پھر ایک دن معلوم ہوا کہ عارف الاسلام صدیقی نے بینک والوں سے کسی بات پر جھگڑا کیا۔ مستعفی ہوا اور گھر آ کر بیٹھ گیا۔ ایسے میں جبار مفتی نے نوائے وقت میں کالم لکھنے کی پیشکش کی اور کالم کا نام تجویز کیا ’’جو مَیں نے دیکھا‘‘ اس کالم میں وہ ملتان میں ہونے والی ادبی، سیاسی، تعلیمی، ثقافتی اور حکومتی تقاریب کا حال بڑی بے رحمی سے لکھا کرتا۔ یہ کالم دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہو گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تقاریب کے منتظمین کہنے لگے کوریج کے لیے رپورٹر کی بجائے عارف الاسلام صدیقی کو بھیجا جائے۔ غرض یہ کہ عارف صدیقی جو بینک کی نوکری کے بعد دل گرفتہ ہو گیا تھا ایک مرتبہ پھر شہر کی زندگی میں اِن ہو گیا۔ ایسے میں اہلیہ کی جاں لیوا بیماری نے اسے توڑ کے رکھ دیا۔ بیگم کی وفات نے عارف الاسلام صدیقی کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ عارف صدیقی کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ نشتر ہسپال میں دونوں میاں بیوی مختلف وارڈز میں داخل تھے۔ نہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے نہ عیادت کر سکتے تھے۔ لے پالک بیٹی اور بیٹا کہاں کہاں ڈیوٹی دیتے۔ آخری دنوں میں خواجہ جلال الدین رومی سمیت بے شمار دوستوں نے علاج کے لیے وسائل فراہم کیے لکن پھر دونوں ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایک مرحلے پر جب دونوں نشتر میں داخل تھے تو ان کی اہلیہ نے کاغذ پر لکھ بھیجا:
تھک گئے ہو میری بیماری سے ٹکراتے ہوئے
بیٹھ کر دیکھو ہمیں دنیا سے اٹھ جاتے ہوئے
عارف صدیقی نے اپنی اہلیہ کی پہلی برسی پر جو کالم لکھا اس کا عنوان تھا
’’تمہاری یاد میں آخری کالم‘‘
وہ کالم واقعی آخری ثابت ہوا اور 8 اکتوبر 2007ء کو انتقال کر گیا۔ چند برس پہلے تک ان کی قبر پر کوئی کتبہ نہ تھا۔ معلوم نہیں ان کے اکلوتے بیٹے قبر کو محفوظ بھی کیا یا نہیں لیکن اتنا ضرور ہے عارف الاسلام صدیقی کے بعد ان کی کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے کہ وہ شہر کی ثقافتی اور سماجی زندگی کا ایک ایسا فرد تھا جو زبان میں لکنت کے باوجود بھرپور انداز میں نظامت کرتا تھا۔ آج جب دوستوں کے بارے لکھنے بیٹھا تو انتظار کے بعد عارف بھی یاد آئے جو ہر وقت خبروں میں اِن رہنا چاہتا تھا لیکن اب تو ان کو کوئی یاد ہی نہیں کرتا۔ حالانکہ عارف صدیقی کو ہم سے بچھڑے دس سال ہی ہوئے ہیں لیکن یوں لگتا ہے جیسے اس شہر میں ان لوگوں کا کبھی بسیرا نہ تھا۔
ڈاکٹر کریم ملک کے متعلق ہم آغاز میں لکھ چکے ہیں کہ انہوں نے معمولی سی نوکری سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ لیکن جب زندگی تمام ہوئی تو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرنے کے علاوہ شعبہ صحافت کے سربراہ بھی رہ چکے تھے۔ ان کے بارے میں تفصیلی مضمون ان کی زندگی میں بھی تحریر کیا اور مرنے کے بعد بھی۔ کریم ملک کثیر حلقہ احباب رکھتے تھے۔ خوبی یہ تھی کہ اپنے ہر ملنے والے کے بارے میں ایک طرح کے ’’خیالاتِ عالیہ‘‘ رکھتے تھے۔ چاپلوسی ان کے خمیر میں شامل تھی۔ وہ ہیلی کالج لاہور کے فارغ التحصیل تھے۔ اصولی طور پر انہیں کسی حساب کتاب کے محکمہ میں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن وہ اپنا رشتہ کتاب قلم سے جوڑے بیٹھے تھے۔ نوائے وقت کے کامرس صفحات کے لیے کبھی کبھار وہ معیشت کے بارے میں مضمون لکھ کر یہ باور کراتے کہ وہ ہیلی کالج لاہور سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر مجید نظامی مرحوم اور ڈاکٹر مسکین علی حجازی کے مداح کے طور پر ہر وقت رطب اللسان رہتے۔ نظریاتی طور پر وہ بظاہر مسلم لیگی سوچ رکھتے تھے لیکن یونیورسٹی میں جماعت اسلامی کی اکثریت کی وجہ سے ان کے بارے میں سوفٹ کارنر رکھتے تھے۔ جنرل ضیاء کے دور میں جب غضنفر مہدی مخدوم سجاد حسین قریشی کے ذریعے ایوانِ صدر تک رسائی حاصل کر چکا تھا تو دوسری جانب اُسی زمانے میں ملتان میں یہ کمی ڈاکٹر کریم ملک پوری کر رہا تھا۔ اپریل اور نومبر میں زکریا یونیورسٹی کی طور سے مزارِ اقبال پر حاضری اس کی گھٹی میں شامل تھی۔ یہ روایت ان کے وفات کے ساتھ ہی دفن ہو گئی۔ حضرت بہاء الدین زکریا اور حضرت شاہ رکن عالم کے سالانہ عرس کے موقع پر ہر سال ایک رٹی رٹائی تقریر کرنے کے بعد اپنی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی دستار بندی ضرور کراتے جس کے صلہ میں کریم ملک کو ہر وائس چانسلر ترقی دیتا چلا گیا۔
ڈاکٹر کریم ملک کی پی ایچ ڈی کا قصہ یوں تو ڈاکٹر انوار احمد نے اپنی کتاب ’’یادگارِ زمانہ ہیں جو لوگ‘‘ میں ان کے خاکے میں تفصیل سے کر دیا ہے۔ لیکن انہوں نے کبھی ایسی باتوں کی پرواہ نہ کی۔ ایک مرتبہ جبار مفتی، سلیم ناز، قاسم سیال، راحت وفا اور مَیں ان کے شعبہ گئے۔ دوپہر کا وقت تھا، بھوک عروج پر تھی۔ ہم نے مفتی کو آگے کیا اور کہا آج مزا آ جائے اگر ڈاکٹر صاحب ہمارے دوپہر کے کھانے کے میزبان بن جائیں۔ مفتی صاحب بھی اپنے مریدوں کے چکر میں آ گئے۔ ان کو حکماً فرمائش کی کہ بھوک لگی ہے کھانا آپ کی میزبانی میں ہو گا۔ کریم ملک کون سے انکار کرنے والے تھے۔ طالب علموں کی کینٹین سے بدذائقہ چاول چنے منگوائے اور عالی شان لنچ کے قصیدے پڑھنے لگے جس پر ہم سب نے انہیں داد دی کہ وہ واقعی ’’استاد‘‘ ہیں کہ شہر کے نامور صحافی بھی ان سے اچھا کھانا نہ کھا سکے۔ ہر تقریب میں تقریر کرنا وہ اپنا حق جانتے تھے۔ ملتان کے نیشنل سنٹر کی کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں نمایاں تقاریر کرنے والوں میں ایم۔اے قدوس، کریم ملک اور انتظار حسین قریشی کے نام ہوں گے جو چوہے مار گولیاں سے لے کر سماجی مسائل پر اس طرح گفتگو کرتے جیسے یہ موضوع صرف انہی کی خطابت کے لیے بنے ہیں۔
کریم ملک نے بھرپور زندگی گزاری۔ ملتان سے ریٹائر ہو کر لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے کے ساتھ منسلک ہوئے۔ ابھی وہ زکریا یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے کہ دل کے مریض بن گئے۔ ہم دو تین مرتبہ ان کی عیادت کو بھی گئے۔ انہوں حسبِ عادت روح افزا سے تواضع کی۔ عیادت کی ملاقات میں ان سے چھیڑ چھاڑ چلتی رہی۔ وہ ہماری بات کا جواب لیٹے لیٹے دیتے رہے۔ اچھی نوکری ملنے پر جب وہ لاہور منتقل ہوئے تو ایک ہفتے ملتان واپسی کے لیے بس میں بیٹھے کہ دل کا دورہ پڑا۔ ہسپتال لے جایا گیا لیکن طبی امداد ملنے سے قبل ہی انتقال کر گئے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا ایجوکیشن کالج کے میدان میں جنازہ ہوا۔ ہزاروں لوگ موجود تھے۔ ایسے میں جب آخری دیدار کیا جا رہا تھا تو اتنے میں برقع پوش بی بی آئی۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے اپنے لیے راستہ بنایا۔ چارپائی پر پڑے کریم ملک کو دیکھا پھر آسمان کی طرف نظریں کیں۔ جلدی سے اس رکشے کی طرف بڑھی جہاں پر ایک نوکرانی کی گود میں شیر خوار بچہ رو رہا تھا۔ اس بچے کا رونا بنتا تھا کہ وہ بچہ اپنے باپ سے محروم ہوا جبکہ اس کی کم عمر ماں جوانی میں بیوہ۔
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس
فیس بک کمینٹ