزیر مشورہ مخدوم شاہ محمود قریشی“ ان کے پنج پیاروں میں شامل ہیں۔ وزیر آمد و رفت کے طور پر جہانگیر ترین جبکہ وزیر مالیاتی امور کے لیے علیم خان، وزیرِ اطلاعات کے لیے شیریں مزاری اور وزیر امورِ خانہ داری کے لیے تازہ ترین انٹری ملک غلام مصطفیٰ کھر کی ہے۔ ملک غلام مصطفیٰ کھر کی خوبی یہ ہے کہ وہ باقاعدگی سے یوگا کرتے ہیں جس کے بعد ان پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ نئی شادی بھی کریں۔ ہمارے بے شمار دوست کئی بار ہم سے ملک غلام مصطفیٰ کھر کا فون نمبر دریافت کر چکے ہیں۔ چونکہ ہم نے ابھی تک یہ طے کر رکھا ہے کہ دوسری شادی کے قریب نہیں جانا اس لیے ہم نے کبھی ملک غلام مصطفیٰ کھر سے رابطہ ہی کرنا نہیں چاہا۔ اب چونکہ وہ عمران خان کی پارٹی میں شریک ہو چکے ہیں اس لیے دوستوں کو یہی مشورہ دیں گے کہ ابھی کھر کے مشوروں کی روشنی میں عمران خان کو تیسری شادی کرنے دیں اس کے بعد ہم بھی ان سے رابطہ کرنے کا سوچیں گے۔ جب سے ملک غلام مصطفیٰ کھر تحریکِ انصاف میں گئے ہیں تب سے تحریکِ انصاف کے بیشتر مرکزی رہنما ”مائی فیوڈل لارڈ“ یعنی میڈا سائیں کی تلاش میں ہیں جس کو ان کی سابقہ اہلیہ نے تحریر کیا۔ کسی بھی سیاست دان کے بارے میں انکشافات سے بھرپور یہ پہلی کتاب ہے جو لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوئی۔ کتاب اتنی دلچسپ ہے کہ آج بھی مارکیٹ میں اس کتاب کے خریدنے والے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک غلام مصطفیٰ کھر کو آنے والے انتخابات میں ہزاروں ووٹ مل سکتے ہیں۔ وہ تو کتاب کی اتنی شہرت ہے کہ ہر کوئی یہ کتاب اپنی لائبریری میں رکھنا چاہتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ کتاب شائع ہونے کے بعد اس کے متن کے بارے میں انہوں نے کبھی بھی تردید نہیں کی کہ اس کی مصفنہ نے بڑی جرات کے ساتھ ملک غلام مصطفی کھر کے بارے میں قلم اٹھایا ہے۔ ملک غلام مصطفی کھر چونکہ ایک عرصے سے سیاسی طور پر آزاد پنچھی کے طور پر اُڑ رہے تھے اس لیے ان کے حلقہ پر ایک ایسے سیاست دان کا قبضہ ہو گیا جو ہر لحاظ سے ملک غلام مصطفی کھر سے بظاہر کمتر دکھائی دیتا ہے۔ اس سیاستدان کا نام جمشید دستی ہے جو ابھی تک غیر شادی شدہ ہے۔ جبکہ کھر شادیوں کے حساب میں جمشید دستی کے مقابلے میں بے حساب ہے۔ کھر علاقے کا بڑا جاگیردار ہے جبکہ جمشید دستی بغیر جاگیر کے تیسری مرتبہ ایم۔این۔اے منتخب ہوا۔ ملک غلام مصطفی کھر کے پاس انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بے شمار وسائل ہیں وہ اپنی فتح کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر سکتا ہے۔ جمشید دستی بغیر وسائل کے میدان میں اترتا ہے۔ دور کیوں جائیں 4 مئی 2017ءکو جمشید دستی ملک غلام مصطفی کھر کی دادی کے نام پر شہر سنانواں جاتا ہے اور وہاں جا کر جھاڑو پھیرا، دہی فروخت کی، ووٹروں کی جوتیاں پالش کیں اور ایک حمام پر جا کر شیو بھی بنائی۔ تفصیل کے مطابق جب جمشید دستی کو معلوم ہوا کہ آنے والے انتخابات میں تحریکِ انصاف کی طرف سے متوقع اُمیدوار ملک غلام مصطفی کھر ہوں گے تو وہ اپنے حلقے میں عوامی رابطہ مہم کے لیے نکل پڑے۔ انہوں نے دورہ کے دوران ہاتھوں میں جھاڑو پکڑا اور سنانواں کی گلیوں کی صفائی شروع کر دی۔ صفائی کرتے ہوئے جب تھکاوٹ ہوئی تو جمشید دستی دودھ دہی والی دکان پر چلے گئے۔ خیال ہے پہلے انہوں نے لسی پی ہو گی پھر وہ دہی فروخت کرنے کے لیے بیٹھ گئے۔ ویسے بھی رمضان المبارک قریب ہے اس لیے جمشید دستی جیسے بےروزگار ایم۔این۔اے کے لیے اس سے بہتر کیا کام ہو سکتا ہے۔ جب دہی ختم ہو گیا تو جمشید دستی کا اگلا ٹھکانہ سیلون ٹھہرا جہاں جا کر وہ دوستوں کی شیو بناتے رہے۔ جب دنیا داری کے یہ کام کر چکے تو ان کو دین یاد آ گیا اور علاقے کی قاری شبیر والی مسجد میں صفائی کرنے پہنچ گئے۔ اتنے بہت سے کاموں کے بعد بھوک ستانے لگی تو مسجد کے قریب ایک چاول والی ریڑھی کے قریب بیٹھ کر دوستوں کے ہمراہ چاول کھائے۔ چاول کھانے کے بعد ایک کارنر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے کہ میری پارٹی ”عوامی راج پارٹی“ کا یہی منشور ہے کہ عوام کے کام ان کا منتخب نمائندہ بھی کرے۔ اس موقع پر ان کی پارٹی کے مقامی لیڈروں نے ان کے کاموں کو سراہا کہ وہ رکنِ اسمبلی ہونے کے باوجود کبھی حلقے میں جھاڑو دیتے ہیں تو کبھی کسی محلے کی نکڑ پر موجود موچی کی دکان پر جوتے پالش کرتے ہیں۔ جمشید دستی کے یہ کام دیکھ کر ہمیں مسیحی رہنما جے سالک یاد آ گیا جو ایم۔این۔اے بننے سے قبل لاہور کے مختلف علاقوں میں جھاڑو دیا کرتے تھے۔ پھر وہ ایم۔این۔اے منتخب ہو گئے جس کے بعد وہ اکثر احتجاجاً ان علاقوں میں جھاڑو دینے لگے جہاں پر صفائی کا نظام ابتر ہوتا تھا۔ جمشید دستی کے حلقہ انتخاب میں بھی یقینا صفائی کا نظام پورے ملک کی طرح ابتر ہو گا۔ لیکن وہ اصل میں اس سیاسی نظام کے خلاف ہیں جہاں پر سیاستدان نسل در نسل عوام کو یرغمال بنا کر رکھتے ہیں۔ جس کی زندہ مثال ملک غلام مصطفی کھر کی ہے جو اپنے سیاسی سفر میں پاکستان کی ہر سیاسی جماعت کا حصہ رہ چکے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں ایک مرتبہ پھر کھر کو ایم این اے بننے کا شوق چرایا ہے۔ کاش عمران خان ان کی بجائے کسی نوجوان سیاسی رہنما کو ٹکٹ دیں تاکہ عطاءاﷲ عیسیٰ خیلوی کے اس گانے کو سچ سمجھا جائے گا:
جب آئے گا عمران خان – بنے گا نیا پاکستان
اگر عمران خان کھر جیسے چلے کارتوس کے ذریعے نیا پاکستان بنانے جا رہے ہیں تو ہم کو پرانا پاکستان ہی قبول ہے جس میں کم از کم ہم جیسے پرانے پاکستانی مائی فیوڈل لارڈ کو تو پسند نہیں کرتے۔ البتہ پرانے پاکستان میں جھاڑو بردار جمشید دستی کو ووٹ دے سکتے ہیں جو پی پی سے نکلنے کے بعد اپنی سیاسی جماعت بنا کر کبھی جھاڑو دے کر، کبھی دودھ دہی فروخت کر کے، کبھی جوتے مرمت کر کے تو کبھی اپنے حلقے میں بس سروس کی ڈرائیوری کر کے اپنے عوام کے ساتھ تو رہتے ہیں۔ جبکہ ملک غلام مصطفی کھر جس طرح اپنی کسی بیوی کے ساتھ زیاصہ عرصہ نہیں رہتے اسی طرح وہ زیادہ دیر تک کسی بھی سیاسی پارٹی میں نہیں رہتے۔ معلوم نہیں وہ عمران خان کے ساتھ کتنا عرصہ رہیں گے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ