برطانیہ کی کوکھ سے 1947 ء میں پیدا ہونے والے دو ملک خود کو جمہوریت کے علمبرادار کہتے ہیں ۔ آئیے ان دونوں ملکوں کے جمہوری رویوں کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہاں جمہوریت جمہور کے لئے کس قدر فائدہ مند ثابت ہوئی ۔ پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے ، پاکستان کے شہری جرائم کے بعد پھر سے برطانیہ کی گود میں جا چھپتے ہیں اور برطانیہ بھی کسی ماں کی طرح ہر برائی کیساتھ انہیں پناہ دے دیتا ہے، بلکہ پاکستان سے جمہوری ادوار میں لوٹی گئی دولت کو چھپانے اور اس کو جائز قرار دینے میں بھی مدد فراہم کرتاہے ۔ کہا جاتا ہےکہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس یہاں تو بھینس بھی برطانیہ کی اور لاٹھی بھی برطانیہ کی ہے، پاکستان کی جمہوریت کے زیادہ تر فیصلے برطانیہ میں کئے جاتے ہیں ۔ جمہوریت کی اصل روح یہ ہے کہ عوام کی طاقت سے اقتدار حاصل کیا جائے اور پھر اس کا بھر پور فائدہ بھی عوام کو ہونا چاہئے مگر جمہوری ادوار میں حکومت کرنے والے صاحبان اقتدار آج کس قدر دولت کے مالک ہیں وہ خود اس سے بے خبر ہیں کہ کہاں پر کتنی دولت چھپائی گئی ہے۔ اگر ان تمام صاحب اقتدار افراد کی دولت کا سرسری جائزہ لیا جائے تو اقتدار سے قبل اور اقتدار کے بعد ان کی دولت میں کس قدر اضافہ ہوا اس کا اندازہ مشکل ہے،یہ لوگ اقتدار کی نسل در نسل منتقلی کے حامی ہیں اور صرف اپنے خاندان کے افراد کے فائدے کے لئے لوگوں کااستحصال کیا جاتا ہے۔
جمہور کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے اب بات ہو جائے برطانیہ کی دوسری اور چھوٹی اولاد بھارت کی جس میں جمہوریت کا نام تو بہت لیا جاتا ہے مگر وہاں پر بسنے والے مختلف مذ اہب کے لوگوں پر جس طرح سے ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی ، ہر مذہب کے لوگوں پر ظلم بھارتی انتہا پسندوں کی روایت بن چکی ہے۔ بھارتیوں میں برداشت کا مادہ نہ ہونے برابر ہے ۔ دنیا میں کشمیر کا مسئلہ سب سے اہم ہے ، اقوام متحدہ کے احکامات کے باوجود وہاں کے نہتے مسلمانوں پر ظلم کرنا بھارت کی عادت بن گئی ہے جو اپنے ہی لوگوں پر ظلم کرتا ہے ۔کیا ایسے ممالک خود کو جمہوری کہنے کا کوئی حق رکھتے ہیں جمہوریت کے نام پر جمہور کو ظلم کا نشانہ بنانے والے دونوں جمہوری ملکوں کی ماں برطانیہ کو اب اپنی اولادوں کو جمہوریت کے اصل اصول بتاناچاہیئں تاکہ ان ممالک کے عوام بھی جمہوریت کے ثمرات حاصل کر سکیں
فیس بک کمینٹ