چند روز پہلے کی بات ہے کہ میرے موبائل پر ایک فون آتا ہے کہ لاہور سے شفقت پرویز بھٹی نے اپنی کتاب ’’اقبال قلندر ۔ اقبال کی نظر میں‘‘ بھجوائی ہے۔ فون کرنے والا یہ بھی کہتا ہے کہ بابا جی نے حکم دیا تھا یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں دینی ہے اور ہم اس وقت روزنامہ ایکسپریس ملتان کے دفتر کے باہر کھڑے ہیں۔ آپ باہر آ جائیں تاکہ یہ امانت آپ کے حوالے کر دوں۔ مَیں نے کہا آپ یہ کتاب ایکسپریس کے استقبالیے پر چھوڑ دیں۔ شام تک یہ کتاب میرے پاس پہنچ جائے گی۔ نہیں نہیں بابا جی کا حکم تھا کتاب آپ کے ہاتھ میں دینی ہے۔ فون کرنے والا ضد کرنے لگا۔ اچھا تو آپ پھر میرے دفتر ملتان کینٹ آ جائیں۔ مَیں نے پتہ سمجھایا اور ٹھیک پانچ منٹ بعد دو نوجوان وہ کتاب لے کر میرے پاس موجود تھے۔ مَیں نے کتاب کو دیکھا۔ پسِ ورق پر شفقت پرویز بھٹی کی تصویر دیکھی۔ اپنی یادداشت پر زور دیا کہ میری ان سے کہاں ملاقات ہوئی تو ذہن میں بے شمار شفقت نام کے دوستوں کے نقوش سامنے آئے لیکن شفقت پرویز بھٹی میری یادوں میں کہیں نہیں تھے۔ مَیں نے کتاب لانے والوں سے مزید دریافت کیا ملتان میں اور کس کو یہ کتاب بھجوائی ہے؟ کہنے لگے صرف آپ کے لیے۔ اب میری حیرت میں اضافہ ہونے لگا۔ کتاب کو کھول کے دیکھا اور پھر پڑھنے لگا۔ پہلے صفحہ نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ انہوں نے اپنے بارے میں کچھ یوں لکھا۔
’’مَیں جالندھر شہر میں ایک غریب گھر میں پیدا ہوا۔ والد صاحب کے ایک دوست نے کتابوں کی دکان کھولی جو چل نہ سکی۔ بازار میں دکان کے قریب محلہ میں ہمارا گھر تھا۔ اس نے وہ تمام کتابیں ہمارے گھر رکھوا دیں۔ مَیں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔مَیں نے سکول سے آ کر کھانا کھا کے سکول کا کام کر کے الماری میں سے کوئی کتاب نکال کر پڑھنی شروع کر دی۔ ایک روز میرے ہاتھ میں بانگِ درا آ گئی اس میں بچوں کے لیے جو نظمیں تھیں پڑھتا رہا۔ جب اگلے صفحے کھولتا تو مجھے الفاظ سمجھ میں نہ آتے مگر ان الفاظ کو دیکھ کر میرے دل میں خوشی کی لہر سی دوڑتی محسوس ہوتی۔ پھر پاکستان بن گیا۔ مَیں ردی فروشوں سے آٹھ آنے والا رسالہ ایک آنے میں خرید کر پڑھتا رہا۔ پھر مَیں کام میں لگ گیا۔ جب میرے پاس چار روپے ہوئے تو مَیں لوہاری گیٹ کے اندر مبارک علی صاحب کی دکان سے بانگِ درا خرید لیا اور پڑھنے لگا۔ ایسے محسوس ہوتا کہ مجھے سخت پیاس ہے۔ وہ ٹھنڈے پانی کا گلاس میرے سامنے پڑا ہے مگر مَیں پی نہیں سکتا۔ ان دنوں میرے محلے میں ایک شخص تھے ممتاز صاحب جو بی۔اے کرنے کے بعد فقیر ہو گئے تھے۔ یعنی دنیاداری سے الگ ہو گئے تھے۔ ان کے پاس بیٹھتا تو وہ اقبال کے شعر پڑھا کرتے تھے اور ساتھ ہی ترجمہ بھی کرتے۔ مَیں نے کبھی کبھی کسی شعر کا مطلب پوچھتا تو وہ کہتے اگر اقبال کو سمجھنا ہے تو پہلے کامل کے مرید بنو۔ مجھے عام عالم لوگ پسند نہیں آتے تھے۔ مَیں بھاٹی میں رہتا تھا اور صبح سیر کرنے منٹو پارک جایا کرتا تھا۔ واپسی پر اقبال کے مزار پر ان کے پاؤں کی طرف کھڑے ہو کر ہاتھ اُٹھا کر دُعا مانگتا کہ علامہ صاحب دُعا کریں مجھے آپ کا کلام سمجھ میں آ جائے۔ ایسے ہی دُعا کرتا رہا مگر ناکام رہا۔ پھر میری خوش قسمتی کہیے کہ مجھے مرشد بابا جی مل گئے۔ انہوں نے کرم کیا تو مجھے اقبال، بلھے شاہ، سلطان باہو، کبیر جی اور سب بزرگ سمجھ آنے لگے۔ پھر ایک روز مرشد جی کا حکم ہوا کہ ملتان آ کر حلوے، مال پوڑے لڈؤوں پر ختم دلاؤں۔ مَیں نے عمل کیا۔ اس واقعے کے قریباً چھ ماہ بعد اخبار میں پڑھا کہ صدر ضیاء الحق نے آرڈر کیا ہے کہ آئندہ اقبال ڈے ان کی پیدائش کے روز 9 نومبر کو منایا جایا کرے گا۔ مَیں ان دنوں ڈائری لکھا کرتا تھا جب مَیں نے ڈائری نکلوا کر پڑھی تو جس روز مجھے ختم دلانے کا حکم ہوا تھا اس روز 9 نومبر ہی تھا۔ تب سے ہر سال 9 نومبر حلوے، مال پوڑہ، لڈؤوں پر علامہ صاحب کا ختم دلاتا ہوں۔ 27 اکتوبر کو بابا جی کا عرس ہوتا ہے۔ چند سال سے قوالی بھی کراتا ہوں۔ اب مجھے مرشد صاحب کا حکم ہوا ہے کہ اقبال کا تعارف کرا دوں تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ لہٰذا مَیں نے اپنے مرشد جی کے حکم کے مطابق یہ مضمون لکھا۔
مَیں ایک دن استاد دامن کی کوٹھڑی میں بیٹھا تھا وہاں میجر اسحاق صاحب مزدور کسان پارٹی کے صدر جنہوں نے پنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض کے ساتھ جیل کاٹی تھی۔ وہ استاد صاحب کو ایک کتاب دینے آئے تھے جو انہوں نے محترم حسن ناصر پر لکھی تھی۔ باتوں باتوں میں جب اقبال کا ذکر آیا تو میجر صاحب کہنے لگے کہ اقبال کی کیا بات ہے وہ تو علم کا خزانہ ہیں۔ جو شخص جو چاہے وہاں سے لے لیتا ہے۔ وہ کسی کو بھی مایوس نہیں کرتے۔‘‘
علامہ اقبال کی شاعری و فلسفہ پر اب تک سینکڑوں کتب لکھی جا چکی ہیں۔ مستقبل میں بھی ان پر تحقیق ہوتی رہے گی۔ لیکن شفقت پرویز بھٹی کی کتاب ایک ایسے زاویے کو سامنے لاتی ہے جو ایک جوگی کا زاویہ ہے۔ کتاب سے عشق کرنے والے کا سرنامہ ہے۔ یہ کتاب کسی عالم، فاضل، پروفیسر اور ماہر اقبالیات کی نہیں بلکہ اس شخص کی ہے جو ردی فروشوں سے سستی کتابیں خرید کر اپنے علم کی پیاس بجھاتا رہا ہے۔ مَیں نے ان نوجوانوں سے دریافت کیا کہ شفقت صاحب کے مرشد ملتان میں کہاں ہوتے ہیں؟ کہنے لگے بوسن روڈ پر سبزہ زار میں ’’بابا جی سائیکلوں والی سرکار‘‘ کے نام سے ان کا مزار ہے۔ ’’بابا جی سائیکلوں والی سرکار‘‘ نام سن کر ہی حیران ہو گیا کہ مجھے جو ملتان اور اہلِ ملتان سے محبت کا دعویٰ ہے تو مَیں اب تک ان بابا جی سے کیوں متعارف نہ ہو سکا۔ مَیں نے شفقت پرویز بھٹی کے نوجوان پیغام رسانوں سے بابا جی کے متعلق بات کی تو کہنے لگے آج 26 اکتوبر کو ان کے عرس کا آغاز ہوا ہے لیکن بابا شفقت بھٹی اپنی علالت کی وجہ سے نہیں آ سکے ورنہ وہ تو ہر سال آتے ہیں اور مزار پر حلوہ، مال پوڑے اور لڈو پر ختم دلوا کے تقسیم کرتے ہیں۔ (جاری ہے)
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )
فیس بک کمینٹ