یہ کالم 5 جولائی کی دوپہر کو لکھ رہا ہوں کہ سابق صوبائی وزیر زکواۃ و عشر میاں سعید احمد قریشی کو ہم سے بچھڑے 20 دن ہو گئے لیکن ابھی تک ان کی یاد میں ملتان والوں نے کوئی تعزیتی ریفرنس تک نہیں کیا۔ اصولی طور پر یہ کام ان کے شاگرد حاجی احسان الدین قریشی (رکن صوبائی اسمبلی) کو کرنا چاہیے تھا چونکہ میاں سعید احمد قریشی مسلم لیگ کو خیرباد کہہ کر تحریکِ انصاف میں شامل ہو گئے تھے اس لیے حاجی احسان الدین قریشی اپنی مرکزی قیادت کے خوف سے کبھی بھی سعید احمد قریشی کے لیے تعزیتی ریفرنس کا اہتمام نہیں کریں گے۔ تحریکِ انصاف کا ابھی یہ کلچر نہیں ہے کہ وہ جانے والوں کو یاد کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تحریکِ انصاف تو ابھی نئے آنے والوں میں اتنی مصروف ہے کہ ان کو جانے والوں کی ہوش نہیں ہے۔ اس ساری گفتگو کے پس منظر میں ایک بہت اہم بات یہ ہے کہ 1985ء سے لے کر 16 جون 2017ء تک میاں سعید احمد قریشی نے سیاسی طور پر بہت سے عروج و زوال دیکھے۔ اپنے سیاسی سفر میں وہ دو مرتبہ صوبائی وزیر زکواۃ و عشر رہے۔ پہلی مرتبہ میاں نواز شریف نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا تو دوسری مرتبہ میاں منظور احمد وٹو کی صوبائی کابینہ کا حصہ بنے۔
1985ء میں جنرل ضیاء الحق نے غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے چاروں صوبوں میں اپنی پسندیدہ وزارئے اعلیٰ بنوائے۔ تو پنجاب میں غلام جیلانی خان کی نظرِ انتخاب وزیرِ اعلیٰ کے لیے نواز شریف پر ٹھہری۔ میاں نواز شریف نے غیر جماعتی ایوان کی کابینہ تشکیل دی تو ملتان سے میاں سعید احمد قریشی کا نام فائنل کیا۔ 1985ء کی اسمبلی میں ملتان سے ان کے ساتھ ملک صلاح الدین ڈوگر، حاجی محمد بوٹا اور میاں مختار احمد شیخ بھی منتخب ہوئے۔ مجھے یاد ہے جب میاں سعید قریشی ایم پی اے بن گئے تو انہوں نے منتخب ہونے کے بعد اپنے صوبائی حلقے کے ہر گھر میں جا کر شکریہ ادا کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے شکریے کا ایک ہینڈبل بھی تقسیم کرایا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سیاسی سفر کے آغاز میں ہی سیاست میں سرگرم رہنے کے لیے کتنی پلاننگ کی تھی۔ وہ ملتان کے واحد سیاست دان تھے جنہوں نے سیاست میں رہنے کے لیے مالی قربانی کے علاوہ اپنی اولاد کی قربانی بھی دی کہ جب انہی کے گھر پر سیاسی مخالفین نے کھلی فائرنگ کی تو جان بچانے کے لیے ان کا معذور بیٹا ہی ان پر لیٹ گیا۔ گولیاں اس بیٹے نے اپنے سینے پر کھائیں اور اپنے والد پر قربان ہو گیا۔ سیاست میں ابھی وہ یہ صدمہ نہیں بھولے تھے کہ ان کا جواں سال بیٹا ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گیا۔ ان کا وہ بیٹا سیاست کے ساتھ ساتھ صحافت بھی کر رہا تھا کہ اس کے پاس جرنلزم کی ماسٹر ڈگری موجود تھی۔ اشرف سعید قریشی کی ناگہانی موت پر وہ ٹوٹ پھوٹ گئے۔ لیکن اپنی ہمت کے مطابق سیاست میں سرگرم رہے۔
ن لیگ کے بعد وہ جونیجو لیگ میں گئے تو میاں منظور احمد وٹو نے انہیں اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ انہوں نے اپنی سیاسی عروج میں بے شمار لوگوں کی تربیت کی۔ ان تربیت یافتہ لوگوں میں بے شمار نام ایسے ہیں جنہوں نے سیاسی میدان میں میاں سعید احمد قریشی سے زیادہ ترقی کی۔ ان کا تعلق ملتان کے اندرون سے تھا۔ جہاں پر اُردو بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں جب ان کا تعارف ہوا تو اس سے پہلے ان کی شہرت ڈپو ہولڈر کی تھی۔ یادش بخیر بھٹو کے دورِ حکومت میں آٹے اور چینی کی وجہ سے ہر وارڈ کے ڈپو ہولڈر کی طاقت کسی ڈپٹی کمشنر سے کم نہ ہوا کرتی تھی۔ ایسے میں ملتان کے چند ڈپو ہولڈرز ہی نامور ہوئے جن میں میاں سعید احمد قریشی، ملک عاشق علی شجرا، شیخ ظہور احمد اور ہلال جعفری وغیرہ کے نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں۔ ملک عاشق علی شجرا بھی میاں سعید احمد قریشی کے ساتھ عملی سیاست میں آئے لیکن وہ کسی بھی اسمبلی کے رکن منتخب نہ ہو سکے۔ البتہ بلدیاتی سیاست میں وہ تقریباً ناقابلِ شکست رہے۔ آج کل انہوں نے اپنی سیاسی وراثت بچوں کے حوالے کر رکھی ہے جن کو آغاز میں ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈپو ہولڈرز سیاست دانوں میں ایک نام شیخ ظہور احمد مرحوم کا بھی رہا۔ شیخ صاحب کی شخصیت بڑی پراسرار قسم کی تھی۔ ضیاء دور میں ان کو عروج ملا۔ جب نواز شریف وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بنے تو شیخ ظہور احمد ادنیٰ کارکن مسلم لیگ کے طور پر اخبارات میں ان کے لیے پورے صفحے کے اشتہارات شائع کراتے تھے۔ انہی اشتہارات کی وجہ سے ملتان کی انتظامیہ ان کے جائز و ناجائز کام کرنے لگی۔ اخبارات میں اِن رہنے کے لیے وہ ہر قسم کے صحافیوں کو عمرے کرانے لگے جس کے بعد مقامی اخبارات میں کبھی بھی ان کے متعلق منفی خبر شائع نہ ہوئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ شیخ ظہور کو شہر کے لوگ شیخ اشتہار احمد کہنے لگے۔ انہی اشتہارات کی بدولت وہ شہر کے بڑے ٹرانسپورٹر بھی بن گئے۔ ملتان کے جس علاقے میں ان کا ویگن اسٹینڈ قائم تھا وہاں کے مکین ویگنوں کی بھرمار سے تنگ رہنے لگے۔ شکایت لے کر کس کے پاس جاتے۔ پوری انتظامیہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی رہتی تھی۔ 1999ء میں جب پرویز مشرف نے نواز حکومت پر شب خون مارا تو اُسی دن میاں نواز شریف بطور وزیراعظم ملتان اور شجاع آباد کے دورہ پر تھے۔ شیخ ظہور احمد نے حسبِ سابق اخبارات میں وزیراعظم نواز شریف کے بکرے اور اونٹوں کا صدقہ دینے کی خبریں اور خیر مقدمی اشتہارات شائع کرائے۔ کوئی بعید نہیں شیخ ظہور ان کا استقبال کرنے ایئرپورٹ بھی گئے ہوں۔ رات گئے جب پرویز مشرف نے عزیز ہم وطنو! والی تقریر کی تو اگلے دن کے تمام قومی اخبارات کے صفحہ اول آج بھی اس بات کے گواہ ہیں جنرل پرویز مشرف کے حق میں ملک بھر میں پہلے اشتہارات شیخ ظہور احمد نے شائع کرائے۔ شیخ ظہور کا خیال تھا کہ نواز شریف بھی پرویز مشرف کی طرح ان اخباری اشتہارات سے متاثر ہوں گے لیکن باوجود بھرپور کوشش کے ان کی بات نہ بن سکی۔ جس کے بعد فوجی حکام نے سب سے پہلے رہائشی علاقوں میں ان کے ویگن اسٹینڈ ختم کرائے۔ جس پر موصوف اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ بیمار ہوئے اور انتقال کر گئے۔ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو جنازے کے خبر بھی اخبارات میں شائع نہ ہوئی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ مرحوم نے ملتان کے تمام اخبارات کے اشتہارات کی مَد میں لاکھوں روپے ادا کرنے تھے۔ واﷲ اعلم۔۔۔
بات ہو رہی تھی سابق صوبائی وزیر میاں سعید احمد قریشی کی۔ جونیجو لیگ کے بعد انہوں نے ن لیگ میں واپسی کرنا چاہی تو وہاں پر انہی کا لگایا ہوا پودا حاجی احسان الدین قریشی ان کی جگہ پُر کر چکا تھا۔ پی پی میں جانے کے لیے بھی سوچتے رہے لیکن پی پی میں جانے کی بجائے تحریکِ انصاف میں چلے گئے اور 2013ء کا انتخاب بلے کے نشان پر لڑا اور معمولی ووٹوں سے شکست کھا کر گھر بیٹھ گئے۔ جواں سال بیٹے کی موت کا صدمہ۔ انتخابات میں شکست نے ان کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ شوگر کی وجہ سے گردوں نے کام چھوڑ دیا۔ ڈائیلسز کراتے رہے۔ موت سے چند ہفتے قبل ڈاکٹروں نے جسم کا ایک حصہ بھی شوگر کی وجہ سے کاٹ دیا۔ لیکن اس کے باوجود حوصلے سے کام لیتے رہے۔ رمضان المبارک میں ان کے دوست اور محبی ڈاکٹر محمد اشرف قریشی ایڈووکیٹ سے ملاقات ہوئی تو ان سے میاں صاحب کی صحت کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے مایوسی کا اظہار کیا اور پھر 16 جون جمعتہ المبارک کی صبح جب ان کا انتقال ہوا تو شہر میں ان کے انتقال کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ ملتان کے ایم سی سی گراؤنڈ میں ہزاروں لوگ اپنے محبوب سیاست دان کو رخصت کرنے کے لیے جمع تھے۔ سپیکر پر محمد اشرف قریشی لوگوں کو صبر کی تلقین کے علاوہ صفیں سیدھی کرنے کی درخواست کر رہے تھے۔ جب مسلسل ایک گھنٹہ سے زیادہ ہو گیا کہ لوگ آتے جا رہے تھے تو آخرکار جنازہ پڑھا دیا گیا۔ مَیں ان کے بچوں اسلم سعید قریشی اور ندیم قریشی سے افسوس کرنا چاہتا تھا تو پھر خیال آیا یہ صرف ان کا ہی نہیں پورے شہر کا نقصان ہوا۔ سو آج کا یہ کالم پورے شہر کی طرف سے تعزیت کے طور پر ہے کہ وہ کسی ایک جماعت، ایک گروہ یا ایک خاندان کے فرد نہیں تھے بلکہ وہ شہر کے لیڈر تھے۔ بھلا آپ ان سے سیاسی و جماعتی اختلاف کر لیں لیکن وضع داری اور خوشی غمی میں پہنچنا ان کا شیوہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آمین!
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس()
فیس بک کمینٹ