18 جون 2017ءکی شب جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے شیروں نے بھارت کو چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں ہر شعبہ میں چِت کیا تو مَیں نے سب سے پہلا فون بیرونِ ملک مقیم اپنے بیٹے جاذب حسن کو کیا۔ اسے مبارک باد دی تو وہ اتنا جذباتی تھا کہ کہنے لگا پاپا جان جب 1992ء میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا تھا تو ٹیم میں کتنے ہیرو تھے۔ جواب دیا پوری ٹیم ہی ہیروز پر مبنی تھی۔ عمران خان، جاوید میانداد، انضمام الحق، رمیز راجہ، عامر سہیل، وسیم اکرم، سلیم ملک، اعجاز احمد، معین خان، مشتاق احمد اور عاقب جاوید سمیت سب ہی ہیرو تھے۔ اس وقت کی کرکٹ ٹیم کے ارکان پاکستان کے ہر گھر میں بستے تھے۔ ان کے پوسٹر جگہ جگہ آویزاں ہوتے تھے۔ کالج فائل سے لے کر نوٹ بک کے سرورق پر ان کھلاڑیوں کی تصاویر ہوا کرتی تھیں۔ اخبارِ وطن اور کرکٹر کے نام سے صرف کرکٹ کی معلومات کے رسالے شائع ہوتے تھے۔ یہ کھلاڑی کرکٹ کے میدان کے علاوہ جس جگہ دکھائی دیتے تو سینکڑوں لوگوں کا ہجوم ہو جاتا۔ مَیں اپنے بیٹے کو بتا رہا تھا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد انضمام الحق پہلی مرتبہ اپنے گھر ملتان آیا تو ایئرپورٹ سے لے کر اس کے گھر نواں شہر تک سڑک بلاک تھی۔ اس دن اہلِ ملتان نے اسے اتنا پیار دیا کہ خود انضمام الحق کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا وہ واقعی ہیرو بن چکا ہے۔
میری یہ باتیں سن کر جاذب حسن کہنے لگا 1992ء کی پوری ٹیم ہیروز کی تھی لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ 2017ءمیں جس ٹیم نے چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کو شکست دی ہے ان میں بیشتر کھلاڑی ایسے ہیں جنہوں نے بیرونِ ملک کا سفر ہی پہلی مرتبہ کیا۔ پھر وہ کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں ہمارے کپتان سرفراز کی اصل وجہ شہرت کیا ہے؟ وہ حافظِ قرآن ہونے کے علاوہ بڑا اچھا نعت خواں بھی ہے۔ فارغ اوقات میں اس کا مشغلہ نعت خوانی ہے۔ پھر فائنل میں اس نے جس طرح کپتانی کا حق ادا کیا وہ بڑا اہم ہے۔ اسی کے ساتھ یورپی میڈیا جس بات پر حیران ہے وہ یہ ہے کہ اس نے جب میچ میں فتح حاصل کرنے کے بعد صحافیوں سے بات کی تو اس کا چاند سا بیٹا اس کے سینے کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ حافظ سرفراز احمد اصل میں اپنی اولاد کو یہ پیغام دے رہا تھا کہ اس کا سب کچھ اپنی اولاد اور قوم کے بچوں کے لیے ہے۔ سٹریٹ فائٹر کی شہرت رکھنے والا سرفراز احمد شروع سے ہی کرکٹ کا دیوانہ ہے۔ 2016ءمیں اس نے انڈر 19 کا ورلڈ کپ جتوایا تب اس نے قومی ٹیم میں کامران اکمل اور عدنان اکمل کی جگہ لی۔ یہی بات اس کی زندگی کا اہم موڑ ثابت ہوئی۔ اظہر علی کو ون ڈے کرکٹ کی کپتانی سے ہٹا کر سرفراز احمد کو ٹیم کی کمانڈ دی گئی تو آغاز میں اسے بڑے مشکل دن دیکھنے کو ملے لیکن اس کے بعد وہ اپنی کارکردگی سے آگے بڑھتا رہا۔ آخرکار 18 جون کو اس کی قیادت میں پاکستان نے ایسا معرکہ سَر کیا جس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
میرا بیٹا پاکستان کے اُن ہیروز کے متعلق میری معلومات میں اضافہ کر رہا تھا جن کو مَیں پہچانتا نہیں۔ ان کے نقوش سے واقف نہیں۔ لیکن ان کے نام اور کارناموں سے واقف ہوں۔ پھر جاذب کہنے لگا پاپا جان کیا آپ کو معلوم ہے یہ فخر زمان کون ہے؟ نہیں مَیں نہیں جانتا۔ یہ فخر زمان قوم کا فخر کیسے بنا؟ کہنے لگا مردان سے تعلق رکھنے والا فخر زمان 19 برس قبل اپنے شہر سے نکلا کہ روزگار کمایا جائے۔ نیوی میں بھرتی ہوا۔ اپنے کوچ کو کہا مَیں کرکٹ کھیلنے کے لیے نیوی میں آیا ہوں۔ لیکن وہاں بھی اسے کامیابی نہ ملی تو دل برداشتہ ہو کر کراچی سے واپس مردان چلا گیا۔ اس کے کوچ نے فخر زمان میں جوہرِ قابل دیکھ رکھا تھا اس نے فخر سے رابطہ کیا فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلنے کے لیے منتخب ہوا۔ 2016ءمیں قائدِ اعظم ٹرافی کھیلی۔ پی۔ایس۔ایل فائنل میں لاہور قلندر کے اسکواڈ میں شامل ہوا۔ پھر قومی ٹیم کا حصہ بن کر ویسٹ انڈیز چلا گیا۔ وہاں پر بھی قابلِ ذکر کارکردگی نہ تھی۔ چیمپیئنز ٹرافی میں وہ بھرپور فارم میں تھا۔ فائنل میں 114 رنز سکور کیے۔ پاکستان کی فتح کی بنیاد رکھی اور پھر فاتح کی حیثیت سے میچ کے اختتام تک جھومتا رہا۔ میرا بیٹا بتانے لگا فخر زمان ایک سچا اور کھرا کھلاڑی ہے۔ حق بات کہنے سے ڈرتا نہیں ہے۔ وہ اپنے گھر کے حالات بہتر کرنے کے لیے مردان سے کراچی آیا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے حالات بہتر کر دے گا۔
مَیں نسلِ نو کے نمائندے سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے گمنام ہیروز کی کہانیاں سن کر حیران ہو رہا تھا کہ آج کل ہماری ٹیم کس طرح کے کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر قوم کے وقار میں اضافہ کر رہی ہے۔ پھر جاذب کہنے لگا پاپا جان حسن علی نام کا بائولر جس نے پورے ٹورنامنٹ میں اپنی شاندار کارکردگی سے جو نام بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ منڈی بہائوالدین سے تعلق رکھنے والا حسن علی 1994ءمیں پیدا ہوا۔ اپنے شہر کے گلی کوچوں میں کرکٹ کھیل کر اس میں جنون پیدا ہوا۔ دوستوں کے مشورے پر لاہور گیا تو لاہور ریجن کے لیے کھیلنے لگا۔ PSL میں آیا تو پشاور زلمی کے ساتھ کھیلا۔ اس کے کھیل کو دیکھ کر تمام کمنٹیٹر کہتے تھے یہ اکیلا کھلاڑی پوری ٹیم کو آگے لے جا سکتا ہے۔ مبصرین کی کہی ہوئی باتیں پوری ہوئیں۔ آخرکار حسن علی چیمپیئنز ٹرافی میں پلیئر آف دی ٹورنامنٹ قرار پایا۔
جیت کی خوشی میں میرا بیٹا پوری ٹیم کا پروفائل مجھے بتا رہا تھا۔ اس دوران مَیں سوچ رہا تھا کرکٹ کے جن نوجوان نے ہمیں پوری دنیا میں سرفراز کیا ان میں سے ایک دو کے علاوہ مَیں کسی کو نہیں پہچانتا۔ نئے لڑکوں نے عید سے قبل پوری قوم کو جو عیدی دی وہ ہمیں ہمیشہ یاد رہے گی۔ ٹیم کی محنت دیکھ کر اب ہمیں یقین ہو چلا ہے کہ اگر ہیروز کی بجائے پروفیشنلز پر زور دیا جائے تو کامیابی مل سکتی ہے (یہی پیغام میرا عمران خان کے لیے ہے وہ اگر پی پی کے ناکام اُمیدواروں کی بجائے اپنی پارٹی کے نئے ہیروز کو موقع دے تو مجھے یقین ہے پی ٹی آئی کو کراچی، حیدرآباد میں ایم کیو ایم جیسی فتح مل سکتی ہے) کرکٹ کی یہ ٹرافی جیتنے کے بعد اگلا معرکہ کرکٹ ورلڈ کپ ہے جو 2019ءمیں ہونے جا رہا ہے۔ اگرچہ ورلڈ کپ کی تیاری کے لیے وقت کم ہے لیکن اگر ہم سرفراز احمد، فخر زمان اور حسن علی جیسے تین اور ہیرو تلاش کر لیں تو کوئی بعید نہیں ورلڈ کپ بھی ہمارا ہو سکتا ہے۔ بشرط حافظ سرفراز احمد کھیلنے کو چاند نہ مانگ لے۔ البتہ فخر زمان اور حسن علی جیسے کھلاڑی تلاش کرنے کے لیے کرکٹ کنٹرول بورڈ کو گلی کوچوں میں جانا ہو گا۔ فخر زمان اور حسن علی سے رہنمائی لینا ہوگی کہ فخر کا تعلق ایسے گھرانے اور علاقے سے ہے جہاں کے گھروں میں ٹی وی تک نہیں ہے۔ قارئین کرام آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہو گی جب فخرزمان کا پہلا میچ ٹی وی پر آیا تو اس کے محلے اور گھر والوں نے ایک ایسی جگہ پر جا کر میچ دیکھا جس کو ڈھابا کہا جاتا ہے۔ جی ملک و قوم کے فخر ایسی جگہوں پر کرکٹ کھیل رہے ہیں جہاں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ آئیے ہم اپنے محلوں اور گلی کوچوں میں پھیلے ایسے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ یہی ہمارے مستقبل کے ہیروز ہیں اور انہی کرکٹرز کی وجہ سے قوم کو ایک عرصے بعد متفق ہیروز میسر آئے ہیں۔ شکریہ کرکٹ ٹیم آپ کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔
(بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ