وادی سندھ کے تاریخی ،ثقافتی اور سیاسی نمائندہ شہر ملتان کو تاریخ میں بے شمار حوادث سے دوچار ہونا پڑا ہے۔یہ حوادث برصغیر کے اندرون اور بیرون سے مختلف حملہ آوروں کی صورت میں یہاں سیاسی عروج وزال کا باعث بھی ثابت ہوتے رہے ہیں۔عتیق وجدید ادوار کے مؤ رخین نے یہ عروج وزوال مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھنے کی سعی کی ہے۔دراوڑی زمانے سے آریائی عہد تک حملہ آوروں نے وادی ء سندھ میں بالعموم اور خطہء ملتان میں بالخصوص حیات انسانی کے مختلف شعبوں میں بہر نوع مثبت ومنفی اثرات مرتب کیے ۔دور قدیم میں سکندر مقدونی کے ملتان پر حملے کا احوال مؤرخین کے نزدیک انتہائی اہم تصور کیاجاتا ہے۔وادی سندھ کے صدر مقام شہر ملتان کے کامیاب دفاع کے نتیجے میں سکندر کا شدید زخمی ہونا اور سفرمراجعت کے دوران اس کا انتقال اغلباً اس لئے بھی صفحات تاریخ کی زینت بنتا رہا ہے کہ برصغیر پر اقوام مغرب کی توجہ ،اہل انگلستان کی یہاں پر ایک طویل دور کی حکومت کے نتیجے میں رہی۔برطانوی دور اور آزادی کے بعد سب سے کم احوال ان حملوں کے بارے میں دستیاب ہے جن کے نتیجے میں وادی سندھ کے اہم مراکز بالخصوص ملتان کی قبل اسلام اور مابعد اسلامی دور میں ریاستی اور صوبائی مستحکم حیثیت تاخت وتاراج ہوئی اور مرکز واقتدار کو اس شہر اور خطے سے باہر منتقل کرکے ملتان شہر اور سرائیکی خطے کی حیثیت کو ثانوی سے بھی کم تر حیثیت دیدی گئی۔
۲جون۸۱۸۱ءکو صوبہ ملتان کی آزاد اور خود مختار اسلامی حیثیت کا خاتمہ ،نواب مظفر خان کی شہادت اور رنجیت سنگھ کے دربار لاہور کی سرائیکی خطے پر بالادستی (جسے بالاختصار ”سقوط ملتان“کی حیثیت سے موسوم کرنا زیادہ قرین انصاف ہوگا)کو بحیثیت واقعہ آج کی دست یاب قومی تاریخ میں کوئی مقام حاصل نہیں ہے ۔دور موجود میں قومی تاریخ کے حوالے سے مباحث کا آغاز قومی تاریخ کو چشم غیر کے بجائے زمین زاد کی آنکھ سے دیکھنے اور پرکھنے کی ایک سعی اور اقوام عالم کی صف اول میں شامل ہونے کی خواہش بھی ماضی کو ایک دیانت دار منصف کی حیثیت سے دیکھنے کی متقاضی ہے ۔عالمی سطح پر وطن عزیز کی سربلندی اور ناموس پاکستانیت کی بحالی کے لیے از حد ضروری ہے کہ اس خطے کے زمینی ہیروز کی سربلندی ناموس اور عظمت کو نئے سرے سے بحال کیا جائے ۔ماضی قریب وبعید کی معلوم اور مروج تاریخ میں مصلحتوں کے اسیر زعماءکے بجائے ان اکابرین کے کارہائے عظمت کو نمایاں کیا جائے جنھوں نے اس خطے کی آزادی ،حمیت ،ثقافتی اقدار اور عقائد کی سربلندی کے لیے ہمیشہ اپنی مادر وطن کو مع اہل وعیال خون کا نذرانہ پیش کیا مگر اپنی آزادی کو حملہ آور کے قدموں میں نہیں گرنے دیا۔
اہل ملتان نے ماضی قدیم سے اس روایت کی امانت کی کہ معلوم تاریخ میں سکندر مقدونی کے دورسے سکھ اور انگریز حملہ آوروں کے ادوار تک ایک شدید مزاحمت کا عمل جاری رکھا۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ جدوجہد آزادی میں مزاحمت کی اہمیت اور حیثیت ہوا کرتی ہے۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مزاحمت کا رویہ ان اقوام میں در آتا ہے جو تاریخی طور پر کسی عظیم ثقافتی ورثے اور اعلیٰ ترین اخلاقی اقدار کی امین ہوا کرتی ہیں۔حملہ آور اور غیر ملکی حکمران کے غالب آنے میں سب سے بڑی رکاوٹ مفتوح ومجبور قوم کا یہی تاریخی شعور ہوا کرتا ہے اور اسی شعور سے محروم کرنے کے لیے حملہ آوری نقطہ نگاہ سے مطلوب ومفید تاریخ نویسی کا اہتمام کیاجاتا ہے اور مفتوح عوام کو تاریخی عظمت سے نکالنے کے لیے ایک احساس ندامت وکمتری کا بندوبست کیاجاتا ہے۔
وادی سندھ کے مرکز سرائیکی خطے میں آریائی دور میں یہاں کی مقامی دراوڑآبادی کے ساتھ یہی تاریخی عمل روا رکھا گیا ۔اس دور کی دست یاب تاریخ ،مذہبی شاعری حتیٰ کہ لوگ دانش تک میں مقامی کالے باشندوں کو احساس ذلت میں رکھا گیا جس کے نتیجے میں ایک طویل عرصے تک یہاں کی مقامی آبادی اپنی صدری معلومات کی بنیاد پر آریائی تاریخ وادب اور مذہبیات پر ایمان نہ لاسکی ۔حملہ آور کے خوف کی بنیاد پر اقرار لسانی تو کرتی رہی مگر تصدیق قلب نہ کرسکی اور حکومت وقت کے خلاف ایک مسلسل اضطراب اور اضطرار کی کیفیت میں ہونے کے نتیجے میں پورے آریائی دور میں کوئی قابل ذکر عظیم تخلیقی وتہذیبی عمل انجام نہ پاسکا جو دراوڑی دور کی شناخت تھا(جس کی نشان دہی تاریخ میں پہلی مرتبہ بیسویں صدی کے اوائل میں موہن جوداڑو ،ہڑپہ اور ٹیکسلا کے آثار نے کی)۔
وادی سندھ کے اسی مؤقر اور معتبر ماضی کے حامل سرائیکی خطے کے مرکزی اور نمائندہ شہر ملتان کی تاریخی بازیافت ،ہیروز کی شناخت اور حیات نو ،جس کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت آج ملکی سطح پر بیک وقت بین الصوبائی اور بین الاقوامی بھی ہے ،ملکی تاریخ کی حقیقت اور عظمت کی جانب پیش رفت کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔سکھوں کے ہاتھوں ۸۱۸۱ءکا سقوط ملتان ،دراصل ۸۴۸۱ءمیں انگریزوں کے ملتان پر قبضے کا پیش خیمہ تھا۔تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین بخوبی سمجھتے ہیں کہ سکھوں کے حملے ،ملتان میں ایک آزاد ار خود مختار اسلامی مملکت کے خاتمہ ،نواب مظفر خان سدوزئی کی شہادت (مع پسران ودختر بلند اختر صفیہ خانم ودیگر شہداء)کے بعد وادی سندھ کے اس خطے جسے آج پاکستان کی حیثیت حاصل ہے ،کو ایک آزاد اسلامی ریاست (بطرز ریاست اسلامی بہاولپور ودیگر )کے طور پر زندہ رکھ کر یہاں کے عظیم تاریخی ورثے اور تہذیب و ثقافت کو ایک ناقابل تلافی نقصان سے بچایا جاسکتا تھا مگر ماضی تو بہرحال ماضی ہی رہتا ہے جسے بدلنا کار انسانی کی بساط میں نہیں۔البتہ ماضی کے حقیقت پسندانہ اندراج اور دیانت دارانہ تجزیے کی بنیاد پر ہی روشن مستقبل کی تشکیلات ممکن کی جاسکتی ہیں ۔زمین کی کوکھ سے پھوٹنے والی شہیدان باصفاءکی داستانیں اور دھرتی کی باس میں رچی ہوئی سچی کہانیاں اس سے پیش تر کہ فسانے اور قصہ پارینہ میں تبدیل ہوکر نسل نو کی عدم توجہی کا شکار ہوچلیں انہیں بطور تاریخ رقم کرنا ہوگا۔
سقوط ملتان اور شہید مظفر خان کے حوالے سے مروج تاریخ سے پہلو تہی اور بے اعتنائی اپنی جگہ پر درست مگر ”Mooltan: Before And After The Siege“کے مؤ لف اور مصنف نے شہدائے ملتان کی شہادت کے لمحوں کو جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے وہ بیک وقت دل کرفتگی اور چشم کشائی کا باعث ہیں ۔ڈاکٹر ڈنلپ رقم طراز ہیں :
”Here the old Nawab (Muzzafar Khan), with his eight sons and fiersely fighting daughter (Safia Khanum), stood sword in hand, resolved to fight to death. So many fell beneath the keem sword of the Nawab and the Sikhs drew back and opened fire on the little party.
Come on like men’ shouted the Nawab’ and let’ s fall in fair fight’ but this was as invitation that Sikhs did not accept. Nawab Muzzfar Khan Scorning to accept surrender died and also died five of his sons and courageous daughter.”
سقوط ملتان کے سانحے کو بہت سے سرائیکی لکھاریوں نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا ۔اس ضمن میں ایک شاعر اپنی کافی میں کہتے ہیں:
شہر پناہ تے ڈھک آئی ہے پورب توں کوئی لام
خلق اللہ دی آن کھڑی وت سور اللہ دا نام
اجڑے شہر دے باغاں تے جے ساون وس وی پووے
چنبے وچوں کفن ڈسدن گلاب وچوں قتلام
رات ہجر دی لکھ لکھ پنےّ دل دیوان کروں ہا
بندی خانے ٹک پوندی جے ویندی رُت دی شام
شمس دی درگاہ تے وجے ڈاہویں دا وت مارو
پھل پتری گھن ہتھاں دے وچ قبراں کروں سلام