1981ء میں ہم چوک خونی برج سے چاہ بوہڑ والہ منتقل ہوئے ،تو فوری طور پر ہمیں ایک ایسے ڈاکٹر کی تلاش کرنا پڑی جو ہمارے مستقل خراب گلے کا علاج کرے ۔پہلے ڈاکٹر جن سے ہمارا تعارف ہوا وہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ڈاکٹر جاوید رشید تھے دوسرے ڈاکٹر اعجاز احمد تیسرے ڈاکٹر محمد حسین ملک ٹھہرے۔جن کے پاس میں گاہے گاہے اپنے گلے کی دوا لینے جایا کرتا تھا۔ایک دن رضی الدین رضی نے کہا یار شاکر تیرا گلا ہر وقت خراب رہتا ہے کیوں نہ میں تجھے شہر کے سب سے معروف ہومیو پیتھک ڈاکٹر مقصود زاہدی سے دوا لے کر دوں ۔ اگلے روز صدر بازار کے اندر دہی بھلوں کی دکانوں کے سامنے ہم دونوں ڈاکٹر مقصود زاہدی کے پاس موجود تھے ۔ رضی الدین رضی نے میرا ان سے تعارف کروایا اور یہ بھی بتایا کہ میں پروفیسر حسین سحر کا بھتیجا ہوں۔پروفیسر حسین سحر کا نام سننا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے کمپاؤنڈر شاہد کو آ واز دی اور کہا کہ شاکر صاحب کے لیے ایک پڑیا بنا کر لائیں ان کا گلا ابھی ٹھیک ہو جائے گا،کچھ ہی دیر بعد ان کا کمپاؤنڈر شاہد ایک پڑیا میں سفید پاؤڈر لے کر ایا اور کہا اسے بغیر پانی کے اپنی زبان پر رکھ لیں اور دوا کو چوس لیں ۔میں گلے کی درد سے پریشان تھا ، اس لیے حسب ہدایت دوا زبان پر رکھ لی ۔جبکہ رضی اور ڈاکٹر صاحب نے ادب کے حالات حاضرہ پر گفتگو شروع کر دی،کچھ ہی دیر بعد ہمارے سامنے قہوہ اگیا اور ڈاکٹر صاحب نے کہا اپ یہ قہوہ پی لیں ،تاکہ گلے کو آرام مل سکے۔اتنے میں رضی نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کیا انور بھائی موجود ہیں؟
جواب میں ڈاکٹر مقصود زاہدی نے کہا وہ موجود ہیں اور اپنے مریضوں کو چیک کر رہے ہیں۔رضی نے مجھ سے کہا چلو شاکر اب ڈاکٹر انور کے پاس چلتے ہیں ان کو جا کر تمہارا گلا چیک کرواتا ہوں پھر وہ جو دوا دیں۔ اس سے انشاءاللہ فرق پڑ جائے گا میں نے دل ہی دل میں منیر نیازی کا یہ شعر پڑھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ڈاکٹر انور زاہدی نے رضی کو دیکھتے ہی والہانہ انداز میں خوش آ مدید کہا اور مجھے دیکھ کر کہنے لگے یہ کون صاحب ہیں؟
رضی نے میرا ان سے تعارف کروایا اور کہا یہ شاکر حسین شاکر ہیں، لکھتے ہیں اور پروفیسر حسین سحر کے بھتیجے ہیں۔
ڈاکٹر انور نے مجھے اپنے سامنے بیٹھنے کو بولا نبض ہاتھ میں لی،کچھ دیر بعد کہنے لگے زبان باہر نکال کر آ کی آ واز نکالیں،میں نے ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر عمل کیا "آ” کی آ واز نکالی،اور اگلے لمحے ڈاکٹر انور کاغذ پر نسخہ لکھ رہے تھے۔یہ ہماری ڈاکٹر انور زاہدی سے پہلی ملاقات تھی۔اس کے بعد ہم جب کبھی بھی ڈاکٹر مقصود زاہدی کے پاس جاتے ،تو انور بھائی کے پاس لازمی حاضری دیتے کہ وہ اب ہمارے لیے ڈاکٹر انور کی بجائے انور بھائی بن چکے تھے ۔ ڈاکٹر انور سے انور بھائی کا سفر انہی کی محبت کا نتیجہ تھا کہ یوں لگتا تھا کہ وہ ہمارے سگے بھائیوں جیسے ہیں انہوں نے ہمیشہ ہمیں عزت دی ۔پھر جب کبھی گھر میں کسی بزرگ کی طبیعت خراب ہوتی تو ہم ڈاکٹر انور زاہدی کو ہی زحمت دیتے اور وہ فوری طور پر ہمارے گھر تشریف لے آ تے ۔یقینی طور پر ان کی یہ محبت پروفیسر حسین سحر کی وجہ سے تھی لیکن اب یوں لگتا تھا کہ وہ ہمارے بھی کچھ لگتے ہیں۔
کچھ عرصے بعد30 دسمبر 1983 ء کو انور بھائی کی کتاب "دریچوں میں ہوا” شائع ہوئی تو انہوں نے اس کی تعارفی کی تقریب کا پروگرام بنایا اس تقریب کے انتظامات کے لیے انہوں نے مجھے، رضی ، ایم ایم ادیب خلیق الرحمان اور اظہر سلیم مجوکہ کو مختلف ذمہ داریاں سونپیں اور ہم بھی خوش تھے کہ اس پروگرام کے ذریعے ہماری ادب کے نامور لوگوں سے ملاقات ہو جائے گی ۔ کتنا بھلا زمانہ تھا کہ ہم شہر کے ایک نام ور ادبی گھرانے کہ ایک فرد کی کتاب کی تعارفی تقریب کے منتظمین کے طور پر کام کر رہے تھے۔میری یادداشت کے مطابق وہ پروگرام سلور سینڈ ہوٹل ریلوے روڈ پر منعقد ہوا تھا جس کی کامیابی کی گونج ہر طرف پھیل گئی اور ہم تینوں نوجوان بہت خوش تھے کہ ہم نے ڈاکٹر انور زاہدی کی کتاب کا ایک شاندار فنکشن کروایا۔
وقت گزرتا رہا اور ہم ڈاکٹر مقصود زاہدی،انور زاہدی اور ان کی بہن ماہ طلعت زاہدی سے گاہے گاہے ملتے اور ان کی ادبی یادوں کو سن کر دل ہی دل میں سوچتے کہ ملتان کے اس گھرانے کے کتنے بڑے ادیبوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ جب کبھی ملتان آ تے ، تو انہی کے گھر ٹھہرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میری اور رضی کی فارغ بخاری،شہزاد احمد ،اسرار زیدی، عطا شاد ،منیر نیازی، منو بھائی ،جاوید شاہین اور دیگر بڑے لوگوں سے ملاقات ڈاکٹر مقصود زاہدی کے گھر محلہ کاٹھ کپ نواں شہر ملتان میں ہوئی۔
ایک دن ہمیں معلوم ہوا ڈاکٹر انور زاہدی علیل ہیں اور ان کے گردے میں پتھری موجود ہے جس کا وہ جلد آ پریشن کرائیں گے۔،میں اور رضی ان کے گھر عیادت کرنے گئے تو معلوم ہوا کہ وہ شیر شاہ روڈ ملتان کینٹ پر عوامی ہسپتال میں داخل ہیں۔ جہاں پر ڈاکٹر انور زاہدی اپنے گردے کا آ پریشن کروائیں گے،میں اور رضی ان کو دیکھنے کے لیے جب ہسپتال گئے تو معلوم ہوا ڈاکٹر عون محمد خان کی نگرانی میں ہونے والا آ پریشن نہ صرف ناکام ہوا بلکہ سرجن کی نااہلی کی وجہ سے ڈاکٹر انور زاہدی کے ایک گردے کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا۔
کچھ دنوں بعد ڈاکٹر انور زاہدی نشتر روڈ پر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں دوبارہ داخل ہوئے جہاں پر ان کا ایک گردہ نکال دیا گیا پھر یہیں سے ڈاکٹر انور زاہدی کی زندگی کے معمولات تبدیل ہونا شروع ہوئے،انہوں نے فوری طور پر ملتان سے اسلام آ باد ہجرت کرنے کا سوچا اور وہ ملتان چھوڑ گئے اس کے کچھ عرصے بعد ان کے والد محترم ڈاکٹر مقصود زاہدی والدہ محترمہ اور ان کی بہن ماہ طلعت زاہدی بھی اسلام آ باد منتقل ہو گئیں ۔پورا کنبہ اسلام آ باد جانے کے بعد ملتان والوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا خاص طور پر ڈاکٹر مقصود زاہدی کو جب یہ معلوم ہوتا کہ ملتان سے کوئی اسلام آ باد آیا ہوا ہے تو وہ انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت ضرور دیتے،اس زمانے میں اکادمی ادبیات پاکستان ہر سال ایک اہل قلم کانفرنس کروایا کرتی تھی جس میں ڈاکٹر مقصود زاہدی، انور زاہدی اور ماہ طلعت زاہدی سے ملاقات ہو جاتی۔ڈاکٹر مقصود زاہدی کے انتقال کے چند سالوں بعد ماہ طلعت زاہدی نے ڈاکٹر اسد اریب سے شادی کر لی اور وہ شادی کے بعد ملتان منتقل ہو گئیں ۔یوں زاہدی خاندان کی ایک بچھڑی ہوئی کونج ایک مرتبہ پھر ملتان آ بسی ۔
ملتان سے اسلام آ باد منتقل ہونے کے بعد ڈاکٹر انور زاہدی کا قلم ایسا رواں دواں ہوا کہ کبھی ان کے افسانوں کی کتاب سامنے آ تی تو کبھی شاعری کا مجموعہ،اس دوران وہ تراجم بھی کرتے رہے اور مختلف موضوعات پر مقالہ جات بھی لکھتے رہے،اس دوران انہوں نے اپنے والد گرامی پر بھی کتاب مرتب کی ۔ کیونکہ ان کے پاس لکھنے کے لیے بے شمار موضوعات موجود ہیں۔یہی وجہ ہے ان کا افسانہ آ ج کے حالات کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے وہ اپنے قلم سے شاعری ہو یا نثر ایسی خوبصورت تصویر بناتے ہیں کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے۔وہ اپنے افسانوں میں واقعہ نہیں سناتے بلکہ اس کہانی کا تانا بانا جوڑتے ہیں جو اب ہم سے دور ہو رہی ہے،ڈاکٹر انور زاہدی کی غزل ہو یا نظم وہ سب کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ان کے تخلیقی سحر میں ایک دنیا گم ہے کہ وہ ایک ایسا تخلیق کار ہے جس کی تخلیقات کا انتظار زمانہ کرتا ہے ڈاکٹر انور نے یہ مقام پانے کے لیے ایک طویل تپسیہ کی ہے اور وہ تپسیہ مطالعہ کی وجہ سے آ ئی ہے کہ انہوں نے عالمی ادب کے ساتھ اپنے ہم عصر ادب کو بھی سامنے رکھا ہے اسی وجہ سے ڈاکٹر انور زاہدی کی نثر میں وہ اسلوب دکھائی دیتا ہے جو ہمارے ہاں اس سے پہلے کسی لکھنے والے کے پاس موجود نہیں ڈاکٹر انور زاہدی قلم قبیلے کے ایسے فرد ہیں جس کو بچپن سے ہی نامور لکھنے والوں کی صحبت ملی پھر اس کے ساتھ ان کے والد گرامی کی رہنمائی نے ان کو شاندار افسانہ نگار اور شاعر بنا دیا۔
کچھ برس پہلے وہ ملتان اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں سے ملنے کے لیے آ ئے تو رضی ، مجوکہ اور میں نے ان کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی اس تقریب میں پورا ملتان یہ دیکھنے کے لیے آ گیا کہ کیا انور زاہدی کو ملتان کے دوست اب بھی یاد ہیں ؟ اس تقریب میں انور بھائی نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی اور جوانی سے لے کر بڑھاپے تک کی تمام یادوں کو تازہ کیا اور بتایا ملتان سے جانے کے باوجود ملتان اور اہل ملتان اب بھی ان کے دل میں بستے ہیں۔رات کو ہم چاروں شنگریلا چائنیز ہو ٹل ملتان کینٹ میں جمع ہوئے ۔ محتاط انداز سے کھانے کا آ رڈر کیا تو معلوم ہوا انور زاہدی اب ہر کھانے کے بارے میں بہت وہمی ہیں اور انہوں نے اس شب صرف سادہ سا سوپ پیا اور کہا کہ میرا ڈنر مکمل ہو گیا وجہ یہ ہے کہ وہ ملتان سے اسلام آ باد جانے کے بعد نیوٹریشن کے ڈاکٹر بن گئے تھے اس لیے اب انہیں معلوم تھا کہ کون سا کھانا صحت کے لیے اچھا ہے اور کون سا مضر صحت ،اسی ٹور میں ہم سب جناب اقبال ساغر صدیقی کی عیادت کرنے کے لیے ان کے بیٹے کرنل نشید کے گھر گئے جہاں پر ہم نے بہت سا وقت قہقہے لگاتے ہوئے گزارا ،ڈاکٹر انور زاہدی ملتان والوں سے ملاقات کرنے کے بعد کہنے لگے کہ اس مرتبہ سب سے باتیں کر کے بہت اچھا لگا ۔اب میں کوشش کروں گا کہ ملتان جلد سے جلد آ یا کروں گا،لیکن آ ج کے دن تک ممکن نہ ہو سکا کہ اس دوران ان کی پیاری چھوٹی بہن ماہ طلعت زاہدی کا انتقال ہوا ۔ کرونا کی وجہ سے وہ خود بھی علیل تھے، جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔اور اب تک ملتان نہ آسکے ،اپنی بہن کو یاد کر کے نہ صرف روتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ کرونا نے مجھے بہن کے آ خری دیدار سے محروم رکھا۔
ڈاکٹر انور زاہدی پر لکھنا مجھ پر اس لیے بھی واجب تھا کہ جب میں ان کی دی ہوئی کڑوی دوا کھاتا تھا تو ان کی میٹھی میٹھی شاعری میرے منہ اور ذہن کا ذائقہ تروتازہ کر دیتے تھے اور آ ج یہ حالت ہے کہ طبیعت خراب ہونے پر دوا تو میں کسی اور ڈاکٹر کی کھاتا ہوں لیکن منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے فیس بک پر ان کی شاندار شاعری پڑھ کر یہ محسوس کرتا ہوں کہ دنیا کی کوئی دوا بھی کڑوی نہیں ہوتی اگر آ پ دوا کھانے کے بعد انورزاہدی کی شاعری یا نثر پڑھ لیں۔
فیس بک کمینٹ