یہ کالم مَیں 28 رمضان کی صبح بیٹھ کر تحریر کر رہا ہوں۔ پورا رمضان گزر گیا کہیں افطار کیا تو کسی نے سحری پر یاد کیا۔ اس برس کچھ احباب نے گھروں پر افطاری کا اہتمام کیا۔ یوں لگتا ہے اب رمضان المبارک کی اصل خوش اس افطاری میں پنہاں ہے۔ جہاں ہر شام مختلف انواع و اقسام کے کھانے دسترخوان پر سجے ہوتے ہیں۔ ماضی میں افطاریوں کے ساتھ پندرہ رمضان کے بعد احباب کی جانب سے عیدکارڈز کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا تھا۔ جن دنوں عیدکارڈز ارسال کرنے کی روایت پورے جوبن پر ہوا کرتی تھی تب ہمارے پاس عیدکارڈز سو سے زیادہ آیا کرتے تھے۔ پھر رمضان سے قبل ”رمضان المبارک کارڈز“ بھی ملنے شروع ہو گئے۔ مطلب یہ ہے کہ پورا رمضان مختلف کارڈز پڑھنے اور ان کے جواب دینے میں گزر جاتا تھا۔ برا ہو کمپیوٹر، انٹرنیٹ اسی قسم کی اور خرافات کا جنہوں نے ہم سے عیدکارڈز جیسی خوبصورت روایت ہی چھین لی۔ عیدکارڈ ہمارے معاشرے کے منظرنامے سے اتنی تیزی سے غائب ہوا ہے کہ نئی نسل کو تو معلوم ہی نہیں ہے کہ ماضی میں عیدکارڈز کے گلی محلوں میں مہندی اور چوڑیوں کی طرح سٹال لگا کرتے تھے۔ ایسے سٹال کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا وغیرہ وغیرہ۔
اس تمام تمہید کا مقصد یہ ہے کہ جس شخص کو ماضی میں عیدالفطر کے موقع پر سینکڑوں عیدکارڈز آیا کرتے تھے اس سال یعنی 2017ءمیں صرف ایک عیدکارڈ آیا ہے وہ کارڈ بھی اس نوٹس کے تحت آیا ہے یہ عیدکارڈ میری طرف سے آخری عیدکارڈ ہے کیونکہ مَیں اپنی ملازمت کی مدت مکمل کرنے کے بعد اسی سال ریٹائر ہو رہا ہوں۔ اس لیے میری طرف سے عیدکارڈ کا آخری تحفہ وصول کریں۔ یہ کارڈ گزشتہ بیس برسوں سے ہمیں سول ایوی ایشن کے اعلیٰ افسر چوہدری اشرف شاد بھجوا رہے تھے۔ اس مرتبہ ہمیں انہوں نے عید کا اکلوتا کارڈ بھیج کر یاد کروا دیا کہ عیدالفطر کے موقع پر ایک خوبصورت رسم عیدکارڈز بھی ہوا کرتے تھے۔ محکمہ ڈاک والے رمضان المبارک کے آغاز میں اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک عید کارڈز ارسال کرنے کی آخری تاریخ کااعلان کیا کرتا تھا۔ اب ڈاک خانے والے کسی بھی تاریخ کا اعلان نہیں کرتے۔ وجہ آپ کے سامنے ہے عیدکارڈز اپنی موت آپ مر چکے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کسی زمانے میں ادیب، شاعر اپنے عیدکارڈز شائع کراتے تھے۔ شعراءکرام عید کے حوالے سے اپنے اشعار شامل کرتے تھے۔ سرکاری ادارے اپنے مونوگرام کا کارڈ جبکہ سیاست دان اپنی پارٹی کے پرچموں کے رنگوں کے کارڈز بھجوایا کرتے تھے۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ یونیسکو اور کڈنی سنٹر کراچی والے رفاعی کاموں کے لیے عیدکارڈز کے ایک پیکٹ کے ذریعے عطیات جمع کیا کرتے تھے۔ بہت سے مہذب لوگ اسی قسم کے کارڈز خرید کر احباب کو بھجوایا کرتے تھے۔ ماضی میں عیدکارڈز کی اتنی ورائٹی ہوا کرتی تھی کہ سعودیہ سے صرف مکہ اور مدینہ کے متبرک مقامات کی تصاویر کے کارڈز آتے تھے۔ پھر پاکستان والوں نے پھولوں کے مختلف ڈیزائن کے کارڈز متعارف کرائے۔ ملک میں کمپیوٹر گرافکس کے تحت انقلاب آیا تو عیدکارڈز کے اتنے شاندار ڈیزائن مارکیٹ میں آئے۔ عیدکارڈز بھجوانے والوں کے لیے انتخاب مشکل ہو جاتا۔ بہرحال یہ سب باتیں ماضی کا حصہ ہیں۔ جس کا نسلِ نو ادارک ہی نہیں رکھتی۔ ڈاکیے پورا رمضان عیدکارڈز ہر جگہ تقسیم کرتے لیکن عید کے دن عیدی لینے کے لیے ایک کارڈ روک لیتے اور وہ عید کے دن جا کر پہلے کارڈ دیتے پھر عیدی وصول کرتے۔
چند سال پہلے پوری دنیا میں چین نے اپنی مصنوعات کے ذریعے انقلاب برپا کیا تو اس نے میوزیکل عیدکارڈز اور لائٹ کارڈز بھی متعارف کرائے۔ جس کو اتنی پذیرائی ملی تو وہی ٹیکنالوجی چین والوں نے جنرل کارڈز پر بھی آزمائی۔ کارٹون کریکٹر کے عیدکارڈز نے بھی خوب دھوم مچائی۔ غرض یہ ہے کہ ماضی میں عیدکارڈز کی اتنی ورائٹی ہوا کرتی تھی کہ دیکھ کر جی خوش ہو جاتا۔
بات شروع ہوئی آخری عیدکارڈ سے جو ہمیں چوہدری اشرف شاد نے لاہور سے بھجوایا۔ اس مرتبہ کارڈ کے ٹائٹل پر انہوں نے اپنے پرانے دوستوں کی تصاویر کے علاوہ پاکستان کے مختلف ایئرپورٹس کے مناظر شائع کیے ہیں۔ کارڈ کھلتے ہی آخری عیدکارڈ کی عبارت کچھ یوں سامنے آتی ہے۔
”آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو عیدمبارک ہو۔ اس کے ساتھ بذریعہ ڈاک عیدکارڈ بھجوانے کا باب تمام ہوا اور کاغذی عیدمبارک کہانی ویسے ہی اپنے اختتام کو پہنچی جیسے سرکار کی نوکری۔ غمِ روزگار کی بھاگ دوڑ کا آخری سال اور آپ کے ہاتھ میں میری جانب سے ارسال کینے جانے والے آخری عیدکارڈ سے برسوں کی یکسانیت انجام کو پہنچی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ہاتھوں تبدیلی کے جبر کا شکار ایک اور خوبصورت روایت کا عہد تمام ہوا۔ محبت اور رابطہ یقینا ہمیشہ قائم رہے گا مگر نئے عہد کے تقاضوں کے مطابق۔ آج کے بعد یہ قصہ ماضی ہونے والا یہ محض عیدکارڈ نہیں ایک سوینیئر بھی ہے اور برسوں پرانی روایت کی آخری قسط بھی۔“
یہ عبارت بظاہر آخری عیدکارڈ کا اطلاع نامہ ہے لیکن برادرم چوہدری اشرف شاد نے بڑی خوبصورتی سے عیدکارڈ کا نوحہ بھی تحریر کیا ہے۔ میرے خیال میں اشرف شاد نے اگلے برس عیدکارڈ نہ ارسال کرنے کا جو عہد کیا وہ درست ہے کہ اب عیدکارڈ سے ہماری دلچسپی اتنی رہ گئی ہے کہ ہم اِکا دُکا عیدکارڈز کو پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ایک پروفیسر دوست نے اسی طرح رمضان میں عیدکارڈ سمجھ کر اس کا لفافہ کھولنا پسند نہ کیا۔ عید کے بعد ڈاک کی صفائی کرتے ہوئے انہوں نے وہ لفافہ کھولا تو معلوم ہوا شہر کے سب سے بڑے ہوٹل کی افطاری کا وہ دعوت نامہ تھا۔ وہ دعوت نامہ عیدکارڈ کے دھوکے میں ضائع ہو گیا۔
جی قارئین کرام عید کے دنوں میں ہم عیدکارڈز کو اس لیے یاد کر رہے ہیں کہ اب ہمارے بچوں کو ایسے خوبصورت تہوار پر عیدکارڈز کی بجائے نئے ایپ درکار ہوتے ہیں۔ یہ دور انہی کا ہے۔ وہ اس دور کو اپنے انداز سے گزار رہے ہیں۔ ہم جیسے لوگ جو پرانی روایات کے امین ہیں ان سے اب وہ پرانی یادیں بھی دور ہوتی جا رہی ہیں۔ اس لیے آخری عیدکارڈ کا دراوزہ ابھی بند ہونے کو تھا کہ چوہدری پرویز الٰٰہی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ملتان کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر رانا الطاف احمد کی طرف سے دوسرا عیدکارڈ بھی آ گیا یعنی ابھی عیدکارڈز کا دروازہ مکمل بند نہیں ہوا۔ یعنی
نہیں ہے نااُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
یہ عید ہم ”دو“ عیدکارڈز کو وصول کر کے آپ کو بھی عیدمبارک کہتے ہیں کہ اصل عید کا مزہ عیدکارڈ میں ہے۔
فیس بک کمینٹ