ایک زمانے میں سکولوں میں خوش خطی کے لیے تختی لکھوائی جاتی تھی اس کے بعد ہم نے جیسے جیسے تعلیمی میدان میں ترقی کے مدارج طے کیے تو سکولوں سے تختی اور ہاتھوں سے خوش خطی غائب ہو گئی۔ اب صورت یہ ہے کہ موجودہ دور کے طالب علموں کی انگریزی اُردو لکھائی ایسی ہے جیسے کسی سینئر ڈاکٹر نے جلدی میں نسخہ تجویز کیا ہو۔ گھروں میں تختی کی جگہ چائنا کے بنے ہوئے وائٹ بورڈ آ گئے ہیں۔ مارکر سے کلاس رومز میں وائٹ بورڈ پر لکھ کر سمجھایا جاتا ہے۔ یوں ہماری نسلِ نو تختی، روشنائی، قلم، دوات اور گاچی کے نام سے ناآشنا ہے۔ انہیں کیا معلوم جب ہم نئی تختی خریدتے تھے تو اس کو مضبوط کرنے کے لیے گوبر کا لیپ کرتے پھر گاچی سے پوچا لگا کر دھوپ سے خشک ہونے کے لیے رکھ دیتے۔ تختی کو گاچی کا لیپ بعض اوقات دن میں دو مرتبہ بھی کرنا پڑتا۔ ایک مرتبہ صبح سکول تختی لے جاتے وقت اور دوسری بار گھر واپس آ کر۔ تختی لکھنے کا ہمیں کوئی فائدہ ہوا یا نہ ہوا البتہ اتنا ضرور معلوم ہے کہ اکثر احباب ہماری لکھائی دیکھ کر کہتے ہیں اس طرح کی ہینڈ رائٹنگ تو لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ ہمیں آج تک یہ تو معلوم نہیں ہو سکا کہ ہماری مردانہ وجاہت میں زنانہ لکھائی کا اثر کیسے آیا؟ البتہ یہ ضرور یاد ہے کہ اس ہینڈ رائٹنگ میں جب بھی کبھی لڑکی کو لڑکی بن کر خط لکھا اس کا جواب ضرور آیا۔
قارئین کرام! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ مردانہ کالم میں آج زنانہ کا ذکر آ گیا تو اصل میں ہم آج کا کالم اس خطاط کے نام کر رہے ہیں جس کا نام راشد سیال ہے۔ اس کی انگلیاں جب قلم کو روشنائی میں ڈبو کر لفظ لکھتی ہیں تو مجھے وہ لفظوں کا جادوگر لگتا ہے۔ محمد راشد سیال کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بچپن میں اپنے والدین سے کھلونوں کی بجائے پین اور تختی منگوایا کرتا تھا۔ وہ لفظوں کو خوبصورت کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مَیں اپنے آپ کو خوبصورت کرنا چاہتا ہوں تو مَیں اسے کہتا ہوں آپ میرا نام اپنے ہاتھوں سے لکھ کر مجھے خوبصورت کر دو۔ وہ ایک ماہر فوٹو گراف آرٹسٹ کی طرح میرے نام کی مختلف انداز سے خطاطی کر کے مجھے خوبصورت کر دیتا ہے۔ اس محنت کا وہ کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتا اور کہتا ہے کہ دوستوں کے نام کی خطاطی کرنے سے میرے فن کو نئی زندگی ملتی ہے۔ وہ اپنے پیاروں کے نام کی خطاطی کا معاوضہ لے کر اپنی زندگی کو ملنے والی آکسیجن کو کم نہیں کرنا چاہتا۔ خطاطی کرتے وقت ماہر خوش نویسوں کی طرح لطیفے، اشعار، سیاست پر تبصرے اور دوستوں کی باتوں کا فوراً جواب دینا اس کی شخصیت کا خاصا ہے۔ ہر وقت بولتے رہنا راشد سیال کی صحت مندی کا راز ہے۔ ایک دن یوں ہوا کہ ہم اس کے پاس کسی کام کو گئے۔ تو دیکھا راشد سیال معمول کے مطابق عینک لگا کر خطاطی کرنے میں مصروف ہے۔ مَیں نے جا کر حسب معمول اسے چھیڑا تو خلافِ معمول کوئی جواب نہ آیا۔ مَیں نے دوسری مرتبہ پھر اس کی رگِ ظرافت کو خوابِ غفلت سے جگانا چاہا تو راشد سیال نے پوچھا چائے پینی ہے یا کافی۔ میرے لیے راشد سیال کا یہ نیا روپ تھا۔ وہ راشد سیال جو کام کرتے ہوئے کبھی ”معزز“ نہیں بنتا تھا وہ آج انتہائی معزز بننے کی کوشش کر رہا تھا۔ مَیں نے راشد سیال سے خیریت دریافت کی اور سوال کیا سر آپ ”معزز“ کب سے ہو گئے؟ قدرے توقف کے بعد بولا آج کے بعد جس نے مجھ سے مذاق کرنا ہے وہ مجھ سے میرے آفس کے باہر ملے کیونکہ مَیں نے گزشتہ ہفتے سے قرآن پاک کی خطاطی شروع کر رکھی ہے۔ یہ سنتے ہی مَیں نے اسے قرآن کی خطاطی کرنے کی مبارک دی کہ ملتان کی خطاطی کی تاریخ کا وہ پہلا خطاط تھا جس کے حصے میں یہ سعادت آئی۔
اس کے بعد جب بھی راشد سیال کے پاس جانا ہوتا وہ انتہائی محبت و محنت سے قرآن پاک کو ”خطِ نسخ“ میں لکھنے میں مصروف ہوتا۔ خطِ نسخ یا خطِ قرآن کے بارے میں بعض اہلِ علم کا یہ کہنا ہے کہ قرآن پاک کی پہلی کتابت ”خطِ کوفی“ میں ہوئی۔ اس کے بعد جب ”خطِ نسخ“ میں قرآن لکھا گیا تو خطِ کوفی کو منسوخ کر دیا گیا۔ جبکہ کچھ ماہرینِ خطاطی کا یہ موقف ہے کہ قرآن پاک کی کتابت چونکہ ایک نسخے سے دوسرے نسخے میں نقل کی جاتی ہے اس لیے یہ نسخ یعنی نقل کہلاتا ہے۔ گزشتہ سو برسوں سے خطِ نسخ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا خط ہے۔ اس خط کی خوبی یہ ہے کہ الفاظ کا عرض طوالت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس لیے حروف پر اعراب و نقاط لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ راشد سیال نے اسی ”خطِ نسخ“ میں قرآن پاک کی خطاطی کو دو برس کی شبانہ روز محنت سے مکمل کیا۔ اور ایک دن بازار میں راشد سیال کی خطاطی والا قرآن مجید دیکھا۔ اسے فوراً خرید کر گھر لے آیا کہ مَیں اپنے گھر میں ایک خوبصورت قرآن پاک کا اضافہ کرنا چاہتا تھا۔
1985ءمیں مقامی اخبارات میں کتابت سے آغاز کرنے والے محمد راشد سیال نے بہت جلد ہی کامیابی کی منازل طے کر لی تھیں۔ 1992ء میں سوفٹ ویئر انجینئر انعام علوی نے راشد سیال کی خطاطی کو دیکھتے ہوئے فرمائش کی کہ وہ خطِ نستعلیق کی طرز پر ایک نیا خط بنانا چاہتے ہیں۔ اس خط کا نام بھی انہوں نے ”خطِ راشد“ تجویز کیا۔ اِن پیج کی موجودگی کے باوجود ”خطِ راشد“ کی فرمائش راشد سیال کے لیے اعزاز تھا۔ راشد سیال نے ہمت کی اور تقریباً تین سال کے عرصے میں وہ ”خطِ راشد“ قائم کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جس کے بعد کمپیوٹر پر مشینی کتابت کرنے والوں کو ایک نیا خط دستیاب ہو گیا۔
1971ء ملتان میں پیدا ہونے والے راشد سیال کی پوری زندگی محنت سے عبارت ہے۔ وہ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی کے ملتان کالج آف آرٹس میں 2009ء سے پڑھا رہے ہیں۔ اب تک 3500 مساجد میں قرآنی خطاطی کی ہے۔ ہزاروں کتابوں کے سرورق ڈیزائن کر کے اہلِ علم کے دلوں میں جگہ بنا چکے ہیں۔ آج کل دوبارہ قرآن پاک کی خطاطی میں مصروف ہیں۔ راشد سیال جب قرآنی آیات، احادیث کی خطاطی کرتے ہیں تو اس کے ڈیزائن اور لفظ اتنے مسحور ہوتے ہیں کہ دیکھنے والے فوراً اپنے گھروں، دفاتر کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ اس کی انگلیوں میں جادو بولتا ہے۔ راشد سیال لفظ جس مرضی روشنائی سے لکھے وہ لفظ روشن اور اُجلے ہو جاتے ہیں۔
حیران ہوں کرشمہء خطاط دیکھ کر
یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی
اب اس کے ورثے کی امین اس کی بڑی بیٹی بھی ہے۔ جس نے بڑی خاموشی سے اپنے والد کو خطاطی کرتے دیکھا اور وہ آج اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ محمد راشد سیال فن کے کس مقام پر کھڑے ہیں حال ہی میں اس نے خطاطی کے دو نئے خط ایجاد کر کے اس کے قواعد و ضوابط اور جمالیاتی تشکیل کو کتابی شکل دے کر ایک اور معرکہ سَر کر لیا ہے۔ اس کے ان خطوط کے متعلق خطاط مسجد نبوی جناب شفیق الزماں نے لکھا:
”راشد سیال مستقل جدوجہد کرنے والے کہنہ مشق خطاط ہیں ان کی کاوش اور مستقل جدوجہد و ریاضت سے وجود میں آنے والے نئے انداز کا رسم الخط قابلِ دید ہے۔ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ راشد صاحب اسے (فونٹ کی صورت میں لے آئے ہیں) دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اسے قبولِ عام کرے آمین!“
استاد شفیق الزماں کی اس رائے کے بعد ہم اور کچھ نہیں لکھیں گے۔ راشد سیال کو استاد شفیق الزماں کی رائے کے بعد کسی اور سند کی ضرورت نہیں ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس)